معاشی طور سے بد حال پاکستان
اپنی عمر کے 64 سال گزار کر ابھی تک سمجھداری سے ناآشنا ہے۔ اس ملک کے عوام
اور حکمران دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اپنے آپ کو سچا اور حقیقی محبِ وطن کہلا
رہے ہیں جبکہ ایسا شائد نہیں ہے۔ اگر ماضی میں جھانک لیا جائے تو کچھ حقائق
واضع ہو جائیں گے۔
محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن میں شکست پانے کے بعد شائد کوئی بھی نہیں
جانتا تھا کہ کچھ عرصے بعد اس ملک پر ایک اور عورت کی حکمرانی ہوگی مگر وہ
عورت محترمہ فاطمہ جناح کی سیرت پر عمل پیرا نہ ہو سکی اور اس کے حواریوں
نے اس کوکامیاب حکمران نہ بننے دیا اور اپنی مدتِ وزارت ختم ہونے سے پہلے
ہی 58-بی 2 کی دو دھاری تلوارسے حکومت ختم کردی جاتی ہے پھر ایک کے بعد ایک
یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور دوسری مرتبہ بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت
اسی تلوار سے کاٹ دی جاتی ہے نواز اور نظیر کی حکومت حصولی کی دوڑ میں بھر
نواز کو کامیابی ہوئی یہ حکومت بھی 3 سال ہی گزار سکی اور اپنی ہی بنائی
ہوئی سازش کا شکار ہوگئی اور ایک مرتبہ پھر فوجی حکومت بن گئی پھر 2007میں
پاکستانی سیاست کا بد ترین دور آتا ہے اور دسمبر کی سرد راتوں میں بھٹو کی
سیاسی وارث کوابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اس کے بعد ایک بار پھر پیپلز پارٹی
کی حکومت بنتی ہے اور اس حکومت نے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر
حکمرانی کی اور 5 سال کی منطقی حد گزارنے کے قریب ہے۔
اس حکومت میں اقربا پروری، جعلی ڈگریاں، معاشی سنگین مسائل، مالی بد
عنوانیاں، دھشت گردی، فرقہ پرستی اور مہنگائی اپنے عروج پر رہی۔ کبھی عدلیہ
سے محاذ آرائی تو کبھی اتحادی اور غیر اتحادی جماعتوں سے رسہ کشی، جعلی
ڈگریوں پر وزیر اور مشیر بننے کا رواج بھی اسی دور میں ہوا اور جعلی ڈگریوں
پر فخر بھی ہوا، عدلیہ سے نافرمانی کی سزا بگھتے ہوئے گیلانی اپنے گھر کی
راہ لیتے ہیں اور پھر راجہ کی حکومت بن جاتی ہے،پیٹرول اور گیس کی قیمتیں
آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور مہنگائی کے سرکش گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگے ان
ساری خرافات میں عوام ہی تھی جو چکی میں پستی رہی اور احتجاج بھی کرتی رہی۔
پاکستانی عوام کے مقدر میں احتجاج ہر لمحہ موجود رہا ہر حکومت کے خلاف
احتجاج بلند ہوتے رہے حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی رہیں اور ہر آنے والی حکومت
پہلےوالی سے دو ہاتھ آگے ہی نکلی یہ احتجاج کا فتنہ اتنی گہرائی میں بویا
گیا تھا کہ یہ پاکستانی عوام میں رچ بس گیا اور اب تو احتجاج کے معنی ہی
بدل گئے، کسی بھی قسم کا احتجاج ہو ملک میں جہاں کہیں ہو اس میں ہنگامہ ،
مار کٹائی، اور بلوہ عام ہے گاڑیوں کا جلانا، املاک کو نقصان پہچانا اس
عوام کا خاصہ ہے، معاملہ اگر زیادہ سنگین ہو اور امریکہ کی خوشنودی حاصل
کرنا مقصود ہو تو اپنی ہی عوام کو پولیس کے ہاتھوں مرواکر ستارہ جرأت بھی
حاصل کرلیا جاتا ہے گزشتہ چند سالوں میں عافیہ صدیقی کی سزا کے خلاف پورے
ملک میں شدید احتجاج کیا گیا ہنگامے بھی ہوئے اور لوٹ مار بھی ہوئی، اور اب
ملالہ کے ملال میں ساری قوم سراپا احتجاج ہوگئی؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا ھم ڈاکٹرعافیہ کی سزا معاف کروانے میں کامیاب ہوگئے؟
کیا امریکہ یہ مان گیا کہ اس نے غلط کیا؟
کیا ملالہ پر ملال کرکے ھم نے اپنا فرض پورا کرلیا؟
کیا ھم نے اس دھشت گردی کے خلاف ہونے والے احتجاج کی آڑ میں امریکہ کو
پاکستان پر مزید اپنا تسلط بڑھانے کی راہ ھموار نہیں کرلی؟
کیا ایسا تو نہیں ہوا کہ مغربی طاقتوں نے ملالہ کے واقع کو ہائی جیک کرلیا
ہے اور اب اس کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتی ہیں کیا وجہ ہے کہ
امریکہ ایک پاکستانی طالبہ پر ہونے والے حملے پر اتنا چراغ پا ہے اور ساتھ
ہی اس کے علاج کے لیے ہر تعاون پر تیار بھی ادھر برطانیہ سے ایئر ایمبولنس
بھی آجاتی ہے اور ملالہ کو فوری طور پر برطانیہ بھیج دیا جاتا ہے برطانیہ
کے ڈاکٹروں کے مطابق توقع ہے کہ وقت گزرنےکے ساتھ اُس کی کھوپڑی کی ٹوٹی
ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے یا انھیں تبدیل کرنے اور اعصابی نظام کی بحالی کے لیے
طویل المدت علاج کی ضرورت ہو۔
ملالہ کے ہمراہ وین میں سفر کرنے والی اُس کی دو ساتھی طالبات بھی اس حملے
میں زخمی ہو گئی تھیں۔ ان میں سے ایک کو ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد گھر
بھیج دیا گیا جبکہ دوسری ابھی اسپتال میں زیر علاج ہے، البتہ اُس کی حالت
خطرے سے باہر ہے۔ کیا ان دونوں طالبات کی بھی اتنی ہی حفاظت کی جارہی ہے
کیا سوات کی باقی طالبات کی حفاظت کا مناسب بندوبست کیا گیا ہے؟
کیا امریکہ کو ڈرون حملوں کی مزید آسانی پیدا نہیں کردی گئی؟
کیا طالبان کو عام معاشرے میں پذیرائی کے مواقع نہیں مل گئے؟ کیا طالبان
اپنی شریعت نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہر محبِ وطن پاکستانی کو چاہیئے۔ یہی لمحہ فکر
ہے۔
کیا ھمارے ناعاقبت اندیش حکمران دے سکیں گے ان سوالوں کے جواب؟؟؟؟؟؟؟؟ |