فاروق ایچ نائیک صاحب چیئرمین سینٹ اور جان
محمد جمالی صاحب ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب ہو چکے ہیں ان کو مبارک ہو۔ ان کے
خلاف کسی ق اور ن اور و جماعت نے کیوں مقابلہ نہیں کیا وہ تو وہ جانیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کو بدنام اور دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششوں میں لوگ جب
سے ہی مصروف ہیں جب سے ایم کیو ایم وجود میں آئی ہے اور اب جبکہ مرحلہ وار
متحدہ قومی موومنٹ ایک قومی سطح کی جماعت کا درجہ حاصل کر چکی ہے (کیا ہوا
اور ملک کے تمام صوبوں میں اسکے ارکان اسمبلی نہیں ہیں) اور قومی سطح کی
سیاست کرتی ہے کسی تعصبی نعرے کی بنیاد پر سیاست نہیں کر رہی ہے۔ اور لاکھ
پرانی حکومتوں نے کوشش کی متحدہ قومی موومنٹ کو دہشت گرد ثابت کرنے میں مگر
آج متحدہ قومی موومنٹ پہلے سے زیادہ تناور سیاسی درخت کا درجہ حاصل کر چکی
ہے اور دو تہائی اکثریت رکھنے والے جو اپنے آپ کو فرعون سمجھ رہے تھے ان کے
ساتھ تقدیر اور قدرت نے جو ہاتھ کیا ہے وہ تو اسی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اور متحدہ قومی موومنٹ لاکھوں لوگوں کے ووٹ کی امانتدار ہے اور جوابدہ ہے
اپنے ووٹرز کو جو اس پر یقین کامل رکھتے ہیں اور سازشی عناصر جو متحدہ کی
مقبولیت سے خائف ہیں اور متحدہ کو الزامات کی زد پر رکھتے ہیں انشاﺀ اللہ
وہ وقت دور نہیں جب متحدہ قومی موومنٹ کے منتخب نمائندے ملک بھر سے منتخب
ہو کر آئیں گے اور جس طرح کی ترقی کراچی کے نصیب میں آئی ہیں وہ پورے ملک
میں پھیلے گی اور یہ تعصبی نعرے کہ متحدہ قومی موومنٹ خدانخواستہ ایک قاتل
اور لسانی جماعت ہے متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے کردار اور اپنے عمل سے اس
چیز کو غلط ثابت کر دکھایا ہے یہی وجہ ہے کہ کراچی کے ووٹرز متحدہ قومی
موومنٹ کے امیدواروں کے حق میں جس جزبہ سے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں وہ دنیا بھر
کے مبصرین اور فوج اور رینجرز کی موجودگی میں ہوتا ہے اور کوئی کسی کو
اسلحہ کے زور پر ووٹ کاسٹ کرواسکے یہ کسی گاؤں دیہات اور قصبوں میں تو ممکن
ہے ہاریوں، کسانوں اور غریبوں کے ساتھ مگر کراچی جیسے تعلیم یافتہ اور مڈل
کلاس سے تعلق رکھنے والے میٹروپولیٹن شہر میں ایسی سوچ رکھنا بھی بے وقوفی
ہو گا۔
اور جس طرح چاہے اور جس کسی کے سامنے انتخابات کروالیں انشاﺀ اللہ کراچی
میں رہنے والی تمام اقوام چاہے وہ پنجابی، سندھی، پختون، بلوچی، اردو،
سرائیکی غرض جو زبان بھی بولنے والے ہوں وہ ایک ہی زبان بولتے ہیں اور وہ
ہوتی ہے ووٹ کی زبان اور جب ووٹ کی زبان کسی کےحق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو
باقی ساری سازشیں دم توڑ دیتی ہیں۔
اور کچھ تجزیہ نگاروں کا اس بات کی توقع رکھنا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو
کیونکہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا عہدہ نہیں ملا اور وہ حکومت سے الگ ہو جائے گی
اور احتجاجی سیاست کرے گی اس کے جن حضرات کو آثار نظر آرہے ہیں ان کے
تجزیوں کے لیے دعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے کچھ مہربان تجزیہ نگاروں
کو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین صاحب کے چند بیانات تو بڑے
عجیب لگتے ہیں اور جو ملک کی دوسری پارٹیوں کے لیڈران کے بیانات ہوتے ہیں
ان کی شاید ہمارے تجزیہ نگار بھائیوں کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی، ن
لیگ والے ق لیگ کے ساتھ اور ق لیگ والے ن لیگ کے ساتھ اور مخالفت میں روز
جو پینترے اور کیمپت بدل رہے ہیں وہ تو ہمارے تجزیہ نگار بھائیوں کے کچھ
