آزاد کشمیر میں روائیتی سیاست کاری اور آزادی پسندوں کا کردار

اس وقت آزاد کشمیر میں کون سی سیاسی جماعت کس پوزیشن میں ہے ،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کون سے لوگ کردار ادا کر رہے ہیں ،آزادی پسند ذاتی مفاد ات سے بالا تر ہوئے ہیں کہ نہیں ؟میں ایک سیاسی پارٹی بنانا چاہتا ہوںجو صرف یواین کی اس قرار داد کے حوالے سے کام کرے جس میں رائے شماری کیلئے مجوزہ طریقہ کار بتایا گیا تھااس لیے مجھے مشورہ دیں کہ اس تمام صورت حال میں میں کیا کروں ؟ یہ سوال تھے میرے ایک دوست کہ جو لمبے وقت سے یورپ میں مقیم اور سیاست سے عملاً دور ہیں ۔اس لیے میں نے اس دوست سمیت باقی لوگوں کیلئے جو آزاد کشمیر کی موجودہ سیاست کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں کیلئے یہ تحریر اپنے ذاتی تجزیے کیلئے لکھ دی ہیں ، آزاد کشمیر کی سیاست ایک اپنا الگ ہی انداز ہے ، ایک عرصہ تک حکومت کرنے والی اور واحدریاستی جماعت ہونے کا ناجائز دعویٰ کرنے والی مسلم کانفرنس کا وجود مفلوج ہو چکا ہے ،عتیق خان اپنے سپہ سالار کے ساتھ میدان میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے دن رات ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں ،شہر شہر پروگرامات منعقد کروائے جا رہے ہیں ،رہے سہے کارکنان کو بچانے کیلئے سیاسی اصولوں کو بھی خاطر میں رکھے بغیر جماعتی تقرریاں کی گئیں جن پر کارکنان کے تحفظات ختم نہیں ہو رہے ،کچھ ایسے لوگوں کو جو اپنے پارٹیوں سے کنارہ کشی کر چکے تھے ان کو لانے کیلئے حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے ،طلباءیونٹ ایم ایس ایف کا تقریبا ً صفایا ہو چکا ہے ،اس سیاسی نظام میں حکومتی ایوانوں میں واپسی مشکل لیکن ناممکن نہیں ہے خود کو سواد اعظم کی چیمپین کہنے والی جماعت کواب لمبے عرصے تک انتظار کرنا پڑے گا لیکن اس پرٹی کے موجودہ صدر سردار عتیق خان جو ایک اچھے سیاسی ورکر تو ضرور ہیں لیکن نظام حکومت چلانا ان کے بس کی بات نہیں ، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے منعقدہ فورمز پر بیرونی ممالک کے دوروں پر جا کر کشمیر کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ جموں کشمیر پیپلز پارٹی جو آزاد کشمیر میں محدود وﺅٹ بنک رکھتی ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ الیکشن اتحاد قائم ہوئے ہے ،جماعت کے صدر سردار خالد ابراہیم خان ایک بڑی سوچ کے حامل شخص ہیں جن کی نظر دنیا میں وقوع پذیر بڑے معاملات اور نظام حکومتوں پر ہوتی ہے ، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی کانفرنسز میں شرکت بھی کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے پاس کارکنان کی تعداد محدود ہے ،مستقبل بعید تک اس پارٹی کی حکومتی ایوانوں میں نمائندگی ممکن نظر نہیں آتی ۔

