ملالہ سے اجالا

سوات میں امن وتعلیم کے لیئے سر گرم ستارہ جرات حاصل کرنے والی عالمی شہرت یافتہ 14 سالہ ملالہ یوسف زئی کا چراغ بجھتے بجھتے بچا۔یہ سب اﷲ کا کرم ہے جس نے اسے غیر معمولی شجاعت عطاکی۔ اس ہمہ صفت بچی کو کئی انعامات سے نواز اگیا اور پاکستان کا پہلا نیشنل پیس ایوارڈ بھی اسی نے جیتا۔ ملالہ نے 2009 میں بی بی سی اردو کے لیئے ایک بلاگ لکھنے کا آغاز کیا جس میں اس نے طالبان کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں اور ظلم و ستم کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ۔ جو کہ گل مکئی کے نام سے مشہور ہوا۔ ملالہ ہی کی التجا پر یوسف رضا گیلانی نے سوات میں آئی ٹی کیمپس قائم کیا۔ سوات میں گورنمنٹ ہائی سکول اب ملالہ یوسف زئی گورنمنٹ ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ملالہ کو طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیئے آواز اٹھانے پر بھی انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔

منگورا میں طالبان کے غائبانہ قبضے کے دوران سکول اور گھر بند کر دیے گئے توملالہ کے خاندان کو ہجرت کرنا پڑی۔ اسی دورانیے میں اسے اوبامہ اور رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کا موقع ملا ۔ آخر کا رجب ہماری فوج طالبان کو سوات سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی تو ملالہ واپس اپنے اس گھر میں لوٹی جسے معمولی نوعیت ہی کا نقصان پہنچا تھا۔ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی جو کہ ایک شاعر‘ سکول کے مالک اور تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ رہے ہیں ملالہ کو ایک بہت ہی خاص شخصیت سمجھتے ہیں اور رات گئے تک اس سے سیاسی موضوع پر بحث کرتے رہتے تھے ۔

ملالہ اپنی ڈا ئری میں رات کے سناٹوں میں گونجتی گولیوں ‘توپوں کی گھن گرج اور اپنے خوف و ہراس کو کو تحریر کرتی ہے۔ ملالہ لکھتی ہے :
” میں رات تین مرتبہ جاگی کیونکہ ساری رات گولیوں اور گولہ باری کی آوازیں گونجتی رہیں“
”میری امی نے میرے قلمی نام گل مکئی کو پسند کیا اور میرے والد سے کہا کہ اسکا نام بدل کر گل مکئی کیوں نہیں کر دیتے۔ مجھے بھی یہ نام پسند آیا کیونکہ میرے اصل نام کا مطلب ہے‘ غمزدہ“۔” میں نے سکول کی دیواروں کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ شاید میں اب دوبارہ یہاں نہ آ سکونگی“۔”میں محرم کی چھٹیوں میں بونیر آگئی ہوں جو مجھے بلند پہاڑوں اور سر سبز کھیتوں کی وجہ سے بہت اچھا لگتا ہے۔ خوبصورت تو میرا سوات بھی ہے لیکن وہاں امن نہیں ہے“۔” میں نے کل ایک ہولناک خواب دیکھا جس میں مصلح طالبان اور ہیلی کاپٹر دکھا ئی د ئیے ۔ سوات میں ملٹری آپریشن سے قبل ہی مجھے ایسے خواب آیا کرتے تھے“۔”میں جب سکول سے گھر آ رہی تھی تو میں نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں قتل کر دونگا ۔ میں تیز تیز قدموں سے چلنے لگی اور پیچھے مڑ کر دیکھا کہ وہ میرا تعاقب تو نہیں کر رہا “

ملالہ کی تحریروں سے امن کی خوشبو آتی ہے ۔ اسکا لہجہ ہمیشہ سے پر عزم رہا ہے۔ وہ اپنے علاقے میں بچیوں کی تعلیم کے لیئے خاصی فکرمند رہتی۔ وہ اسلام آباد آکر اے‘او لیول کرنا چاہتی تھی مگر اس نے اپنے علاقے میں رہنا مناسب سمجھا جہاں رہ کر وہ نہ صرف خود اپنے لیئے علم کی شمع روشن رکھ سکتی تھی بلکہ اپنے گردونواح تک بھی اسکی روشنی پہنچا سکتی تھی۔ اسے خبر تھی کہ وہ دہشت گردوں کے گھیرے میں ہے کسی بھی لمحے اسکی زندگی کا چراغ بجھ سکتا ہے مگر اس نے کبھی اپنی گفتگو وتاثرات سے اس خوف کو ظاہر نہ ہونے دیابلکہ اس کے چہرے پر ہر وقت ایک روشن اور پر امید مسکان ہوتی۔بقول ملالہ ”اگر کسی دہشت گرد کا مجھ سے سامنا ہو گیا اور اس نے مجھے مارنا چاہا تو میں اس کے سامنے با آواز بلند کہوں گی کہ تعلیم ہمارا حق ہے ۔ یہ حق ہم سے نہ چھینا جائے ۔ ہمیں امن سے رہنے دیا جائے ۔ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد چاہے ہمیں مار دیا جائے“اپنے ایک انٹرویو میں ملالہ کی آنکھیں یہ کہتے اشکبار ہو جاتی ہیں :
''I want to get my education. I want to become a doctor''

