ملالہ پر حملہ ،ذمہ دار کون ہیں؟

1998میںوادی سوات کے سرسبز وشاداب پہاڑوں خوبصورت بہتی آبشاروں اور پرسکو ن ہواﺅں میں ایک ننھی کلی نے جنم لیا جس کا نام ملالہ رکھاگیا ۔ضیاءالدین یوسفزئی نامی ایک تعلیم یافتہ پختون کے ہاں قدم رکھنے والی دلیرنڈر بے خوف ملالہ فطرتابے پناہ صلاحیتوں کی مالک تھی ۔وہ تعلیم سے شغف بھی رکھتی تھی اور قلم سے محبت بھی ‘اس میںقوت گویائی کا ملکہ بھی تھا اورانسانی کھوپڑیوں کو پڑھنے کا سلیقہ بھی تھا ‘اسے مظلوموں اور حاجت رواﺅں کی دستگیری اور اشک جوئی کا شوق بھی تھا اور ظالموں کے خلاف صدائے حق بلند کرنے کا جذبہ اورعزم بھی تھا ‘وہ پرامن پرسکون معاشرہ کی دلدادہ بھی تھی اور ایماندا رمحب وطن سیاستدانوں کی خیرخواہ بھی تھی ۔وہ زندگی میں کچھ کرناچاہتی تھی جس کے لیے قدرت نے اسے صلاحیتیںبھی دے رکھیںتھیں اوروسائل کے انبا ر بھی عطاکر رکھے تھے ۔والد سکول کے پرنسپل او ر قوم کو انصاف فراہم کرنے والے روایتی سواتی جرگہ کے ترجمان تھے ۔ان حالات میں ملالہ کو اپنے عزائم مکمل ہوتے نظرآتے تھے لیکن چالاک یاروں کی چالبازی اور بدنام زمانہ دنیاوی آقاﺅں کی فرمانبرداری اور اپنوں کی غداری نے ملالہ کے پرسکون پرامن سوات میں امن امان کے بے بنیاد شوشے اور من گھڑت مفروضوں پر اندھا اعتماد کرکے آگ وخون کا ایک ہولناک منظر تشکیل دے دیا جس میں ننھی پری کے پربھی جھلس کر بھسم ہونے لگے اور اس کے حسین خواب بھی پراگندہ ہونے لگے ۔ ننھی ملالہ اپنے شہر میں غیروں کے اشاروں پر لگائی گئی آگ کو دیکھ کر دن رات ملال کھاتی ،مگربزدلی کم ہمتی اور سستی اس کے نزدیک خود کشی تھی چنانچہ اس نے اس وحشت ناک منظر میںبھی مشعل ِعلم اٹھائے اپنا سفر جاری رکھا اور اپنی تعلیم میں رکاوٹوںکو ڈھانے کے لیے قلم کی قوت کواپنائے رکھا۔

2009ءمیں اس نے بی بی سی پر گل مکئی کے فرضی نام سے اپنے خوبصورت شہر میں ہونے والے المنا ک مظالم کی داستا ن لکھنا شروع کی جس میں نہ صرف وہ اپنی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکرکرتی بلکہ اپنی جیسی سینکڑوں معصوم کلیوں کے عظیم راستے میں بچھے ہوئے کانٹوں کارونا بھی روتی ۔ملالہ کی معصومیت شجاعت صلاحیت کو دیکھ کر اسلام مخالف قوتوں سے رہانہ گیا اور وہ اس کے قلم سے نکلے ہوئے ”شہ پاروں“ کو اپنے ظلم وجبر سے لت پت مکروہ چہرے پر نقاب کی جگہ استعمال کرنے لگے ،چنانچہ پیر سولہ جنوری 2009کو اس کے قلم سے اسلامی شعائر کی تضحیک پرمبنی دل خراش جملے بی بی سی کے لیے زیب قرطاس بنتے ہیں جس میںسنت رسول سجانے والوں کو فرعونوں اور برقعہ زیب تن کرنے والی حوا کی بیٹیوں کو پتھر کے زمانے میں بسنے والے گنواروں سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔یوں رفتہ رفتہ وہ دنیاکی آنکھوں کا تارہ بن جاتی ہے اور اسے گیارہ سال کی عمر میں دنیامیں قیام امن کی خاطر کوششیں کرنے والے 245ممالک کے بچوں میں سے” انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ کے“ لیے نامزد پانچ بچوں کی فہرست میں جگہ دے دی جاتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے قیام امن کے یہ مغربی ٹھیکدار تو انعام دے نہیں سکتے مگر ان کے گدی نشین مشرقی حکمران ”ملکی قومی امن“ انعام کی مد میں پانچ لاکھ کا عطیہ دے کراس معصوم کے ”حوصلوں“کوسہار ا دے دیتے ہیں۔ اس ایوارڈ کے بعد پہاڑوں میں بسنے والی ملالہ کا تذکرہ زبان زد عام ہوجاتاہے ،دجالی میڈیا اس پر دستاویزیں فلمیں بناتاہے انٹرویوز لیتاہے تاکہ فساد فی الارض کرنے والے عالمی مجرموں کوبے گناہ باور کرایاجائے اورانہیں عالمی امن وامان کا چمپئین مانا جائے ،یہی وجہ تھی کہ 2011میں پاکستان کے معروف اینکر پرسن نے ملالہ سے عجیب سوال کیا کہ آپ کا سیاسی رول ماڈل کون ہے؟جواب میں نہ معلوم کس نے ان کی زبان پر یہ ورد جاری کروایا ،کہ وہ دنیاجہاں کے غنڈوں کے سردار اوبامہ کو اپنا آئیڈیل کہہ بیٹھیں‘جس کے بعد اس معصوم کے گردخوف و دہشت کے سیاہ بادل منڈ لانے لگے اور اس کی حیات تنگ ہونے لگی ۔باالاٰخر وہ 9اکتوبر 2012کی دوپہرکو انہی” خیرخواہوں“کی مفاد پرستی کا شکار ہوگئی اوربزدل درندوںنے اس صنف نازک پر اپنا ہاتھ صاف کر دکھایا مگر ”جسے خدارکھے اسے کون چکھے “کی مصداق بہادر ملالہ پر یہ وار کامیا ب نہ ہوااور وہ اکھڑی سانسوں کوپرسکون سانسوں میں بدلنے کی تگ دو میں لگی ہوئی ہے ۔

