خدارا خوف ختم کریں

آج ایک عجیب کہانی یاد آرہی ہے جو بچپن میں کسی رسالہ میں پڑھی تھی۔ کہانی کے مطابق ایک بہت بہادر پیرا شوٹر فوجی نے رات کے وقت دشمن کے علاقہ میں ہوائی جہاز سے چھلانگ لگائی۔ وہ پیرا شوٹر اپنے ”فن “ میں بہت ماہر تھا اور کمانڈو ایکشن کے لئے مشہور بھی بہت۔ جب وہ نیچے کی طرف آرہا تھا تو ایک درخت کی شاخوں سے الجھ کر الٹا لٹک گیا۔ چونکہ رات کا وقت تھا اس لئے اس کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کتنی اونچائی پر لٹکا ہوا ہے۔ پیرا شوٹ کی رسیوں سے نکلنے کی جدوجہد کی وجہ سے اس کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ ابھی گر جائے گا اس لئے اس نے آزاد ہونے کی جدوجہد ترک کردی اور چونکہ اس کو اونچائی کا علم نہ تھا اس لئے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ وہ کمانڈو اندھیری رات، تنہائی اور الٹا لٹکنے سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اس کا دل جواب دے گیا اور وہ وہیں لٹکے لٹکے جان کی بازی ہار گیا۔ صبح اس علاقہ کے لوگوں نے دیکھا کہ زمین سے پانچ فٹ اوپر ایک فوجی پیرا شوٹ میں مرا پڑا تھا۔ اگر ہم اس کہانی پر غور کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کمانڈو فوجی کی موت صرف اور صرف خوف کی وجہ سے ہوئی، اگر وہ جدوجہد جاری رکھتا اور پانچ فٹ کی اونچائی سے گر بھی جاتا تو ہرگز نہ مرتا

آج کل ایسے ہی حالات وطن عزیز کے نامی گرامی ”پہلوانوں“ یعنی سیاستدانوں کے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستان بنتے ہی ”حکمران کلاس“ ایک طرح کے خوف میں مبتلا رہی ہے اور یہی خوف نہ صرف انہیں بلکہ پوری قوم کو ذلیل و رسوا کروا رہا ہے۔ ماضی قریب کی تاریخ کو دیکھیں تو نواز شریف کی دوتہائی اکثریت رکھنے والی حکومت بھی ”مشرف“ خوف کی وجہ سے ختم ہوئی۔ اگر نواز شریف اس خوف میں مبتلا نہ ہوتے کہ مشرف ان کی حکومت ختم کرنے والے ہیں تو شائد معاملات اتنے دور تک نہ جاتے اور جس کرب اور اذیت سے ہماری قوم کو گزرنا پڑ رہا ہے اس سے بچت ہوجاتی۔ اسی طرح اگر مشرف حکومت کو دیکھا جائے تو وہ اس خوف سے جان کی بازی ہار گئی کہ آزاد عدلیہ اس کو” فنی موت“سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ اگر پرویز مشرف چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو آرمی ہاﺅس بلا کر استعفیٰ طلب نہ کرتے اور بعد کے معاملات کو اسی خوف کی وجہ سے انجام نہ دیتے تو شائد آج بھی اس قوم کے سینوں پر مونگ دل رہے ہوتے

اگر موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نہ صرف ایک دوسرے کے خوف میں مبتلا ہیں بلکہ وکلاء تحریک اور چیف جسٹس کی بحالی بھی ان کے اعصاب پر سوار ہوچکی ہے۔ آصف زرداری کو یہ خوف تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف کی پنجاب حکومت قائم رہی تو وہ خود بےشک لانگ مارچ اور دھرنا میں شریک نہ ہوں لیکن وکلاء، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر لوگوں کو لانگ مارچ اور دھرنا میں شریک ہونے کے لئے تعاون پہنچائے گے، آصف زرداری کا دوسرا بڑا خوف چیف جسٹس اور عدلیہ کی 2نومبر 2007 کے وقت کی بحالی ہے، کیونکہ اگر افتخار چودھری اور عدلیہ 2نومبر 2007 کی پوزےشن پر بحال ہوگئے تو حکومت کا کیا بنے گا؟اسی خوف کی وجہ سے نہ صرف الٹے سیدھے بیانات داغے جارہے ہیں بلکہ وہ کام کئے جارہے ہیں جو کوئی آمر بھی اپنے دور حکومت کے ”آخر“ میں کرتا ہے۔ ایک طرف مفاہمت کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف رحمان ملک ببانگ دہل دھمکیاں دے رہے ہیں، یہاں تک کہ جو باتیں دہرانے سے ”بے عزتی“ خراب ہوتی ہے ملک صاحب وہ بھی دہرانے میں شائد فخر محسوس کرتے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز انتہائی احتیاط کرتے ہیں کہ وہ باتیں یا گالیاں جو مجمعوں میں دی جاتی ہیں وہ آن ائر نہ سنائی جائیں لیکن رحمان ملک نے اپنی پریس کانفرنس میں ان میں سے ایک مشہور عالم گالی کو دہرا کر یقیناً آصف زرداری سے کوئی بدلہ چکایا ہے ورنہ کوئی بھی عزت دار آدمی اپنے یا اپنے بڑے کے بارے میں ایسی باتوں کو لوگوں کے سامنے اور خصوصاً میڈیا کے سامنے نہیں دہراتا ۔ نواز شریف اور مسلم لےگ (ن) کو یہ خوف ہے کہ جو پذیرائی انہیں اس وقت مل رہی ہے اگر موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کر گئی تو الیکشن میں اس وقت شائد اتنی پذیرائی نہ مل سکے اور ویسے بھی حکومت کے بغیر اور اگر حکومت ہو بھی تو میاں برادران کے بغیر پانچ سال کیسے گزارے جائیں، یہ خوف اور فکر اپنی جگہ موجود ہے۔ کچھ اسی طرح کا خوف تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے قائدین کے ذہنوں میں بھی یقیناً براجمان ہے کہ ابھی تو پانچ میں سے صرف ایک سال گزرا ہے اور چار سال باقی ہیں، ”خدانخواستہ“ اگر آخری کچھ عرصہ میں جاکر حکومت سے کوئی ایسی ”حرکتیں“سرزد ہوگئیں جس سے عوام خوش ہوگئے تو کیا بنے گا؟اور اگر بات کریں مولانا فضل الرحمان کی تو ان کے لئے تو اپنے انصار عباسی ہی کافی ہیں، اور تو اور مولانا تو GEOاور جنگ بلکہ پورے جنگ گروپ کو ہی رگڑا دینے کے چکر میں ہیں۔ اس وقت اگر کوئی خوف کے ساتھ ساتھ مزے میں بھی ہے تو وہ قاف لیگ اور مشرف ہیں۔ دونوں کو خوف بھی ایک جیسے ”لاحق“ ہیں اور دونوں جوتیوں میں دال بٹتے دیکھ کر تالیاں بھی بجا رہے ہیں، باقی بچے شیخ رشید تو وہ تو ہمیشہ ہی مزے میں ہوتے ہیں، ان کے خوف اور ڈر تو کب کے نکل چکے ہیں۔