جماعت اسلامی مخصوص اسلامی نظریے کے ماننے والوں کی جماعت ہے جماعت کیلئے کام کرنے والے تربیت یافتہ کارکنان کی ایک بڑی کھیپ موجودہ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبدالرشید ترابی،نائب امیر ڈاکٹر خالد محمود اورسابق امیر اعجاز افضل خان کی موجودگی میں ہر وقت متحرک رہتی ہے اور یہ رہنماءمسئلہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی فورمز پر بھی جاتے ہیں ،تمام دس اضلاع میں جماعت کی نمائندگی موجود ہے ، شباب ملی کی مکمل حمایت اورطلبہ یونین اسلامی جمعیت طلبہ کو وسیع اور متحرک ترین نیٹ ورک کے باوجود عام عوام میں مقبولیت کم ہونے اور اپنے کارکنان کی فلاح تک ہی محدود رہنے کے ایجنڈے کی بناءپر حکومتی ایوانوں تک رسائی مستقبل بعید میں بھی نظر نہیں آتی ۔مسلم لیگ ن جو آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کی توڑ پھوڑ اور ایک مخصوص برادری کی قیادت و سپورٹ کی وجہ سے وجود میں آئی اور کچھ مضبوط ہوئی ،آزاد کشمیر کے گزشتہ الیکشن میں پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہونے کی بناءپر مہاجرین کی سیٹیں لینے میں کامیاب ہو کر آزا دکشمیر اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت بن گئی ۔اس جماعت کو جو مواقع اپوزیشن لیڈر شپ ملنے کی حیثیت سے میسر آئے وہ اس نے چاپلوسی اور مجید حکومت کے اقتدار کو طول دینے کی ساز باز اور اندرونی خلفشار میں شرکت کر کہ اپنی حیثیت کم کر دی گو کہ آزاد کشمیر میں قائم اس جماعت کے فیصلے بھی رائیونڈ سے مسلط ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر میںاس کے کارکنان اور سابق صدر و وزیر اعظم سکندر حیات، سابق وزیر اعظم راجہ فارو ق حیدر،نجیب نقی و دیگر پارٹی رہنماﺅں کی ایک لمبی فہرست ان کے پاس موجود ہے ، لیکن مرکز کے اندرونی اختلافات اور ن لیگ کا آزاد کشمیر میں طلباءیونٹ انتہائی غیر فعال ہونے کی وجہ سے پارٹی کے پروگرامات میں کشش نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پاکستان میں آئندہ ہونے والے جنرل الیکشن پر اس جماعت کے تمام رہنماﺅں و کارکنان کی امید ہے کہ وہاں حالات ن لیگ کے حق میں ہوں تو یہاں خود بخود ن لیگ اکثریت میں آجائے گی ،لیکن یہ ان کے سوہانے خواب ہی لگتے ہیں کیونکہ اگر پاکستان میں ن لیگ حلیفوں کے ساتھ مل کر اکثریت میں آبھی جاتی ہے تو یہاں آزاد کشمیر میں کارکنان و رہنماﺅں کو اپنے حالات اپنی کارکردگی سے خود بدلنے ہونگے ۔ایم کیو ایم آزاد کشمیر میں مہاجرین کی سیٹوں سے نازل ہونے والے طاہر کھوکھر اور سلیم بٹ کے ناموں تک ہی محدود ہے ،کارکنان کی ایک بہت مختصر سی تعداد ہر ضلع میں موجود ہے،آزاد کشمیر کی عملی و اصولی سیاست میںاس پارٹی کا کوئی کردار نہیںلیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک ،دو نشستیں ہونے کی وجہ سے حکومت سے اپنے کام نکلوا دیتی ہے ۔تحر یک انصاف آزاد کشمیر تمام 10اضلاع میں کچھ نہ کچھ موجود تو ہے لیکن تحریک انصاف کے کارکنان و رہنماءبھی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ،لیکن تحریک انصاف کا طلباءیونٹ آئی ایس ایف آزاد کشمیر بھر میں سب سے زیادہ متحرک قرار دیا جاسکتا ہے ،اس طلبہ یونٹ کو قیادت کی ضرورت ہے لیکن پی ٹی آئی آزادکشمیر کی سرپرستی کی ذمہ داری مصدق خان کے پاس ہے جو پاکستان کے گرمائی چھ ماہ یورپ میں اور سرمائی کے چھ ماہ پاکستان میں گزارتے ہیں ،آزاد کشمیر میں مخلص کارکنان تو موجود ہیں لیکن آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کے پاس بھی قیادت موجود نہیں ۔