اصغر خان کیس پر فیصلے کی ممکنہ سیاسی تباہ کاریاں

جوں جوں طبل الیکشن بجنے کا وقت قریب آرہا ہے ملک کی سیاسی جماعتوں میں جمع و تفریق کا عمل تیز اور غیر معمولی سیاسی عدم توازن پیدا ہوتا جارہا ہے، اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کے نامور رہنما اور سیاسی کارکنان اپنے سیاسی مستقبل بہتر بنانے سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر جماعتوں کی تبدیلی کو ترجیح دے رہے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں ایسی معلق حکومت تشکیل پائے گی جس کا کنٹرول کسی ایک دو سیاسی جماعتوں کے بس سے باہر ہوگا اور غیر جمہوری قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ کے لیے صورتحال موزوں اور سہل ثابت ہوگی کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب کسی بھی جماعت کے لیے اب ایک خواب ہی رہے گا۔ طویل عرصے بعد اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کا انتخابات سے چند ہفتوں پہلے رونما ہونا بہت سوں کو ہضم نہیں ہورہا، کہ کہاں تو مزکورہ کیس 15سال سے زائد وقت سے زیر سماعت تھا اور کہاں اچانک سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کردیا، اس سلسلے میں 1990کے انتخابات میں اسلامی جمورہ اتحاد مشہور عام IJI میں شامل 9ستارے اس وقت تو اقتدار کے آسمان پر چمکتے دمکتے رہے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے میں کامیاب رہے، مگر فطری طور پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد رفتہ رفتہ انکے حوصلے اور چمک دمک ماند پڑ گئی۔ یوں تو اسلامی جمہوری اتحاد میں دیگر جماعتیں بھی شامل اقتدار رہیں مگر ان میں نمایاں نام موجودہ مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مرحوم پیر پگاڑہ، غلام مصطفی جتوئی، جماعت اسلامی کا ہے جنہوں نے اس مارشل لاء ( کرتا دھرتاؤں کے حلفیہ اور آن ریکارڈ بیانات موجود ہیں ) کے لگائے IJIکے پودے میں کھلے پھولوں کا سب سے زیادہ رس کشید کیا۔ اب اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) عجیب شش و پنج میں مبتلا ہے اور ن لیگ کے ترجمان حضرات کے مختلف موقف اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں کہ ن لیگ کی صفوں میں شدید اضطرات کی صورتحال ہے کیونکہ موجودہ دور حکومت میں یہ پہلاموقع ہے کہ عدل و انصاف کے منبروں کی جانب سے کئے گئے کسی فیصلہ سے ن لیگ کی موجودہ اعلی ترین قیادت براہ راست متاثر ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ کے اکثر فیصلوں پر ملک کی دوسری جماعتوں پر ن لیگ ہمیشہ یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ دوسری جماعتیں عدالتی احکامات کی تعمیل میں اگر مگر اور چوں چراں سے کام لیتی ہیں ۔ اب حقیقت حال یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے نتیجے میں ایک جانب تو ن لیگ کی قیادت عدالتی حکم کے احترام کا مژدہ سناتے ہیں اور دوسری جانب انہیں اس حکم پر شدید تحفظات ہیں اور روائتی اگر ، مگر ان کی جانب سے شروع ہوچکی ہے۔ یاد رہے کہ اعلی عدلیہ کے کسی بھی فیصلے کو مکمل طور پر من و عن قبول نہ کرنا اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی توہین میں شمار ہوتا ہے مگر ن لیگ ایک منہ سے تو فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کرتی ہے مگر دوسری جانب وہ عدالتی فیصلے کے مطابق میاں برادران کو رقم ملنے کی تحقیقات فیڈر ل انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی FIAسے کرانے کے عدالتی حکم کو ماننے پر تیار نہیں (یعنی فیصلہ مکمل قبول نہیں بلکہ جزوی طور پر قبول ہے)۔ ن لیگ کی جانب سے ایف آئی اے کی تحقیقات کو قبول نہ کرنا گویا اس بات کی نشانی ہے کہ ن لیگ عدالتی فیصلوں میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ردو بدل کی خواہشمند ہے ۔

