ماتم سے پہلے

”تو جس ملک کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کرسکااس پراب عورتوں کی طرح کیوں روتا ہے، ،یہ ایک ماں کے الفاظ تھے۔۔۔ ویسے تو ممتا اپنے جگر گوشوں کو روتا دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہے لیکن اس وقت اس ممتا کے دل میں نجانے کونسی تڑپ تھی جس نے یہ الفاظ کہنے پر مجبور کردیا، یہ الفاظ مسلمانوں کے اندلس (سپین) کے آخری تاجدار ابو عبداللہ کی ماں کے تھے، وہ ابو عبداللہ جس نے باپ کےخلاف بغاوت کر کے تخت پر قبضہ کیا اور بعد میں عیسائی حکمران فرنینڈو کو غرناطہ کی چابیاں تھمادیں، یوں اندلس کے اندر مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور کا خاتمہ ہوگیا، وہ اندلس جو اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ علم اور شان و شوکت میں آگے تھا جب یورپ جہالت کے اندھیروں کے اندر بھٹک رہا تھا اور امریکہ ابھی دریافت ہی نہیں ہوا تھا ،جب یورپ کے گلی بازاروں کے اندر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے رہتے تھے اس وقت اندلس علمی، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے ایک مینارہ نور تھا، عیسائی حکمران فرنینڈو نے ا بو عبداللہ کے ساتھ اتنی سی مہربانی کردی کہ اسے مراکش پہنچانے کیلئے بحری کشتیاں فراہم کردیں لیکن باقی مسلمانرں کے ساتھ جو ہوا اس پر آج بھی وہاں کی فضائیں نوحہ کناں ہیں“۔

آج جب پوری قوم امن ایوارڈ یافتہ ملالہ یوسفزئی پر ہونیوالے حملے پر ماتم کرتی نظر آتی ہے تو مجھے وہی غرناطہ کے مناظر یاد آنے لگے ہیں، اپنے ہی نشمین کو آگ لگا کر آج ہم رورہے ہیں، اگر ہم نے چند سال پہلے سوچا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی، آج تعلیم دشمن ایسی حرکت نہ کرتا، کوئی مسجد فاسفورس بموں سے نہ اڑائی جاتی، نہ مزاروں کو بارود سے چاک کیا جاتا اور نہ ہی سکولوں کی بنیادوں کو ہلایا جاتا ،نہ ڈرون گرتے اور نہ ہی بے گناہ معصوم مارے جاتے ،نہ ہی عافیہ جیسی ہونہار دختر کو غیروں کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا ،نہ بلوچستان میں بدامنی ہوتی اور نہ ہی گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکتی، کراچی میں لسانیت پرستوں اور بھتہ خوروں کو لاشیں گرانے کی ہمت نہ ہوتی، میڈیا پر حکومتی ایوانوں میں، عوام میں عالمی سطح پر ایک ملالہ کے زخمی ہونے پر اتنا شور کیوں؟ اتنی آہ و زاری کیوں؟ کیونکہ اس نے لاکھوں افراد کے قاتل باراک اوبامہ کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تھا، بی بی سی میں ڈائری لکھی تھی، اس کی ہمت، جرا¿ت اور عظمت کا سب کو اعتراف ہے لیکن
تم ایک ملالہ کو روتے ہو؟
میں نے کئی ملالہ دیکھی ہیں
میں نے خون میں لت پت بچوں کی
جانے کتنی لاشیں دیکھی ہیں
میں نے اجڑی مانگیں دیکھی ہیں
میں نے سونی گودیں دیکھی ہیں
میں نے ظلم، جبر فرنگ سے سسکتی روحیں دیکھی ہیں
میں نے اپنی دھرتی پہ اپنوں کی بوسیدہ لاشیں دیکھی ہیں
میں نے آگ کی لہریں دیکھی ہیں
تم ایک ملالہ کو روتے ہو؟
میں نے کئی ملالہ دیکھی ہیں

ڈالروں کی چمک میں آکر کوئی بھی حقیقت بیان نہیں کررہا، اسلام آباد میں 56ایکڑ اراضی امریکی سفارتخات کو کیوں الاٹ کی گئی ہے، آخر پاکستان میں اتنے بڑے سفارتخانے کی کیا ضرورت پیش آگئی، اس قلعہ نما سفارتخانے میں جدید ترین اسلحہ سے لیس بلیک واٹر کے ایک ہزار اہلکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے، دنیا بھر کے سفارتخانوں میں صرف 25میرین رکھنے کی اجازت ہے لیکن اس میں 350 کیا کررہے ہیں۔ Dyncop بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک کس لیے اسلام آباد لائے جائیں گے۔ ان تمام سوالوں کا جواب ہمیں ملک میں طول و عرض میں ہونیوالی بدامنی سے مل رہا ہے، پاکستان میں طالبان نام کی کوئی چیز نہیں، صرف یہی لوگ بھیس بدل کر پاکستان کو آگ میں جھونک رہے ہیں، اپنے زرخرید دانشوروں اور ”پالتوﺅں“ کے ذریعے اسلام کو بدنام کررہے ہیں، پاکستانی طالبان صرف اور صرف نظریہ ضرورت ہے نہ کہ تنظیم، یہ ایک اصطلاح ہے جو جس کے تحت ہر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی جاتی ہے، شمالی وزیرستان پر حملے کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کروایا گیا،جس طرح سوات پر حملے کا جواز ڈھونڈنے کے لیے عورتوں کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو بنائی گئی، اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ ان بے سروسامان پاکستانیوں کو خود ہی آنیوالے سیلاب کے سامنے بند باندھنا ہوگا کیونکہ جن طبقوں کی دعوت پر یہ یہاں آئے ہیں وہ تو حالت جنگ میں ابوعبداللہ کی طرح قوم کو مصیبتوں میں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، پرویز مشرف قوم کو آگ کی بھٹی میں جھونک کر جا چکے، الطاف حسین لندن میں گوروں کی ثناءخوانی میں مصروف ہیں، رحمن ملک صاحب کے پاس دوہری شہریت ہے، شریف فیملی سعودی عرب چلی جائے گی، آصف زرداری صاحب دبئی میں جا گھسیں گے، اے این پی والے افغانستان اور روس چلے جائیں گے، فلوجہ اور نجف کی عوام کی طرح لڑنا غریبوں کا مقدر بن ہو جائے گا، اس سے پہلے کہ شکاری اپنی مچان بنا لے اس دھرتی سے نکالنا ہوگا ورنہ پھر کسے علم اس کے نشانے کی زد پر کسی کا گھر ہو، کسی کا بیٹا ہوا، باپ، ماں یا بہن ہو، ماتم سے پہلے طوفان مغرب کو روکنا ہوگا۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 62351 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.