٭ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
اما م احمد ضا محدثِ بریلوی کی شخصیت اور ان کے فکر وفن پر کچھ خامہ فرسائی
کرنا مجھ جیسے کم علم اور بے بضاعت کا کام ہرگز نہیں ، ہاں! آپ کے عقیدت
مندوں کی صف میں شامل ہونا باعثِ صد افتخار سمجھتے ہوئے یہ چند سطریں سپردِ
قرطاس کرنے کی طالب علمانہ کوشش کررہا ہوں ۔ امام احمدرضا محدث بریلوی کی
نعت گوئی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے کئی محققین نے پی ۔ ایچ ۔ ڈی ۔
اور ایم۔ فل، جیسی باوقار ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ اعلا حضرت نے نعت گوئی کے میدان میں جو اجلے اور روشن نقوش
ثبت فرمائے ہیں آج فضاے نعت میں اپنے شہبازِ فکر و نظر کو پرواز کرانے
والے بیش تر شعراے کرام محسوس یا غیر محسوس طور پر آپ کی کہیں نہ کہیں
تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ امام احمد رضا کی فکر رسا نے نعت گوئی میں
ایسے خوب صورت اور دل کش گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جس کی مثیل و نظیر کسی
دوسرے نعت گو کے یہاں نہیں ملتی ۔مفخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی
عقیدت و محبت اور تعظیم و توقیر کے اعتبار سے تو آپ کے کلام کو جو شہرت و
مقبولیت حاصل ہے اس کا کوئی جواب نہیں پیش کیا جاسکتا بل کہ اگر میں یہ
کہوں کہ عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کا اسمِ شریف اب ضرب
المثل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ نعت گوئی میں
عقیدے و عقیدت کی نور افزا پرچھائیوںکے ساتھ آپ کے کلام میں جہاں فکر و فن
، جذبہ و تخیل اور متنوع شعری و فنی رچاو کے دل نشین تصورات ابھرتے ہیں ۔
وہیں آپ کے نعتیہ نغمات میں اکثر اشعار مصطلحاتِ علمیہ اور تلمیحاتِ دینیہ
سے ایسے مالامال ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے عالمانہ فہم و فراست کی ضرورت
ہے۔آج جب کہ تعلیمی معیار بالکل گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے اور ہمارے تعلیمی
اداروں میں سطحی تعلیم دی جارہی ہے ایسے عالم میں امام احمدرضا بریلوی کے
علمی و فنی خوبیوں سے آراستہ و مزین اشعار ہم جیسے کم علموں کی سمجھ سے
ورا ہوتے جارہے ہیں ، مثلاً یہ شعر دیکھیں ؎
مہرِ میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے
ڈالے اک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب
اس کی ممکنہ تشریح و توضیح کے لیے ضروری ہے کہ ہم علم ہیئت سے واقف ہوں اور
علم نجوم پر بھی گہری نظر ہو اور بروج و میزان اور حمل وغیرہ کے خواص سے
آگاہی اور علمِ موسمیات کا بھی درک ہوتب ہی ہم اس شعر سے مکمل طور پر لطف
اندوز ہوسکتے ہیں ۔اس شعر میں مہر- سورج ، میزان- آسمان کے بارہ برجوں میں
سے ساتواں برج ، حمل - دنبے کی شکل کا ایک آسمانی برج ، شبِ دے - اکتوبر
کے مہینے کی رات … جیسی اصطلاحات کا استعمال کرکے امام احمدرضا کہتے ہیں کہ
عرب ِ مقدس کی بارش اکتوبر کے مہینے کی رات میں اگر ایک قطرہ ہی گرادے تو
سورج اگر برجِ میزان میں چھپا ہو تو وہ وہاں سے نکل کر برجِ حمل میں آکر
چمکنا شروع ہوجائے گااور خشک سالی کا نام و نشان مٹ جائے گاجو کہ عرب کے
چاند سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبتِ پاک کی برکت کا ظہور ہی ہے،
علاوہ ازیں یہ شعر خاطر نشین کریں ؎
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا
اس شعر کو بھی سمجھنے کے لیے علمِ نجوم کی اصطلاحات سے واقفیت حددرجہ ضروری
ہے ، اس شعر میں امام احمد رضا کے خامۂ گل رنگ نے رسولِ کائنات صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے علمِ نجوم کا استعمال کرتے ہوئے بارہ
برجوں کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ جب بھی چاند کی بارہ تاریخ آتی ہے تو
آسمان کا چاند بارہویں کے چاند یعنی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ولادتِ باسعادت (۱۲؍ ربیع الاول) کی خوشی اور نسبت سے جھک جھک کر بارگاہِ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آداب و سلامی بجا لاتا ہے اور نہ صرف