وکلاء برادری کی جانب نظر ڈالیں تو قیادت خوفزدہ اور نوجوان وکیل پرجوش ہیں۔ قیادت کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ان کی تحریک دوبارہ ہائی جیک ہونے جارہی ہے۔ پہلے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی نے اٹھایا اور حکومت حاصل کی، کندھا اور قربانیاں وکلاء نے دیں اور مزے سیاستدان اڑا رہے ہیں۔ اگر افتخار چودھری کو بحال کرکے مزے اڑاتے تو خیر تھی لیکن ”پرنالا“ وہیں کا وہیں ہے اور اپنا الو سیدھا کر لیا گیا۔ جس طرح ہندوستان مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو دوسرے غیر اہم معاملات میں الجھا رہا ہے اسی طرح کی پالیسی پر حکومت گامزن ہے۔ وکلاء قیادت اس وقت پرجوش علی احمد کرد کے ہاتھ میں ہے لیکن ساری صورتحال سے یقیناً وہ بھی خوفزدہ ہیں کہ ہم نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا؟ جس طرح پچھلے لانگ مارچ میں اعتزاز احسن خوفزدہ تھے کہ دھرنے سے کہیں دوبارہ مارشل لاء نہ لگ جائے اسی طرح آج کی وکلاء قیادت خوفزدہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اگر توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ کی پالیسی اختیار کی گئی یا حکومت کی جانب سے ایسا کرنے پر اکسایا گیا تو ایک چنگاری سے بات کہاں کی کہاں پہنچ سکتی ہے۔ خاص طور پر رحمان ملک کی سیدھی دھمکیوں کے بعد۔ وکلاء قیادت کو یہ خوف بھی لاحق ہے اگر لانگ مارچ کی قیادت مسلم لےگ (ن) کے ہاتھ میں آگئی تو چیف جسٹس کی بحالی پس منظر میں چلی جائے گی اور معاملات شائد ”کہیں اور “ سے کنٹرول کئے جانے لگیں جبکہ وکلاء ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔ قصہ مختصر پاکستان کی پوری قوم اپنے اپنے خوف میں مبتلا ہے، اگر سارے ”خوفوں“ کو جمع کیا جائے تو کتنی خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ یہ سارے خوف پیدا ہوئے یا کئے گئے؟ خوف کی اضطراری فضاء میں کئے گئے فیصلے کیا رنگ لائیں گے اور کدھر لے جائیں گے؟ اس کا ادراک کرنے کے لئے ”آئن سٹائن“ یا ”نیوٹن“ کا دماغ نہیں چاہئے، ایک عام فہم اور درمیانے درجے کی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ اگر معاملات کو مسئلہ بننے سے پہلے افہام و تفہیم سے حل کرلیا جائے تو کتنا اچھا ہے، اگر وعدے توڑنے کی بجائے ان کو پورا کردیا جائے، اگر دوستی کی آڑ میں دشمنی نہ کی جائے، اگر صرف اپنی ذات کی بجائے پوری قوم کا مستقبل سامنے رکھا جائے تو پاپولیرٹی آسمان کو نہ چھوجائے۔ پوری قوم کا مطالبہ کیا ہے؟ صرف یہی نہ کہ محترمہ بےنظیر بھٹو اور موجودہ حکومت کے وعدوں کے مطابق عدلیہ کو بحال کردیا جائے، بلکہ اب تو نواز شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگر عدلیہ کو 2 نومبر 2007 پر بحال کردیا جائے تو وہ لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ چار سال وہ کچھ اور ڈیمانڈ نہیں کریں گے، تو پھر وعدے پورے کرنے کی بجائے دھمکیاں کیوں؟ پکڑ دھکڑ کا پروگرام کیوں؟ کیا ان ”حرکات“کے پیچھے خوف نہیں؟ خدارا اس ملک اور قوم پر رحم کھائیں اور نہ صرف اپنے خوف ختم کریں بلکہ قوم کو بھی ”خوفوں“ اور خوفناک صورتحال سے نجات دلائیں، اسی میں ہم سب کا بھلا ہے
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222543 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.