مسلم ن لیگ کی روائتی ہٹ دھرمی اور نتیجے کے طور پر میں ن لیگ کی سیاسی تنہائی کی بڑی وجوہات میں بڑے اور چھوٹے میاں صاحبان کی زاتی کوششوں کا بڑا دخل ہے، اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) جو گزرے وقتوں ملک کے پارلیمانی نظام میں دو تہائی اکثریت رکھتی تھی اپنے انتہائی غیر زمہ دارانہ طرز حکومت و دیگر جوہات کی بنا پر اپنے اتحادیوں کو کھوتی رہی مگر مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رہا اور کسی قسم کا معقول یا معتدل رویہ اختیار کے بجائے اپنے دور حکومت میں اپنے حکومتی اتحادیوں کے بعد ملک کی اعلی ترین عدلیہ پر جارحانہ حملہ کیا اور بعدازاں افواج پاکستان پر شب خون مارنے کی کوشش کی اور یوں مسلم لیگ (ن)کی مہم جوئیوں کا سلسلہ اپنے منطقی انجام پر پہنچا اور جو کچھ ہوا اس سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے، اپنی سیاسی پوزیشن کو ن لیگ جس موڑ تک لے آئی ہے اس کا الزام وہ کسی اور کو نہیں دے سکتے بلکہ ان کی اس حالت پر امجد اسلام امجد کا یہ شعر بڑا موزوں معلوم ہوتا ہے نہ آسماں سے، نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا ۔ ۔ یہ معجزہ تو مرے دست بے ہنر سے ہوا-

میاں برادران کی گرفتاری ، مقدمات اور سزاؤں کی قید و بند و دیگر سختیوں سے گھبرا کر ملکی و غیر ملکی ضامنوں کی طفیل معاہدے کے نتیجے رہائی ، بیرون ملک رہائش اور سیاست سے عملی طور پر کنارہ کشی نے مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں و کارکنوں کو پارٹی اور اعلی قیادت سے انتہائی بدظن کردیا جسکے نتیجے میں مسلم لیگ (ق) کا قیام عمل میں آیا جس کی سربراہی چوہدری برادران کے نام نکلی جن کے تعلقات جنرل پرویز مشرف صاحب کے ساتھ انتہائی خوشگوار رہے ۔ مگر مشرف صاحب کے بیرون ملک روانہ ہونے کے بعد چوہدری برادران نے پھر وہی عمل دہرایا جو انہوں نے اپنے پہلے قائدین یعنی میاں صاحبان کے ساتھ کیا تھا یعنی مشرف صاحب کی مخالفت ۔