چاند بل کہ دائرۂ فلک کے بارہ برجوں اسد، ثور، جدی، جوزہ،حمل، حوت، دلو،
سرطان، سنبلہ، شرف، عقرب ،میزان کا ہر ہر ستارا بھی جھک جھک کر حضورِ انور
صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتا ہے اور بہ زبانِ حفیظؔ
جالندھری یوں کہتا ہے کہ ؎
ترے آنے سے رونق آگئی گل زارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربانی
ترا در ہو ، مرا سر ہو ، مر ادل ہو ، تر اگھر ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہیدِ طولانی
ہوسکتا ہے بعض حضرات یہاں معترض ہواٹھیںکہ نعت جیسی صنف میں ان علمی
اصطلاحات کا لانا کیا معنی ؟ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ امام احمدرضا کے
دورکا یہ مزاج تھا کہ شعرا اپنے اشعار میں جذبات وخیا لات کی ترجمانی کے
ساتھ ساتھ زبان و بیان کے تجربے اور علمی اصطلاحات کو جگہ دیتے تھے اور اس
عہد میں ایسے اشعار کو بہ آسانی سمجھنے والے لوگ بھی تھے جو کہ فی زمانہ
مفقود ہیں۔ آج سوداؔ ، ذوق ؔاور مومن ؔکے قصائد، عزیزؔ لکھنوی کے مناقب،
حضرت محسنؔ کاکوروی کے نعتیہ قصیدے اور ان کی تشابیب ، اوردبیرؔ کے مراثی
اور ان میں پائی جانے والی تلمیحات اور مذہبی روایات آج ہمارے لیے معمہ
اور چیستاں بن کر رہ گئی ہیں ، جاننا چاہیے کہ اس کا سبب محض ہمارا سطحی
نظامِ تعلیم ہے ۔اس لیے ایسے افکارِ عالیہ اور اصطلاحاتِ علمیہ سے سجے
سنورے اشعار کو فہم نہ کر پانے کی بنیاد پر ایسا اعتراض کرنا کہ ان کو
اشعار میں نظم کرنے کی کیاضرورت تھی ادبِ عالیہ کے گراں قدر جوہر پاروں سے
صرفِ نظر اور اپنی علمی بے مایگی پر پردہ ڈالنے کی سعیِ نامشکور ہے ۔
دراصل امام احمدرضا بریلوی نے اپنے کلام کے حوالے سے دنیا بھر کے علوم و
فنون کا فن کارانہ اور عالمانہ استعمال کرتے ہوئے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم اس لیے قلم بند فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی نعت گوئی سے علوم و فنون کو
بھی نعتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم میں مصروف کردیا ہے ۔ مضمون آفرینی اور
خیال آفرینی کاجو نت نئے اور جدت و ندرت سے مملو اظہاریہ آپ کے کلام میں
ملتا ہے وہ باوجود تلاش و تفحص دیگر شعر اکے یہاں کم نظر آتا ہے یہ امر
امام احمد رضا جیسے عاشقِ صادق کا امتیازی وصفِ خاص ہے ۔
امام احمدرضا کی شاعری کا مقصد محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف
وتوصیف اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات ادا کرنے
والوں کی مذمت اور تردید کرنا ہے ، چناں چہ ارشادِ عالی ہے کہ ؎
زمین وزماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
چنیں و چناں تمہارے لیے بنے دوجہاں تمہارے لیے
دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے اُٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے
دشمنِ احمد پہ شدت کیجیے
ملحدوں کی کیا مروت کیجیے
شرک ٹھہرے جس میں تعظیمِ حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیے
اللہ جل شا نہ اور اس کے فرشتے رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و
سلام بھیجتے ہیں کائنات کا ہر ذرّہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و
توصیف میں رطب اللسان ہے حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں جہاں ذکرِ خدا جاری ہے
وہاں وہاں ذکرِ مصطفی بھی ہوتا ہے حضرتِ رضا بریلوی کا خامۂ گل ریز اور
فکرِعشق آمیز جب نعت نگاری کی طرف مائل ہوتی ہے تو آپ کا کمالِ علمی گہر
افشانی کرتے ہوئے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نت نئے گل بوٹے اس شان
سے کھلا تا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، میدانِ نعت میں آپ کے علمی
اصطلاحات سے آراستہ ومزین اشعار صفحۂ قرطاس پر ہماری مشامِ جان و ایمان
کو معطر و معنبر کرنے لگتے ہیں ۔ امام احمد رضا کی فکرِ رسا نے فضاے نعت
میں پرواز کرتے ہوئے انوکھی معنی آفرینی اور جدت و ندرت کی لہلہاتی فصل
اگائی ہے اس پر شرح و نقد کرنا مجھ جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں ذیل میں