اس لیے اس جماعت کی نظریں پاکستان کے جنرل الیکشن میں سونامی کے آنے کا انتظار کر رہی ہیں ، جمعیت طلباءاسلام آزاد کشمیر میں چند ہی مخصوص لوگ شامل ہیں ان کا سیاست سے عملاً تعلق نظر نہیں آتا۔ پاکستانی پیپلز پارٹی جو اس وقت آزاد کشمیر کی سب بڑی سیاسی جماعت اور مرکزی جماعت وفاق میں بھی پانچ سال سے بر سر اقتدارہے اور آزاد کشمیر میں بھی اسی جماعت کی گزشتہ 14ماہ سے حکومت ہے اس پارٹی کے پاس مفاد پرستوں کی لمبی قطار موجود ہے ،اس پارٹی کی آزاد کشمیر میں موجودحکومت میں 24وزیر ،25مشیر 30کو آرڈی نیٹر ہیں جو ماہانہ اربوں عوامی روپے ا ± ڑا رہے ہیں لیکن کارکردگی نہ ہونے کے برابر ،لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر میں 14ماہ کی اس حکومت نے تعلیمی میدان میں عملاً بڑے اقدامات کیے ہیں جس میں یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالجز کے کارنامے نمایاں ہیں ،حکومتی پارٹی میں گروپنگ کی وجہ سے وزیر اعظم کو بلیک میل کر کہ مفادات حاصل کرنے والے وزیروں اور مشیروں کی تعداد کثیر ہے ،حکومت چلانے والی پارٹیز میں گروپ بندی کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس حد تک عوام دشمنی اور کرپشن ناقابل معافی ہے ، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے یعقوب خان کو صدر حکومت بنایا گیا جو اس وقت وفاق کی آشیر باد ،پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت اور آزاد کشمیر بھر میں اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے با اثر ترین شخص ہیں ،لیکن عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہے ۔پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے پاس مزے سے اقتدار کے مزے لوٹنے کے دن کم رہ گئے ہیں ، پیپلز پارٹی آزاد کشمیر پر یہ الزام بجا طور درست ہے کہ ان کے تمام چھوٹے بڑے فیصلے زرداری ہاﺅس یا فریال تالپور سے ہو کر نافذ ہوتے ہیں، جیسے ہی وفاقی حکو مت تبدیل ہوتی ہے آزاد کشمیر والوں کی عیاشیاں بھی ساتھ ختم ہو جائیں گی۔آزاد کشمیر بھر میں آزادی پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو پاکستان اور ہندوستان دونوں سے علیحدگی آزاد کشمیر کو خود مختار ریاست،معائدہ کراچی ،گلگت آرڈرنا منظور اور آزاد کشمیر میں لینٹ آفیسران کی بے دخلی کا مطالبہ کرتے ہیں ،تمام دس اضلاع میں ان کے پاس بھرپور نمائندگی موجود ہے اور بیرون ممالک موجود کشمیری کمیونٹی کی سب سے زیادہ حمایت بھی انہی کو حاصل ہے ،آزادی پسندوں میں درجن سے زائد گروپ بنے ہوئے ہیں لیکن موجودہ وقت میں'' قومی انقلابی تحریک '' 'نرم 'کے پلیٹ فارم پر تمام آزادی پسند اکھٹے ہوئے ہیں جو ان کے مقصد کیلئے اور مسئلہ کشمیر کے لیے خوش آئیند امر ہے ،اگر یہ فورم کامیابی سے سفر کرتا رہا تو آزاد کشمیر میں حقیقی اپوزیشن یہی فورم کر سکے گا اور حکومت پر اس کا اثر بھی پڑنے کے ساتھ یہ اپنے مطالبات کو منظور کروانے کی جانب بھی بڑھ سکتے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے اس دوست اور ان جیسے دیگر لوگ جو اپنی الگ سے دو اینٹوں کی مسجد بنانے کے خوائش مند تھے ،کسی اور پارٹی کہ سفر میں شریک کار ہوتے ہیں یا کوئی اور اقدام کرتے ہیں یہ فیصلہ اب ان پر ہے ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 70786 views Columnist/Writer.. View More