تو جناب عالی بارہ ربیع الاول کا مبارک دن الحمداللہ خوشیوں اور خوشدلی کے
ساتھ خیریت سے اختتام پزیر ہونے کی طرف رواں دواں ہے۔ مالک زوالجلال کا
کروڑہا احسان ہے کہ ہمارے دھڑکتے دلوں اور ہر لمحہ پریشان کن خیالات کے
باوجود رحمت العالمین کی اس دنیا میں آمد سے منسوب یہ دن اپنے روائتی جوش و
خروش اور نیک تمنائوں کے ساتھ رخصت ہوا۔
اب آتے ہیں ملک کے سب سے بڑے مسائل (فی الوقت) یعنی عدلیہ کی بحالی ورنہ
دھرنوں اور جلوسوں کی طرف۔
حکومت وقت نے کھل کر اعلان کر دیا ہے کہ اب ن لیگ والوں سے مزاکرات و
مفاہمت نہیں کریں گے اور جو کوئی حکومتی امور میں مداخلت کرے گا اور مفاد
عامہ کی خلاف ورزی کرتا ہوا پایا جائے گا دھرنے و جلوسوں میں ان کو قرار
واقعی سزا دی جائے گی۔
نواز شریف صاحب اور انکی پارٹی کے دوسرے ارکان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ
حکومت عین دھرنے سے کچھ پہلے اس قسم کا لب و لہجہ اختیار کر لے گی۔ ن لیگ
کا خیال شاید یہ تھا کہ ہم روٹھے صنم کا کردار ادا کرتے رہیں گے اور حکومت
کسی بے چین اور بے قرار عاشق کی طرح ہمارے نخرے اٹھاتے ہوئے ہمارے اٹھکلیوں
کو اپنے سر آنکھوں پر رکھے گی۔ مگر جناب جس طرح کا غیر آئینی اور غیر
اخلاقی رویہ ن لیگ کے چوٹی کے خصوصاً میاں صاحبان نے اختیار کیا اس کو صرف
نظر کر دینا حقیقتاً بے غیرتی اور بے عزتی کی مترادف تھا جس کی سکت پیپلز
پارٹی جیسی پارٹی جس کی نمائندگی نا صرف ملک کے چاروں صوبوں میں بلکہ آزاد
کشمیر تک میں ہے، نا برداشت کر سکی اور نا کر سکتی تھی۔
تو جناب مخالف پارٹیوں یعنی نواز لیگ اور جج بحال کرو وکلا لیگ کے لیے کافی
گھمبیر ہوتی جا رہی ہے اور اب جناب دھرنے کے حامی حضرات ان باتوں پر اتر
آئے ہیں کہ ہمارا جلسہ اور دھرنہ پر امن ہو گا اور یہ ہو گا اور وہ ہو گا
ورنہ پہلے تو محترم نعرے لگاتے پائے گئے کہ میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اور یہ کہ سول نافرمانی کریں گے اور یہ کہ علم بغاوت بلند کریں گے وغیرہ
وغیرہ۔
تو اب وکلا تحریک کے چیدہ چیدہ اور نامی گرامی حضرات تو کافی عرصے سے پردہ
اسکرین سے غائب ہی محسوس ہوتے ہیں ہر کوئی اس سوچ اور فکر میں گم ہے کہ اگر
ہم چلے اور دھرنے میں پکڑ لیے گئے تو جو مار کٹائی ہونی ہے اس سے بہتر تو
یہ ہے کہ اے اللہ ہمیں کسی طرح نظر بند کروا دے یا صوبہ بدر کروا دے۔ اب تو
معلوم ہوتا ہے اس طرح کی دعائیں مانگی جارہی ہیں کہ کسی طرح دھرنہ میں شریک
بھی نہ ہوں اور عزت بھی رہ جائے تو بھائی عزت و زلت تو اللہ عزوجل کے ہاتھ
ہے اور لیڈران سے مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ آپ نے کونسے جلسے جلوس کے اصل مزے
چکھنے ہوتے ہیں وہ تو عوام کو ہی چکھنے پڑتے ہیں کیونکہ اصل ٹکا ٹک لاٹھیاں
تو عوام کو پڑتیں ہیں آپ لیڈران تو زرا ہٹ کے زیادہ سے زیادہ موبائلوں میں
بٹھا دیے جاتے ہیں اور وہاں سے وکٹری کے نشان بناتے پتا نہیں کیا ثابت کرنا
چاہتے ہیں کیا یہ نہیں کہ دیکھ لو ہم تو لاٹھیوں سے بچ نکلے۔
تو بھائی وکلا تحریک کا مقصد جس کسی کی جو سمجھ میں آئے اب اللہ کرے فیصلہ
ہوجائے کہ اگر معزول افتخار چوہدری کو چیف جسٹس بنانا ہے تو بنا دو اور اگر
ایسا نہیں ہو سکتا تو خدا کے لیے بس کرو بس کرو کچھ خوف خدا کرو تم نے اللہ
کی مخلوق عوام کو کس کام پر لگا رکھا ہے کچھ روٹی روزگار کی بھاگ دوڑ بھی
عوام کو کرنے دو ہر ایک کے پاس آپ جیسے اختیارات اور زرائع اور بینک بیلنس
نہیں ہوتے کہ دو دو سال کی تحریکوں کے باوجود عوام کے گھر کے چولھے جلتے
رہیں۔
میں نے اس دفعہ اللہ سے واقعی سچے دل سے یہ دعا ہی کہ اے اللہ اس جج کے
مسئلے کو جیسا بہتر ہو حل کردے اب کتنی مزید جانیں اس مسئلے پر قربان
ہونگیں۔
دشمن خاموش بیٹھے خوش ہو رہے ہیں کہ جس ملک کو ایسے ایسے نان ایشو مسئلے
مسائل میں گرفتار کر کے پاگل اور احمق بنایا جا سکتا ہے اس ملک سے کسی جنگ
کی کیا ضرورت ہے خود ہی کوئی فریق ہار جائے گا اور جو جیت جائے گا اس پر
یکبارگی حملہ کر کے اس کو بھی ختم کر دیں گے۔ |