کلامِ رضاسے علمی اصطلاحات پر مشتمل اشعار اور ان کے نیچے اس علم کا عنوان
بلا تبصرہ درج کیا جارہا ہے اہل علم ان اشعار سے لطف لے سکتے ہیں ؎
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتا کیا کہ یوں
بے سہیم و قسیم و عدیل و مثیل
جوہرِ فردِ عزت پہ لاکھوں سلام
غایت و علت سبب بہر جہاں تم ہو سب
تم سے بَنا تم بِنا تم پہ کروروں درود
(علمِ فلسفہ)
وہ گراں سنگیِ قدرِ مِس وہ ارزانیِ جود
نوعیہ بدلا کیے سنگ و لآلیِ ہاتھ میں
(علمِ فلسفۂ نظری)
بارہوں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستار نور کا
سعدین کا قران ہے پہلوے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے
دنیا ، مزار ، حشر ، جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غُفر کی ہے
نبوی ظِل علوی برج بتولی منزل
حسنی چاند حسینی ہے چمکنا تیرا
(علم نجوم )
مہرِ میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے
ڈالے اک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب
ہیں عکسِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل
سیاہی مائل اس کی چاندنی ہے
قمر کا یوں فلک مائل ہے یاغوث
طلاے مہر ہے ٹکسال باہر
کہ خارج مرکزِ حامل ہے یا غوث
(علمِ ہیئت)
زبانِ فلسفی سے خَرق و اِلْتِیام اسرا
بنایا دورِ رحمت ہاے یک ساعت تسلسل کو
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ قدرت کا
نظر آتا ہے اس وحدت میں کچھ انداز کثرت کا
ممکن میں یہ قدرت کہاں ، واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
سراغِ اَین و متیٰ کہاں تھا ، نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے
فرشتے خدم رسولِ حشم تمام امم غلام کرم
وجودوعدم حدوث و قدم جہاں میں عیاں تمہارے
( فلسفۂ مابعد الطبعیات)
محیط و مرکز میں فرق مشکل ، رہے نہ فاصل خطوطِ واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو ، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
( فلسفۂ مابعد الطبعیات و علمِ ہندسہ)
کیا لکیروں میں ید اللہ خط سرو آسا لکھا
راہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں
(علمِ ہندسہ)
ذرے مہرِ قدس تک تیرے توسط سے گئے
حدِّ اوسط نے کیا صغرا کو کبرا نور کا
تم سے خدا کا ظہور ، اُس سے تمہار اظہور
لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں دُرود
سببِ ہر سبب ، منتہاے طلب
علّتِ جملہ علّت پہ لاکھوں سلام
(علمِ منطق)
ترا منسوب ہے مرفوع اس جا
اضافت رفع کی حامل ہے یاغوث
(علمِ معانی و نحو)
درودیں صورتِ ہالہ محیطِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امتِ عاصی پہ اب رحمت کا پانی ہے
اشک برساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیم
یاخدا! جلد کہیں نکلے بخارِ دامن
نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن
حسنی پھول حسینی ہے مہکنا تیرا
(علمِ موسمیات)
نبوی خور علوی کوہ بتولی معدن
حسنی لعل حسینی ہے تجلا تیرا
کوہ سرمکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
(علمِ ارضیات و معدنیات)
رشحاتِ رضابریلوی سے اس قبیل کے اور بھی درجنوں اشعار اخذ کرکے سجائے جا
سکتے ہیں ، اس مختصر سے مضمون میں اتنی ہی مثالوں پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔
وگر نہ علم و فضل کے اس بحرِ ناپیدا کنار کی کماحقہ شناوری کا حق ادا کرنا
مجھ جیسے مبتدی کے لیے ہرگز ممکن نہیں ۔ یہاں اشعار اور ان کے نیچے علوم و
فنون کے نام درج کردیے گئے ہیں تاکہ اہلِ علم و فہم اس کی گہرائی و گیرائی
تک رسائی حاصل کرکے کلامِ رضا بریلوی میں علمی مصطلحات کی جو ضیا باریاں
ہیں ان سے کیف و سرور حاصل کریں ۔حضرت امام ہی کے ایک شعر پر تشطیر کرتے
ہوئے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں ؎
’’ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم‘‘
دنیاے علم و فن میں ہے شان تیری محکم
عشقِ شہِ دنا کے دریا بہادیے ہیں
’’جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں‘‘
۱۱؍رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ/ ۱۲؍ اگست ۲۰۱۱ء بروز جمعہ |