یوں تو مسلم لیگ کے کئی رہنما اپنے طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم ہونے میں مصروف ہیں اور ق لیگ کی نئی شکل کا تعین کرنا کوئی آسان نہیں ہے لیکن زیادہ مسائل مسلم لیگ (ن) کو درپیش نظر آتے ہیں کہ جس کے حلقہ انتخاب یعنی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن کو جس طرح متواتر نقصان پہنچ رہا ہے اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ پارٹیوں میں جو سیاسی جماعت اپنی حماقتوں کے سبب جس تیز رفتاری سے اپنا حلقہ انتخاب اور اپنے ووٹرز تقسیم ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے وہ بلاشبہ ن لیگ ہے اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پہلے مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا یا کسی حد تک مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بھی مگر اب مسلم لیگ (ن) ایک اور انتخابی حریف کے نشانوں کا مرکز و محور ہے اور وہ سیاسی حریف بظاہر ایک نوآزمودہ سیاسی جماعت تحریک انصاف ہے کہ جس کا فوکس پنجاب اور خیبر پختونخواہ ہے اور جس تیز رفتاری سے تحریک انصاف سیاسی و روائتی حربے استعمال کر رہی ہے ، اس نے واقعتا ن لیگ کے چھکے ہی چھڑا دیے ہیں، کیونکہ کرکٹ کے دلدادہ میاں صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عمران خان اور ان کا مقابلہ کسی بھی عملی میدان میں اس طرح کا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں یوں تو مسلم لیگ (ن)کے لیے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے تھے ، پہلے ملتان کی ایک مشہور و معروف سیاسی قدآور شخصیت مخدوم شاہ محمود قریشی کا مسلم لیگ (ن) میں آتے آتے تحریک انصاف میں جاٹہرنا اور پھرمسلم لیگ (ن) ہی کے نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں انتہائی عزت و قدر کی نظر سے دیکھے جانے والے اور بڑی بڑی آزمائشوں میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نا چھوڑنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کا بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ 26سالہ داغ مفارقت اور تحریک انصاف میں شمولیت نے گویا مسلم لیگ (ن) کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔ مگر روائتی ہٹ دھرمی اور ناعاقبت اندیشی لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے حالات کا جائزہ لینے اور ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے تاریخ دہرانے والی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے وہی سیاسی تاریخ کہ جس کے زخم ن لیگ نے ایسے سہے کہ سالوں ان کی زبان سیاسی الف ب پڑھنے کے لائق ہی نہ رہی، وہ تو شکر ادا کریں کہ بی بی صاحبہ کی سیاسی پیشقدمیوں اور ان کے اصرار کے سبب ن لیگ کے لیے بھی عملی سیاست کے دروازے وا ہوپائے، قصہ مختصر اپنے دور حکومت میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ن لیگ نے جس مطلق العنانیت کے ساتھ حکومت کی اور ریاست کے ہر ستون کو اپنے زیر نگیں کرنے کی کوششیں کیں ، کہ جس کی داغ بیل ان کے سیاسی آباؤ اجداد یعنی جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی نے ڈالی تھی اب مسلم لیگ ن نام کی سیاسی جماعت اپنے منطقی انجام یعنی عروج سے زوال تک کے سفر پر سرعت سے سفر کر رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) نامعلوم اس حقیقت سے کیوں نظریں چراتی ہے کہ وہ ایک وقت ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی اور اس کے ساتھ کئی سیاسی جماعتوں نے مختلف اوقات میں الائنس قائم کیے مگر ایک ایک کر کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ جو ہاتھ مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت نے کیے ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کرنے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ن لیگ کی حالت کچھ اس طرح ہوگئی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریف یعنی پی پی پی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں اور صرف دشنام طرازی پر انحصار کر رہی ہے۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اسمبلی میں پیش کی گئی 20 ویں اور دیگر ترامیم نے گویا مسلم لیگ ن کے تن بدن میں آگ ہی لگادی ہے او ر اس کی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی جانب ہو چلا ہے، مگر ن لیگ یہ حقیقت بھول رہی ہے کہ معاملہ انتہائی نوعیت کا ہے، سمندر کے سینوں میں پلنے والے خوفناک طوفان سطح آب کے اوپر وقت سے پہلے نظر نہیں آتے مگر معاملہ فہم اور اہل نظر زیر آب طوفانوں کو بھانپ جاتے ہیں، اور اہل نظر جس طرح جاوید ہاشمی کی صورت میں ن لیگ کی ڈوبتی کشتی چھوڑ کر جارہے ہیں اس سے یہ بات بالکل واضع ہے کہ اگر ن لیگ میں تحمل، دانش، حکمت و تدبر اور معاملہ فہمی ہوتی تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ کی تمام تر توجہ صرف اسی بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کس طرح اقتدار مکمل طور پر حاصل کر لیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ اپنے ان غداروں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ جنہیں خود مسلم لیگ ن لوٹے اور ناقابل قبول قرار دے چکی تھی اور اب وہی کبھی ہم خیال اور کبھی خام خیال گروہوں کی صورت میں ن لیگ کے لیے قابل قبول ہوتے جارہے ہیں۔

اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلہ نے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے جس کا خمیازہ انہیں آئندہ انتخابات میں ممکنہ طور پر بھگتنا پڑ سکتا ہے، دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی بھی جارحانہ اقدام ن لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان وقتی انتخابی اتحاد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اصغر خان کیس میں ن لیگ اور جماعت اسلامی براہ راست شدید متاثرین میں شامل ہوچکے ہیں کہ دونوں سیاسی جماعتوں پر 1990میں آئی ایس آئی سے رقوم لینے کے الزامات ہیں، اس اتحاد کے نتیجے میں ایک جانب تو صوبہ پنجاب میں ن لیگ کو پیپلز پارٹی ، ق لیگ اور تحریک انصاف سے مقابلہ میں کچھ آسانی میسر آسکے گی اور دوسری جانب دوسرے فریق یعنی جماعت اسلامی کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں نوتشکیل شدہ ایم ایم اے، تحریک انصاف اور اے این پی سے مقابلہ میں آسانی ہوسکے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی مفاہمتی فارمولہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے حلیفوں کے ساتھ اپنے حلقوں میں مضبوط جماعت کے طور پر اگلی حکومت بنانے کی بہتر پوزیشن میں ہے ۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495736 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.