اہم نہیں اور قائد تحریک جناب محترم الطاف حسین بھائی کے ایک بیان نے تجزیہ
نگار بھائیوں کے سارے حواسوں اور احساسات اور محسوسات کو اپنی طرف اس بری
طرح گھیر لیا ہے کہ کیا کہنا۔
الطاف حسین صاحب کے بیانات بڑے متوازی ہوتے ہیں اور اگر وہ اپنے کولیشن
پارٹنر کو کوئی مشورہ دے رہیں ہیں تو اب اس پر بھی ہمیں اعتراضات ہونے لگے
اور سازشوں کے پلاؤ اور بریانی کی خوشبوئیں آنے لگیں۔ ایک اتنے سے بیانات
کے تناظر میں عجیب عجیب قسم کے غیر منتطقی اور حاشیہ آرائی ٹائپ کے نتائج
اخذ کرنے کے کو رائی کا پہاڑ بنانے کے علاوہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ متحدہ قومی موومنٹ جب سندھ میں کولیشن پارٹنر(ق لیگ) کے مقابلے
میں کئی زیادہ اکثریت رکھنے کے باوجود وزارت اعلیٰ کے منصب سے دستبردار ہو
گئی تھی اور پورے گزشتہ دور میں کوئی سازش نہیں کی اور کبھی حکومت گرانے
میں ملوث نہیں رہے تو اب جبکہ سینٹ میں متحدہ قومی موومنٹ کی اتنی بڑی
اکثریت ابھی تو نہیں ہے کہ متحدہ غیرعملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنے
بڑے ایوان میں اپنے کولیشن پارٹی سے اس حد تک اختلاف رکھے اور اپنے راسے
جدا کرنے کی کوشش کرے۔
متحدہ کے اندرونی ذرائع واقعی جمہوری اور تنظیمی لحاظ سے بڑے اسٹرانگ ہیں
اور آنے والے حالات کی سن گن نہیں بلکہ حالات واقعات کا عملیت پسندی سے
جائزہ لیتے اور نا صرف اپنی اعلیٰ قیادت بلکہ اپنی رابطہ کمیٹی کے درمیاں
معاملات پر بات چیت ہوتی ہے اور کسی کا ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ اکثر و بیشتر
رابطہ کمیٹی جن پالیسیوں پر متفق ہوتی ہے وہ کیے جاتے ہیں اور ظاہر ہے جو
فیصلے اکثریت رائے سے ہوں ان کے نتائج اچھے ہی نکلتے ہیں۔
متحدہ کے کسی بیان کو یہ کہ دینا کہہ نواز شریف صاحب کے حق میں ہے تو بھائی
الطاف حسین صاحب نے تو نواز شریف صاحب کو وکلا کا ایک پینل مہیا کرنے کی
بھی پیش کش کی تھی اس وقت تو تجزیہ نگار اور ماہرین کچھ سونگھ نا سکے اور
ایک بیان میں انہیں تبدیلی کے طوفان امنڈتے نظر آنے لگے۔ نواز شریف صاحب کی
ہمدردی میں الطاف بھائی کے یہ بیان بھی غور طلب تھے کہ شریف برادران کی
نااہلی ایک افسوسناک فیصلہ ہے جب بھی کسی کے لیے اس بیان میں نواز شریف
صاحب کے کیمپ میں جانے کی خوشبوئیں نہیں آئیں۔ ایک ایک بیان سے اگر
تبدیلیوں کی خوشبوئیں آنے لگی ہونا شروع ہوجائیں تو ہمارے اخبارات میں جو
بیانات ہر ایک کے ہر روز چھپتے ہں ان کے حساب سے تو روز اس ملک میں اقتدار
کی تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔
کچھ لوگوں کو اب تک ق لیگ کا کردار سمجھ میں نہیں آرہا اور فرماتے ہیں کہ
بظاہر غیر جانب دار محسوس ہوتا ہے۔ اگر غیر جانب دار ہوتے تو میرے بھائی وہ
اپنا سینٹ چیئرمین کا امیدوار کیوں بٹھا لیتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو سمجھنا
چاہیے وہ ہم نظر انداز کرتے ہیں اور جو غیر ضروری ہوتے ہیں اس میں ہمیں
سازشوں اور تبدیلیوں کی خوشبوئیں آنے لگتی ہیں۔
کب سے انقلابات کے نعرے لگ رہے ہیں مگر جب تک ملک کے اٹھانوے فیصد عوام
نہیں اٹھے گیں ان پیٹ بھرے وکلا اور ججز کے لیے اگر انقلاب آنے لگتے تو اب
تک آچکے ہوتے اور دوسرے بات یہ کہ انقلابات لائے نہیں جاسکتے وہ تو آجاتے
ہیں اور ان کے لیے دو چار سال کے اسپانسرڈ جلسے جلوس کوریج اور دھرنے نہیں
ہوتے بلکہ انکے لیے عوام اور حالات دونوں درکار ہوتے ہیں اور ہاں ایک بے
لوث قیادت جو اپنے اور اپنے رشتے داروں سے اقتدار کے محل بھرنے والی نا ہو
بلکہ بے لوث ہو اور ذاتی مفادات اور کسی منصب اور عہدے کی لالچی نا ہو۔ |