عید قرباں کی آمد آمد ہے۔ ہرصاحب
استطاعت اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قربانی خریدرہا ہے یا خریدنے کا منصوبہ
بنا رہاہے۔ قربانی حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت
ابراہیم ؑکو حکم دیا کہ اپنے بیٹے حضرت اسمعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قربان
کر دو تو آپ نے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کی۔ یہ قربانی تو اللہ کے حکم
سے اس کی اطاعت کی خاطر تھی مگر دنیا میں انسان اپنے مفاد کی خاطر بھی
قربانی لیتے ہیں۔ قربانی کی یاد سنت ابراہیمی سے کی وجہ سے نہیں آئی کیونکہ
یہ قربانی تو دنیاکے ہر مسلمان کویاد ہے۔بلکہ قربانی کی یاد اس خبر سے آئی
کہ سپریم کورٹ نے سوئس حکومت کولکھنے جانے والے خط کا مسودہ منظور کرلیا ہے
۔ صبح صبح انٹر نیٹ کے ذریعے مختلف اخبارات پر نظر ڈال رہا تھا کہ پہلے ہی
اخبار کی ایک خبر پر میری نظر پڑی جو چوہدری نثار کا بیان تھا ۔ مجھے
چوہدری نثار کاوہ بیان یاد آگیا جو چند دن پہلے اخبارات میں چھپاتھاکہ
زرداری گیلانی سے تنگ تھے اور وہ گیلانی کو فارغ کرنا چاہتے تھے مگرمیں
سمجھاکہ شاید یہ سیاسی بیان بازی یا شوشہ چھوڑا جارہا ہے ۔ مگر سوئس خط
پرزرداری حکومت کے یو ٹرن نے اس بات کو سچ ثابت کردیا۔ عوام تو یہاں سمجھ
رہی تھی کہ شاید ان چھ ماہ میں حکومت سپریم کورٹ سے مزیدمحاذ آرائی رکھے گی
اور دو چار وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر قربان کرائے گی۔
اللہ جانتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ گیلانی کے جاتے ہی حکومت کو عقل آگئی یا
صرف گیلانی کو ہی قربانی کا بکرا بنانا تھا؟ اس یو ٹرن سے توثابت ہوتا ہے
کہ جو بیان چوہدری نثار نے دیا وہ سچ پر مبنی تھا۔ اب کچھ کچھ بات سمجھ میں
آرہی ہے کہ قربانی کے صحیح طریقہ تو زرداری کو آتے ہےں ۔ سب سے پہلے
ذوالفقار مرزا کوآسمان پر چڑھایا اور پھر جو حال اس کا ہوا ہے وہ سب کے
سامنے ہیں اس کے بعد بابراعوان نے حکومت کا ڈھول اپنے گلے میںڈال لیا اور
عدلیہ سمیت بیان بازی میں سب کو آگے لگایا اور پھر اس کو ایسا گرایا کہ
دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا رہا۔ اسے پیپلزپارٹی کے تمام عہدوں سے ایسے
نکالا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بالکل ایسے جیسے ذوالفقار مرزا کو ہیرو بنا
کر زیروبنایا۔
اس کے بعد اس وقت کے وزیرا عظم کو ایسا ہیرو بنایا کہ دنیا نے دیکھا گیلانی
عدلیہ کو دوٹوک الفاظ میں جواب دیتے رہے کہ سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا
جائے گا یہاں تک کہ ایک کالج میں خطاب کے دوران کہہ دیا کہ اگر وہ خط نہ
لکھیں تو عدلیہ کے مجرم اور اگر لکھیں تو آئین کے مجرم بنتے ہیں۔ یہ بیان
گیلانی کا ذاتی نہیں تھا بلکہ یہ حکومت کا فیصلہ تھا ۔ جس کی وجہ سے گیلانی
کو نا صرف وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا گیا بلکہ ان کو نااہل بھی قرار
دیا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ سیاست سے بھی آؤٹ ہوگئے۔
اب اگر اس بیان کو مدنظر رکھیں توکیا خط لکھ کر راجہ پرویز اشر ف آئین سے
انحراف نہیں کررہے؟ اگر حکومت کا وہ فیصلہ تھا تو یہ فیصلہ کس کا ہے ؟ سوال
یہ ہے کہ اب کس چیز نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ خط لکھنے پر آمادہ ہوگئی؟
اگر ان سب باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ
ان کے مشیر گیلانی حکومت کو فارغ کرانا چاہتے تھے اس طرح سانپ بھی مرگیااور
لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ |