نواز زرداری محاذ آرائی ---اصل مسئلہ کیا ہے؟

صدر زرداری و نوازشریف محاذ آرائی
اصل کھیل کیا ہے ؟
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کی امریکی سازش صدر زرداری اور نوازشریف کے اتحاد سے ہی ناکام بنائی جاسکتی ہے
میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کے ذریعے ہی پاکستان کو بحرانوں سے نجات دلاکر اس کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے
”رویوں کی تبدیلی کا آغاز“ فوجی سربراہ کی جمہوریت کو بچانے کی کوششیں ‘ گیند سیاسی قیادتوں کے کورٹ میں ‘ فیصلہ نواز و زرداری کا مستقبل پاکستان اور قوم کا ؟
وکلاءتحریک اپنی کامیابی کی منازل کے نزدیک ‘ آزاد عدلیہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے ‘ افتخار چوہدری کی استعفے کی پیشکش ‘ حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت
صدر زرداری کا پنجاب میں گورنر راج کے خاتمے اور چیف جسٹس کی بحالی کا عندیہ ‘ گیلانی کی کوششیں کامیابی کے نزدیک
سلمان تاثیر اور رحمن ملک کو منظر سے ہٹائے جانے کا امکان ‘ شریف برادران کو مذاکرات کی دعوت
صدارتی فرمان کے ذریعے معزول چیف جسٹس کی بحالی ‘ زرداری کو این آر او کے خاتمے سے بچاسکتی ہے
پنجاب سے گورنر راج کے خاتمے‘ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کے قیام اور نوازشریف کی نااہلی کے خاتمے کے ذریعے پاکستان کو سامراجی سازشوں سے محفوظ رکھنے کےلئے ”اشتراکی نظام “ قائم کیا جاسکتا ہے
سترھویں ترمیم کا خاتمہ صدر زرداری کا قوم سے وعدہ ہے ‘ ویسے بھی ایسی آئینی ترمیم ان کے کس کام کی جو ان جےسے جمہوری سیاستدان کو اپنی ہی حکومت پر شب خون مارکر جمہوریت کی رخصتی کا اختیار دیتی ہو

پاکستان و افغانستان کی مدد سے روس کے ٹکڑے ٹکرے کرنے کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی سامراجی قوتوں کو اس بات کا احساس ہو چلا تھا کہ ایشیاء میں پاکستان و افغانستان ہی وہ واحد قوتیں اور اسلامی ریاستیں ہیں جو عالمی سامراجی نظام کے خلاف مضبوط مزاحمت کو جنم دے سکتی ہیں اور امریکہ کی دنیا کی واحد” سپر پاور“ کی حیثیت کےلئے خطرات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم ریاستوں کے مابین اتحاد و اتفاق کے ذریعے ایک ایسا مضبوط ”مسلم بلاک“ بھی تشکیل دے سکتی ہیں جو عالمی سامراجی نظام کے لئے ہر محاذ پر خطرات اور صیہونی مقاصد کی تکمیل کےلئے رکاوٹ بن سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ”سرد جنگ “ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادیوں نے پاکستان اور افغانستان کو اندرونی خلفشار سے دوچار کرنا شروع کردیا تاکہ وہ کبھی بھی اپنے اندرونی مسائل سے نکل کر عالم اسلام میں اشتراک و اتحاد پیدا کرنے کےلئے کوئی پیشرفت نہ کرسکیں ۔ اس مقصد کےلئے جہاں طالبانائزیشن کے نام پر افغانوں کو باہم دست و گریباں کرکے ان کے اتحاد کی قوت کو اس طرح سے توڑ دیا گیا کہ روس کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے والا افغانستان آج خود اپنی بقا کے خطرات سے دوچار ہے اور اس کی اندرونی جنگ کا فائدہ اٹھاکر 9/11کو بنیاد بناکر امریکہ افغانستان میں داخل ہوچکا ہے گوکہ ابھی تک امریکہ کو افغانستان میں کوئی ایسی قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی ہے جس سے یہ کہا جاسکے کہ وہ افغانستان میں جنگ جیت جائے گا یا افغانستان میں اس کا مستقبل کیا ہوگا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جنگ نے افغانستان کو جس معاشی و اقتصادی بدحالی سے دوچار کردیا ہے اس کے نتائج اس وقت سامنے آئیں گے جب امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا ۔افغانستان کی طرز پر پاکستان کو بھی کمزور کرکے اسے شکست و ریخت سے دوچار کرنے کےلئے سامراجی قوتوں نے پاکستان کے ساتھ بھی وہی کھیل کھیلا جو افغانستان کے ساتھ کھیلا تھا یہاں بھی مسلک ‘ لسانیت اور فرقہ پرستی کے ذریعے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے سازشوں کا جو جال پھینکا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے مگر امریکہ پاکستان کے خلاف افغان طرز کی بیرونی کاروائی اور مداخلت اس لئے نہیں کرسکتا تھا کہ اسے اس بات کا شک و شبہ تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی قوت موجود ہے اور کسی بھی ایٹمی قوت کے خلاف بیرونی جارحیت سامراجی مفادات کے لئے نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی تھی کیونکہ واحد ایٹمی اسلامی ریاست ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب مسلم ریاستوں کو متحد ہونے کا جواز فراہم کرسکتا تھا اور سعودی عرب و ایران”بقائے پاکستان“ کے نقطے پر متحد ہوسکتے تھے جنہیں سامراجی قوتوں نے بڑی مشکل سے مسلکی بنیادوں پر ایک دوسرے سے دور رکھ کر مسلم قوت کو منتشر کیا ہوا ہے۔ اس لئے امریکہ نے پاکستان پر بیرونی جارحیت کے ذریعے قبضہ کرنے کی بجائے اسے اندر سے کمزور کرنے کےلئے پاکستان میں مذہبی ‘ لسانی ‘ صوبائی اور مسلکی منافرت کا کھیل کھیلنے کے ساتھ ساتھ نظاموں کی تبدیلی کا کھیل کھیلنا شروع کردیا اور جنرل ضیاءالحق کے گیارہ سالہ آمرانہ اقتدار کے شکنجے میں پاکستان کو دبائے رکھنے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر پاکستان کی صنعتی ‘ تجارتی ‘ اخلاقی اور اقتصادی تباہی کرانے کے بعد جنرل ضیاءالحق کو ایک سازش کے تحت ”سانحہ بھاولپور “انجام دے کر محض اس لئے راستے سے ہٹادیا گیا کہ جنرل ضیاءالحق طویل ترین اقتدار کے بعد خود کو مضبوط ترین حکمران سمجھنے اور امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے تھے ۔”سانحہ بھاولپور “ کے بعد بار بار نظام کی تبدیلی کے کھیل کے ذریعے گزشتہ دو عشروں کے دوران دو دو بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لاکر اور رخصت کراکر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اعتماد اور امیج کو مجروح کیا گیا اور سیاسی رسہ کشی کے ذریعے پاکستان کو سرمایہ کاری کےلئے ناموزوں خطہ ثابت کرکے اس کی اقتصادی تباہی و بربادی کی گئی تاکہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی سے محروم رہتے ہوئے بیرونی قرضوں کا محتاج اور سامراجی قوتوں کی ”کٹھ پتلی “ بنا رہے اور پھر سابق وزیراعظم نوازشریف کے عہدِ حکومت میں 28مئی 1998ءکو پانچ ایٹمی دھماکوں کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے باضابطہ اعلان نے پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے امریکی شکوک و شبہات کو سچ ثابت کردیا اور اس نے پاکستان کے خلاف اپنی اسٹریٹجی کو تبدیل کرتے ہوئے پاکستان سے جمہوریت کی رخصتی کا فیصلہ کرلیا کیونکہ اپنے آئندہ پلان پر عملدرآمد کےلئے اسے عوام کو جوابدہ جمہوری حکومت کی بجائے عوام پر مسلط ایسی آمریت کی ضرورت تھی جس کے ذریعے امریکی مفادات کی بجاآوری بھی ہوتی رہے اور پاکستان کی عوام امریکی تابعداری پر حکومت کے خلاف کوئی احتجاج بھی نہ کرسکے سو نواز شریف کو رخصت کرکے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوگئے یوں نہ صرف پاکستان کی مزید بربادی کےلئے امریکہ پاکستان سے جمہوریت کو رخصت کرانے میں کامیاب ہوا بلکہ اس نے اختیار واقتدار چھین کر نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں کے ذریعے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی جوہری ریاست ہونے کا اعلان کرنے کی سزا بھی دے دی ۔

