وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک اپنے منطقی
انجام کی جانب رواں دواں ہے۔اور حکومت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر غیر جمہوری
ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردئے ہیں اور اس ضمن میں کراچی میں گیارہ مارچ
کی شب سے ہی گرفتاریاں شروع کردی گئیں ہیں اور ن لیگ،جماعت اسلامی،تحریک
انصاف،اور وکلاء تحریک کے اہم رہمنائوں کی گرفتاری کےلیے چھاپے مارے گئے
اور متعدد گرفتاریاں کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ بارہ مارچ کو لانگ مارچ کے
شرکاء کو کراچی میں ٹول پلازہ پر روک کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اور وہاں
بھی گرفتاریاں کی گئیں۔عدلیہ کی بحالی اور صدر زرداری کے خلاف احتجاجی
تحریک اب اپنے عروج کی طرف جارہی ہے۔ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ
تحریک اورانیس سو چھیانوے میں پی پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک میں بہت
مماثلت ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں
نوے کی دھائی کے وسط میں جب پی پی پی کی حکومت تھی اور محترمہ بے نظیر
صاحبہ ملک کی وزیر اعظم تھیں اس وقت کے حالات بھی کچھ ایسے ہی تھے جیسے آج
کل کی صورتحال ہے۔محترمہ کی حکومت عوامی مقبولیت کھو چکی تھی اور اس کے
خلاف مظاہرے شروع ہوچکے تھے،اس وقت بھی پی پی پی کی حکومت تھی آج بھی پی پی
پی کی حکومت ہے۔اس وقت بھی حکومت انتہائی نا مقبول ہوچکی تھی آج بھی حکومت
نا مقبول ہوچکی ہے البتہ اس وقت کی حکومت پر یہ وقت قریباً ڈھائی سال کے
بعد آیا تھا جبکہ موجودہ حکومت پر یہ وقت ایک سال سے بھی پہلے آچکا ہے۔اس
وقت بھی سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ اور دھرنے کی کال دی تھی۔آج
بھی پارلیمنٹ کے گھیراؤ اور دھرنے کی کال دی جا چکی ہے۔اس وقت کی حکومت نے
بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور
دھرنے کو روکنے کی کوشش کی تھی۔آج بھی یہی کچھ کیا جارہا ہے۔اس وقت کی
حکومت بھی اس کوشش میں ناکام ہوگئی تھی اور خود اس کی پارٹی کے صدر فاروق
احمد لغاری نے اپنی پارٹی کی حکومت کو چلتا کیا تھا۔آج بھی صورتحال یہی نظر
آرہی ہے البتہ کل اور آج میں کچھ باتوں میں فرق بھی ہے۔اول تو یہ تھا کہ اس
وقت کی تحریک کے نتیجےمیں صدر نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو چلتا کیا
تھا۔آج بھی پارٹی کے مختلف سینئر رہنما اپنی قیادت کے فیصلوں سے ناخوش نظر
آتے ہیں البتہ اس وقت پوری حکومت ختم کی گئی تھی آج کی تحریک کے نتیجے میں
حکومت رخصت نہیں ہوگی بلکہ صرف ایوان صدر کا مکین رخصت ہوگا۔اور اس ساری
صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ زرادری صاحب کو قدرت نے اپنی
اصلاح کا جو ایک موقع دیا تھا اس میں ناکام ہونے کے بعد ان کا سیاسی کیرئیر
ختم ہوجائے گا اور وہ اس شعر کی تفسیر بن جائیں گے ع بہت بے آبرو ہوکر تیرے
کوچے سے ہم نکلے
ہمارے اس تجزیے کی کچھ وجوہات ہیں جو ہم بیان کردیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ بہت
سے لوگوں کو اس سے اختلاف بھی ہو۔
دیکھیں سب سے پہلی چیز تو یہ کہ کل کی تحریک اس وقت کی پی پی پی کی حکومت
کے خلاف تھی جب کہ آج کی تحریک حکومت کے خلاف نہیں عدلیہ کی بحالی کے لیے
ہے اور اس میں رکاوٹ بننے والے بلکہ صدر کے خلاف ہے۔اور شریف برادران کا
کہنا بھی یہی ہے کہ پی پی پی سے ہمیں کوئی شکایت نہیں بلکہ ہمیں زرداری سے
شکایت ہے اور ان کی شکایت کی یا مخالفت کی معقول وجہ ہے کہ ایک فرد جب مسند
صدارت پر بیٹھتا ہے تو اس کے قول و فعل میں تضاد اس کے منصب کے شایان شان
نہیں ہوتا اگرچہ ایسا ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ کسی سرابراہ مملکت یا کسی
لیڈر نے کوئی کمٹمنٹ کیا اور وہ اس کو پورا نہ کرسکا ہو تو اس پر وہ یا تو
شرمندہ ہوتے تھے اور عوام سے اور اپنے ووٹرز سے معذرت خواہ ہوتے تھے یا پھر
وہ ایسے کسی معاملے پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔لیکن جنرل پرویز مشرف نے
پہلی بار اعلانیہ وعدہ خلافی کرکے ایک غلط روایت قائم کی تھی اور زرداری
صاحب بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔عوام اپنے لیڈر کو جھوٹا اور وعدہ
خلاف نہیں کہتے اس کی ہر بات ہر بیان کا دفاع کرتے ہیں لیکن جب لیڈر خود ہی
یہ کہے کہ میرے قول کا میرے وعدہ کا اعتبار نہیں اور میرا وعدہ کوئی قرآن و
حدیث نہیں ہے تو اس صورتحال میں ووٹر کا اپنے لیڈر سے اپنی قیادت سے متنفر
ہونا لازم ہے مشرف صاحب بھی یہی کہتے تھے کہ میری بات تو زبان سے نکلے ہوئے
الفاظ کوئی قرآن و حدیث نہیں ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے
دوسری بات جس طرح پی پی پی کی سابقہ حکومت کو ان کی پارٹی ہی کے صدر نے
برطرف کیا تھا آج بھی ایوان صدر اور پارٹی کارکنوں میں فاصلے ہیں یہاں تک
کہ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں بھی فاصلے ہیں اور ان دونوں اہم
شخصیات کا تعلق ایک ہی پارٹی سے ہونے کے باوجود ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی
کا فقدان ہے۔اس حوالے سے یہ بڑی اہم بات ہے کہ چند روز پیشتر صدر آصف علی
زرادری صاحب نے موبائل عدالتوں کا آرڈیننس جاری کیا جس کو ایک روز بعد ہی
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ایڈوائس پر واپس لے لیا گیا۔حنیف عباسی کے
خلاف کاروائی پر خود پی پی پی کے سنجیدہ لوگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا
ہے۔اور سب سے اہم بات پارلیمنٹ میں حکمران جماعت کے ایک سینئر اور اہم رکن
کی جانب سے شریف برادران کے خلاف کاروائی کی مخالفت اور شریف برادران کے حق
میں تقریر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ پارٹی قیادت اور کارکنان میں فاصلہ
پیدا ہورہا ہے۔اور یہ چیز زرادری صاحب کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ایسا لگتا
ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پی پی پی کو
ہائی جیک کرنے والے ٹولے (آصف علی زرداری،رحمٰن ملک،فاروق نائیک،شیری رحمٰن
وغیرہ ) سے چھٹکارے کا فیصلہ کرلیا ہے اس لیے وہ بھی اس موقع پر اپنی حکومت
کے بجائے اپوزیشن کے موقف کے ذیادہ حامی نظر آتے ہیں
ایک بہت ہی اہم بات یہ بھی ہےکہ ایک برطانوی اخبار کے مطابق چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے صدر آصف علی زرادری کو متنبہ کیا ہے کہ وہ
معاملات کو جلد از جلد درست کرلیں۔
ایک اور اہم بات متحدہ کے قائد الطاف حسین صاحب کا دس مارچ کا بیان ہے جس
میں انہوں نے کہا ہے وعدے وفا نہ کرنا صدر آصف علی زرداری کے لیے نقصان دہ
ثابت ہوگا۔موجودہ صورتحال کے تناطر میں یہ ایک بہت اہم بیان ہے اس کی دو
وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک تو ڈپٹی چئیر مین کے عہدے کے حصول کے لیے صدر پر
دباؤ بڑھانا اور دوسری بات یہ کہ متحدہ کے اندورنی ذرائع بہت اسٹرانگ ہیں
اور وہ آنے والے حالالت کی سن گن حاصل کرلیتے ہیں۔اب اگر ہم پہلی بات کو
لیتے ہیں تو تادم تحریر ڈپٹی چئیر مین کے لیے جان محمد جمالی منتخب ہوچکے
ہیں اور اس حوالے سے متحدہ کا مطالبہ نہیں تسلیم کیا گیا ہے اور اگر دوسری
بات کو لیتے ہیں تو یکم مارچ کو نواز شریف کے خلاف ریلی کے انعقاد اور پھر
نواز شریف کے خلاف پی پی پی کے جلسے میں اظہار یکجہتی کے لیے شرکت کے بعد
اچانک صدر زرادری کے خلاف بیان بہت عجیب سا لگتا ہے۔کیا متحدہ کی قیادت پر
صدر زرداری کی وعدہ خلافی کا اچانک انکشاف ہوا ہے اور کیا ان کو صدر کی
وعدہ خلافیوں کا پہلے سے علم نہیں تھا؟ اور یہ کیا نواز شریف صاحب نے اپنے
موقف میں تبدیلی کرلی ہے کہ متحدہ کو ان کے حق میں بیان دینا پڑا۔ایسا نہیں
ہے بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ متحدہ کی قیادت کو حالات میں تبدیلی کا اشارہ
ملا ہو اور اس نے ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر اسی رخ پر مڑنے کا فیصلہ کرلیا
ہو۔
بہر حال اس صورتحال میں ق لیگ کا کردار ابھی تک واضح نہیں ہے کہ وہ کس طرف
جارہی ہے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ غیر جانب دار ہیں اور افہام و تفہیم کی
جانب مائل ہیں لیکن دوسری طرف ان کے ایوان صدر سے بھی رابطے ہیں اور آخری
خبروں کے مطابق ان کی ایک ڈیل حکمران جماعت سے ہوئی ہے جس کے مطابق پنجاب
میں ان کی حکومت بنائی جائے گی۔بہر حال صدر زارداری کے ساتھ ساتھ ق لیگ بھی
اپنے منطقی انجام کی جانب راوں دواں ہے۔
ساری صورتحال کے جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کا نقصان نہ صرف اور
صرف صدر زرداری اور ان کے منظور نظر لوگوں کو ہی ہوگا۔اور صدر ذرداری کو
کردار پاکستانی سیاست میں ختم ہوجائے گا اور پی پی پی کی اصل قیادت کچھ
عرصے کے بعد پھر عوام کے درمیان ہوگی
بہر حال ہم اس صورتحال پر یہی شعر کہہ کر اجازت چاہیں گے کہ ع تم انقلاب کی
لہروں کو روکتے ہی رہوں اسی طرح تو یہاں انقلاب ابھریں گے۔ |