ملالہ پر حملے کے بعد پور ی دنیا سکتے میں آگئی ،اوبامہ سے لے کر بان کی مون تک،ہیلری کلنٹن سے حامد کرزئی تک ہر کوئی اپنے اس قیمتی ”اثاثے“ پر رہزنی کرنے والوں کی مذمت کررہاہے اوراسے دہشت گردی اور غنڈہ گردی قراردے رہاہے۔صدر زرداری سے لے کر آرمی چیف کیانی تک ہرایک اس المناک واقعہ پر غم زدہ ہے اورموٹے موٹے آنسو بہارہاہے ۔یہ واقعہ یقینا بزدلانہ کاروائی اورمذموم حرکت ہے ،کوئی محب وطن اور محب اسلا م اس طرح کی نیچ اور گھٹیاحرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ،مگر کیاملالہ جیسی سینکڑوں ملالاﺅں پر دن دیہاڑے ڈرون مارکر ان کے نرم ونازک اجسام کے پرخچے اڑانا قابل مذمت اور لائق تذلیل نہیں؟کیا قیام امن کی خاطر جدوجہد کرنے والے اورعلم وآگہی پھیلانے کی خاطر چٹائیوں پر بیٹھنے والے درویش صفت بزرگوں اور معصوم بچوں پر بم برسانا رہزنی اور ڈاکہ زنی نہیں؟کیا جنوبی وزیرستان ،خیبر ایجنسی مالا کنڈ اورکزئی جیسے پرامن علاقوں میں بسنے والے ہزاروں بے گناہوں کو گھر بار سے محروم کرنا دہشت گردی نہیں؟کیاہوس کے پجاریوں کو مظلموم بے گناہ عافیہ پر ہونے والے المناک مظالم غم زدہ نہیں کرتے َ؟کیا کراچی اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے بے قصورپاکستانیوں کی اموات پران کے لواحقین کی آہیںاوردھاڑیں حکمرانوں کے دل ودماغ پر اثر نہیں کرتیں؟کیامیڈیا کو ڈرون حملوں میں مرنے والے بے گناہوں کی داستان ِالم سنائی نہیں دیتیں ؟کیا ملالہ جیسی ننھی کلیوں کو مفادات کی خاطر استعمال کرنے والے مجرم نہیں؟یقینا یہ سب مجرم ہیں !ملالہ کے اصل مجر م یہی ہیں جنہوں نے اس معصوم کے لہوسے اپنی پیاس بجھانے کی خاطر اسے اسلام مخالف ،طالبان مخالف دشمن بناکر دنیا کے سامنے پیش کیااور اسے عالمی دہشت گردوں کے مکروہ دھندوں پر پردہ ڈلوانے کی خاطر استعمال کیا۔اس معصوم پر ڈاکومنٹریاں بنانے والے اور ٹاک شوز سجانے والے دجالی میڈیا کے آلہ کار بھی اس میں برابر کے شریک ہیں ۔مینگورہ کی ملالہ پر ہونے والے حملے میںوہ بے حس بے فکراور جاہل لوگ بھی ملوث ہیں جواسلام کو بد نام کرنے کی خاطر ہرظلم وستم کی کڑیا ں طالبان نائزیشن سے جوڑ دیتے ہیں ،جو قدرتی حادثات کی ذمہ داری بھی اسلام پسندوں کے سرتھونپ دیتے ہیں ،جوسوات کے پرامن علاقوں میںجعلی ویڈیو کی بناپر دفاعی طاقت کو غیروں کی آگ میں دھونس دیتے ہیں ۔بے شک اصل مجرم یہی ہیں جو ننھی ملالہ پر مگرمچھ کے آنسو بہارہے ہیں ،روایتی مذمتی بیانات سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔ ہمیں ان درندوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور ان کے مذموم عزائم کی کھوج لگانی ہوگی تاکہ یہ آئندہ کسی معصوم ملالہ کو مفاد پرستی زر پرستی اور مکروہ دھندوں کی بھینٹ نہ چڑھا سکیںاور اسلام اوراہل اسلام کو بدنام نہ کرسکیں ،اسی میں ہماری بقاءہے ۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.