گذشتہ سے پیوستہ۔۔
(پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں کی تعداد میں ہومیو پیتھک ،
یونانی، انقلابی، اسلامی ، طبی اور نا جانے کون کون سے ناموں سے منسوب
ادارے اور کالج موجود ہیں۔ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ایک حکیم جس کے
سرٹیفیکیت کو "فاضل الطب والجراحت" اور ہومیوپیتھک ڈاکٹر جس کے سرٹیفیکیٹ
کو " ڈی۔ایچ۔ایم۔ایس" کہا جاتا ہے، اس کے داخلے کے لیئے اہلیت کا معیار کیا
ہے۔)
مزید یہاں سے پڑھئیے۔
طب اور حکمت انبیاء اور اولیاء کی وراثت ہے، پاکستان میں اس کی حالت زار یہ
ہے کہ حکیم بننے کے لئیے داخلہ کا معیار صرف میٹرک ہے۔اور بالکل یہی معیار
ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے لئیے بھی۔ میٹرک میں جو "پھس پھسا" کر پاس ہوتے ہیں
وہ بھی حکیم اور ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔ جب میرٹ یہ ہو گا تو پھر حکیم بھی "نیم"
ہی ہو گا۔ میں نے ہومیو پیتھک کالجوں میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کئی
ایسے "عظیم الشان" حکماء بھی کمرہ امتحان میں موجود ہوتے ہیں جو خود لکھنے
سے قاصر ہوتے ہیں اور نگران امتحان ان کی جگہ پرچہ حل کر رہے ہوتے ہیں۔
طبی اور ہومیو پیتھک کالجوں کا کوئی ضابطہ یا نظام سِرے سے موجود ہی نہیں
ہے۔ میٹرک اور ایف اے کے نتائج کے فوراً بعد یہاں داخلوں کا آغاز ہوتا ہے
اور یہ داخلے سال کے اختتام بلکہ سالانہ امتحان کے پہلے پرچے کے شروع ہونے
کے عین پہلے منٹ تک جاری رہتے ہیں۔ کالج میں طلباء کی حاضری کوئی ضروری
نہیں۔ طلباء کتابیں خریدنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ ان کا مقصد تو صرف اپنے
نام کے ساتھ "ڈاکٹر" لکھنے کے لئیے ایک کاغذی کاروائی مکمل کرنا ہوتا ہے۔
کتاب کا ٹائٹل تو یہ حکماء اور ڈاکٹر اس دن دیکھتے ہیں جس دن امتحان ہوتا
ہے وہ بھی اس لئیے کہ نقل مارنی ہوتی ہے۔
کمرہ امتحان میں نگران کی موجودگی میں کتاب کھول کر اسے دیکھ کر پرچہ حل
کیا جاتا ہے اور یہ با قاعدہ طے شدہ ہوتا ہے۔ امتحان میں ناکامی یا کامیابی
کا انحصار پرچہ دیکھ کر نہیں بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ امیدوار نے کالج
کی سال بھر کی فیسیں ادا کر دی ہیں یا نہیں۔ جس کی بارہ مہینوں کی مکمل فیس
ادا نا ہو وہ کسی ایک مضمون میں فیل ہو جاتا ہےاور ساتھ ہی اس امیدوار کو
یقین دہانی کروا دی جاتی ہے کہ آئندہ مکمل ادائیگی پر کامیابی کی ضمانت ہے۔
جب اس طرح کے کالج ہوں گے تو وہاں نیم حکیم اور جاہل ڈاکٹر ہی پیدا ہوں گے۔
ان اداروں نے اپنی تشہیری مہم میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ آپ ہمارے ہاں
داخلہ لیں ہم دوران تعلیم آپ کو بطور ڈاکٹر یا حکیم پریکٹس کرنے کے لئیے
تحفظ کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔ جس ملک میں یہ بنیادی مسائل پنجے گاڑھ چکے ہوں
اور حکومت خاموشی سے تماشا دیکھے اس ملک میں خاک بہتری آئے گی۔ جونہی یہ
حکماء اور ڈاکٹر ان نام نہاد کالجوں سے "فارغ التحصیل" ہوتے ہیں یہ اس
طریقے سے خود کو پیش کرتے ہیں جیسے حکمت و دانائی کا نکتہِ انتہا یہی ہوں۔
مطب، دواخانہ یا کلینک کے باہر ان کے بورڈ بھی پڑھنے لائق ہوتے ہیں۔ سر کے
بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک ہر مرض کے شافی و کافی علاج کا دعوٰی انہیں
کو ہوتا ہے۔ ایلوپیتھک جو تحقیق و ترقی کے عروج پر ہے، اس کے لئیے پہلے
اچھے نمبروں میں ایف ۔ایس۔سی، پھر سخت داخلہ ٹیسٹ پھر پانچ سال کا
ایم۔بی۔بی۔ایس۔ پھر ہاؤس جاب اور پھر تخصّص (Specialization) کے لئیے مزید
کئی سال، تب جا کر وہ خود کو ماہر ڈاکٹر لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ مگر یہاں
چوروں کی بغلوں میں پل کر یہ نیم حکیم اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر خود کو سر کا
گنجا پن، وقت سے پہلے بڑھاپہ، نزلہ و کیرا، نظر کی کمزوری، نابینا کو
بینائی، پرانی سے پرانی کھانسی، ناک کی بڑھی ہوئی ہڈی، جگر اور پتہ کا ورم،
ہر قسم کا یرقان، شوگر، مثانہ کی کمزوری، ہڈیوں اور جوڑوں کا درد، گھینٹھیا،