شاید وہ جانتی تھی یہ سب ایک خواب بھی ہو سکتا ہے تند و تیز آندھیوں میں اسکا دیا ڈگمگا سکتا ہے۔

منگل کی دوپہر چار بجے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی خبر نے ملک بھر کو سوگوار کر دیا۔ یہ حملہ اس پر اس وقت کیا گیا جب وہ امتحان دے کر سکول سے گھر واپس آ رہی تھی۔ جب دو نا معلوم افراد نے اس امن کی فاختہ کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔ جس کے باعث اسکی سہیلیاں کائنات اور شازیہ بھی زخمی ہوئیں۔اس معصوم کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے طالبان کے ہاتھوں سکول کو مسمار کرنے کے خلاف اپنی آواز بلند کی تھی۔قلم سے جہالت کے خلاف جہاد کیا تھا۔ بہرحال ملالہ کو فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کر دیا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں کے کامیاب آپریشن اور عوام کی دعاﺅں سے اس ننھی پری کی جان بچ گئی۔سماجی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی جانب سے شمعیں روشن کی گئیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ڈر گئے ایک نہتی بچی سے
ہا ئے افسوس کیا جہادی ہیں
جبر پر یقین رکھتے ہیں
وہ جہادی نہیں فسادی ہیں

در حقیقت نئی نسل ہی نے مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنی ہو تی ہے۔یہی پاکستان کا سرمایہ ہے۔ ایسے ذہین و فطین نوجوان ہی ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں۔ طالبان دھماکے کر کر کے شاید تھک گئے تھے ۔ وہ خود تو غالباََ دینی مدرسوں میں تنگ نظر ماحول میں پلے بڑھے اور اب وہ دنیاوی تعلیم کے گہوارے کو اجاڑنے کے درپے ہیں۔ ننھی ملالہ پر حملہ شاید اسی سلسے کی کڑی ہے۔ ایسے گروہوں کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ دنیا میں ہماری بہت بدنامی ہو چکی ہے۔ کوئی طبقہ اگر طاقت کے ذریعے اپنے فلسفے کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ سب کچھ بھول کر یہ قومی دھارے میں شامل ہوں اور ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
میری عاجزانہ پیش کش پر ذرا نظرِ کرم۔۔۔
دیکھیے تو نظارے قدرت کے
تتلیاں اڑ رہی ہیں پھولوں پہ
ننھی چڑیوں کا شور آنگن میں
اور اِک قتل گاہ پہاڑوں پہ
سوہنی پریاں گری ہیں مقتل میں
ظلمتوں کے سیاہ بادل ہیں
دیکھ لیجیے یہ دور جِدت کا
کیسا عالم ہے میرے صحرا کا
واہ زمانہ انا پرستوں کا
چار سو جال جنگلی بھیڑوں کا
کان ترسے سریلے گیتوں کو
جیسے ترسی ہے تتلی پھولوں کو
ہم بھی ترسے ہو ئے ہیں پھولوں کے
گھاس دیکھیں ‘ہے اگتی انگلی پہ
آ ﺅ کاٹیں یہ جال ظالم کے
آ ﺅ جھٹکیں رواج جنگل کے
آج ہے امتحان قدرت کا
اور اِک امتحان عورت کا
صِنفِ نازک تری نزاکت کا
کالی بھیڑیں تو محوِ رقصاں ہیں
آ ﺅ ہم تالیاں بجاتے ہیں
دو گھڑی پا کے زندگانی کو
زندگی دا ﺅ پر لگاتے ہیں (عاصمہ طاہر)
Aasma Tahir
About the Author: Aasma Tahir Read More Articles by Aasma Tahir: 2 Articles with 1389 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.