عرق النساء، لقوہ، فالج، الرجی، چنبل، داد، بے اولادی، جرثومہ کی کمی،
بانجھ پن، مردانہ کمزوری کا ماہر و حاذق طبیب نا صرف بتاتے ہیں بلکہ یہاں
تک دعویٰ کرتے ہیں کہ ان بیماریوں کا علاج ایک دن، ایک گھنٹہ اور ایک منٹ
میں کر دکھائیں۔ بسوں ریل گاڑیوں، چوراہوں، عوامی مقامات پر "موبائل حکماء"
آپ کی خدمت کے لئیے بآسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ دانتوں کے کیڑے نکلوا لیں،
مردانہ و زنانہ کمزوری کا علاج کروا لیں، پیٹ درد کی پھکی/چورن خرید لیں (
وہ الگ بات ہے کہ یہ پھکی کھا کر آپ اپنی چارپائی بیت الخلا کے قریب رکھ
لیتے ہیں)۔
عوامی سوچ اور شعور کا معیار اتنا پست ہے کہ لوگ ان موت فروخت کرنے والوں
کے نرغے میں بآسانی آ جاتے ہیں۔ ان "بلند پایہ" حکماء کے نسخوں اور ادویات
کے نام بھی بہت عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ مثلاً "شاہی کیپسول، باغ و بہار شادی
کورس، انمول گولیاں، کشتہءِ خاص، بڑے حکیم صاحب کا نسخہ، لقمانی نسخہ، اصلی
یونانی تیل، معجون مچھلی، معجون شاہی، زیت کریلہ، سانڈ کیپسول ، شادی سے
پہلے شادی کے بعد کورس"وغیرہ وغیرہ۔ بیسیوں ایسے نام ہیں جو یہاں لکھنا ہی
اخلاقیات کے خلاف ہے۔
افسوس صد افسوس ۔۔۔ یہ انسانی حقوق کا ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کی طرف وزارتِ
داخلہ کی توجہ ہے اور نا ہی محکمہ صحت کی نظر۔ نتیجے میں ان ظالم حکما ء
اور ڈاکٹر لوگوں کی جہالت کی وجہ سے کئی لوگ انتہائی خطرناک بیماریوں کا
شکار ہو رہے ہیں۔ فارماکوپیا، فارماکولوجی (Pharmacopoeia, Pharmacology)
سے بالکل نا بلد و نا آشنا یہ حکماء و اطبا نہیں جانتے کہ دوا کی مقدار کس
طرح طے کی جاتی ہے۔ دوا کی Storage یا حفاظت کے بنیادی قواعد، Dispensing
کیسے ہوتی ، دوا کی تیاری کے لوازمات کیا ہوتے ہیں ان تمام بنیادی علوم سے
بالکل بے غرض ہو کر حکیم صاحب اپنی مہارت کے جادو سے لوگوں کا بیڑا غرق
کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھتے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال غیر مستند
نرسوں کی ہے جو ناجائز طور پر حرامکاری کا دھندہ کرنے والی عورتوں کے لئیے
اسقاطِ حمل (Abortion) کے مکروہ عمل کا اہتمام کرتی ہیں۔
آج دن تک پاکستان میں (Disposable Syringes) کے استعمال کا فقدان ہے۔ کئی
نیم ڈاکٹر اور حکیم ایک ہی سیرنج سے متعدد مریضوں کو ٹیکہ لگا دیتے ہیں۔
مویشیوں کے لئیے استعمال ہونے والی ادویات انسانوں کو دی جاتی ہیں۔ ہم نے
دنیا کے متعدد ممالک جن کو ہمارے پاکستانی بہت پیچھے سمجھتے ہیں، وہاں
دیکھا ہے کہ کھلی ادویات کی فروخت نہیں ہوتی، پاکستان میں ابھی تک آپ سیل
پیک بوتل کھلوا کر اس میں سے ادویات لے سکتے ہیں اور باقی ماندہ کسی دوسرے
گاہک کو بیچ دی جاتی ہیں۔
اس موضوع پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر وقت کی کمی، غمِ روزگار، معاشرتی
مصروفیات اور پھر کچھ دیگر موضوعات بھی توجہ کے طالب ہیں، لہٰذا اسی پر
اکتفا کرتا ہوں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ میرے ہم وطن
اپنی آنکھیں کھولیں، اصلی اور نقلی کا فرق کریں۔ اپنی صحت کے بارے ہمیشہ
کسی مستند طبیب سے رجوع و مشورہ کریں، صحت سب سے پہلی اور سب سے بڑی نعمت
ہے۔ اپنی جان پر جو خرچ کریں گے وہی اصلی بچت ہے۔ اس لئیے خرچ سے گھبرانے
کی بجائے مستند ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ جہاں کہیں یہ کاذب اور ظالم نیم حکیم
نظر آئیں فوراً ان کا خلاف کریں ۔
علماء و محدثین چونکہ فاضل ہوتے ہیں، درسِ نظامی میں طب کے علوم بھی شامل
ہوتے ہیں اور کائنات کے سب سے بڑے طبیب رسول اللہ ﷺ ہیں، احادیث میں کثرت
سے طبی معلومات ملتی ہیں، لہٰذا اگر کوئی اچھا عالم ِ دین کوئی نسخہ دے تو
اسے قبول کر لیں کہ اس میں دین و دنیا کی رحمت، شفاء اور فیض موجود ہوتا ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو ہر طرح کی دینی و دنیاوی ظاہری و باطنی بیمارریوں سے
شفائے کاملہ و عاجلہ عطا کرے۔ آمین |