11/9 کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اسرائیل نے امریکہ کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کے جس سلسلے کا آغاز کےا اس میں عراق کی بربادی اور ایران پر اقتصادی پابندیوں کے علاوہ افغانستان پر قبضے کےلئے پاکستان کے جس کردار کی ضرورت تھی اس کےلئے پاکستان میں آمریت ہی امریکہ کا بہترین ہتھیار تھی یوں جنرل مشرف امریکی آشیر باد سے اپنے آمرانہ اقتدار کو آٹھ سال تک طول دینے میں کامیاب رہے مگر پھر جنرل مشرف سے صدر مشرف بننے کے بعد جب بیک وقت امریکہ و طالبان سے دوستی و دشمنی اور وفاداری و غداری کا صدر مشرف کا دوہرا کردار امریکہ کے سامنے آیا تو اس نے ایک نئی گیم کھیلنے کی ٹھانی اور مشرف کے دستے میں شامل امریکی ایجنٹوں نے مشرف کو یہ باور کرادیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری ان کے اقتدارکےلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں یوں مشرف کی جانب سے افتخار چوہدری کی معزولی کے باعث انتظامیہ اور عدلیہ محاذ آرائی کا آغاز ہوا مگر جب اس محاذ آرائی کے نتیجے میں بھی مشرف کی رخصتی عمل میں آتی دکھائی نہیں دی تو امریکہ نے کچھ ایسے حالات پیدا کئے کہ لندن میں دو جلا وطن رہنما اکھٹے ہوئے اور ان کے درمیان پاکستان کے مستقبل کےلئے ”میثاق جمہوریت “ کے نام سے ایک ایسی دستاویز تیار ہوئی جس نے پاکستان کی تمام سیاسی قیادتوں کو تمام اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ظالمانہ و آمرانہ سیاست میں جمہوریت کےلئے روزن بھی روشن کئے مگر ”میثاق جمہوریت “مشرف رخصتی کی حد تک تو امریکہ کےلئے قابل قبول تھا مگر مشرف کی تبدیلی کے بعد اس دستاویز پر عملدرآمد گزشتہ تیس سالوں سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی سامراجی محنت پر پانی پھیر سکتا تھا اس لئے نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی کے خاتمے اور ان کی وطن واپسی کی راہ میں تو رکاوٹ نہیں ڈالی گئی مگر محترمہ بےنظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد لیاقت باغ (راولپنڈی) میں ان پر قاتلانہ حملے کے ذریعے اس معاہدے کے ایک فریق کو منظر سے ہٹادیا گیا ۔ یوں مشرف کی رخصتی کے بعد جو جمہوری حکومت وجود میں آئی اس میں پیپلز پارٹی کی اکثریت تو ضرور تھی اور وہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لےکر چلنا بھی چاہتی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور علیحدہ علیحدہ تھا ایک جانب مسلم لیگ (ن) تھی جس نے افتخار چوہدری کی بحالی اور آزادی عدلیہ کے نام پر پنجاب میں اپنا سکہ جمایا تھا تو دوسری جانب پیپلز پارٹی تھی جسے روٹی‘ کپڑا ‘مکان کے نعرے سے زیادہ بےنظیر کے لہو کے صدقے میں مینڈیٹ ملا تھا جبکہ مشرقی این آر او کے تحت منصب صدارت تک پہنچنے والے آصف زرداری کو چوہدری افتخار سے یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ کہیں وہ بحال ہونے کے بعد این آر او کا خاتمہ ہی نہ کردیں اور اگر ایسا ہوا تو زرداری کی صدارت تو گئی سو گئی انہیں ایک بار پھر عدالتی معاملات سے بھی گزرنا پڑے گا اور اس بات سے میاں نوازشریف بھی مکمل طور پر آگاہ تھے اسلئے ان کا زرداری کے افتخار چوہدری بحالی کے کسی وعدے پر اعتماد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے مگر چونکہ دونوں کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں اسلئے ایک وقت گزارنے کےلئے وعدے کرتا رہا اور دوسرا اپنا وقت کاٹنے کےلئے ان وعدوں پر اعتبار کا یقین دلاتا رہا یوں وکلاء تحریک بھی جاری رہی زرداری بھی صدارت تک جا پہنچے اور پنجاب میں (ن) لیگ کو بھی حکومت مل گئی بلوچستان کے نمائندے بھی حکومت میں شامل ہوگئے اور سرحد والوں کو بھی حصہ ملتا رہا جبکہ شہری و دیہی نظام کا شکار سندھ بھی دونوں نظاموں کے نمائندوں کے اشتراک و اتحاد کے ذریعے امن کی تصویر پیش کرنے لگا مگر اپنے ایجنٹوں کی مدد سے افغانستان کی آگ کو وزیرستان ‘ باجوڑ ‘ مالاکنڈ اور سوات سے گزارتا ہوا پنجاب تک پہنچا دینے والا امریکہ پاکستان کے اس سیاسی استحکام کو کس طرح برداشت کرسکتا تھا سو ”ایجنٹوں “ نے کام دکھایا ”اہلیت کیس“ میں فیصلہ شریف برادران کے خلاف آیا ۔ ایک جانب ”کچھ“نے پنجاب میں گورنر راج کے ذریعے اپنی حکومت بنانے پر صدر کو اُکسایا تو ”کچھ “ نے صدر کے اس فیصلے کے خلاف (ن) لیگ کو سڑکوں پر آنے کا درس پڑھایا اور یوں امریکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان قائم افہام و تفہیم کا خاتمہ کرانے میں کامیاب ہوگیا گوکہ آصف زرداری اور نواز شریف دونوں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ افہام و تفہیم کی فضا اسی طرح قائم رہے اور عوام تک جمہوریت کے فوائد پہنچانے میں انہیں مشترکہ کامیابی ملے کیونکہ دونوں قیادتوں کی خواہش ہے کہ” کمزور انفرادی اقتدار“ کے بجائے” مضبوط اشتراکی نظام“ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی مسائل حل کرکے اور پاکستان کو ترقی دے کر عوام کے سامنے سرخرو ہو جائیں مگر یہ صورت امریکہ کو کسی طور منظور نہیں کیونکہ اس سے سامراجی مفادات کو نقصان پہنچے گا اگر پاکستان میں اتحادو اشتراک امریکہ کو پسند ہوتا تو محترمہ بےنظیر بھٹو کا قتل ہی نہ ہوتا اور آج نواز و بےنظیر ”میثاق جمہوریت “ پر عملدرآمد کے ذریعے ایک ”مضبوط اشتراکی نظام “ کے تحت وطن عزیز کو ترقی و استحکام کی منازل تک پہنچاچکے ہوتے ۔
لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ امریکی سازشوں کے تحت جہاں ایک جانب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں وہیں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ دونوں جماعتوں کے دیگر قائدین کے برخلاف نوازشریف و آصف زرداری کا لب و لہجہ اب بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے دونوں کی خواہش ہے کہ مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کر لیا جائے اور وطن عزیز کو محاذ آرائی کے نقصان سے بچایا جائے ۔
تو پھر اصل مسئلہ کےاہے کہ سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ؟

اصل مسئلہ ہیں دونوں جماعتوں میں شامل وہ ”امریکی ایجنٹ “جو افہام و تفہیم اور ”اشتراکی نظام “ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ہر بار جب حالات سلجھنے لگتے ہیں نفاق کا ایسا بیج بودیتے ہیں کہ انتشار و افتراق کی فضا پیدا ہوجاتی ہے اسلئے دونوں سیاسی قائدین کو موجودہ حالات کے تناظر میں ”ون ٹو ون “ ملاقات کرنی چاہئے جس میں صرف اور صرف زرداری و نواز شریف کے درمیان ہونے والے گلے شکوے دور کرانے کےلئے یوسف رضا گیلانی موجود ہوں کیونکہ یوسف رضا گیلانی نے اس سارے سیاسی بحران میں جو ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے اس کی پاکستانی سیاست میں نظیر نہیں ملتی جبکہ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستانی سیاست کو بحران سے نکالنے اور وطن عزیز کو خطرات سے بچانے کےلئے معزول چیف جسٹس اس شرط پر استعفیٰ دینے کےلئے تیار ہوگئے ہیں کہ انہیں بحال کرکے وکلا کی قابل تعریف تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی عدلیہ کے خواب کو بھی تعبیر دے دی جائے تو وہ بحالی کے بعد استعفیٰ پیش کردیں گے ‘ ملکی سیاست کو گرداب سے نکالنے اور جمہوریت کو بچانے کےلئے افتخار چوہدری کی پیشکش ان کے محب وطن ہونے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اسلئے حکومت کو اس پر عملدرآمد میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے ۔ دوسری جانب سربراہ عساکر جنرل پرویز اشفاق کیانی کی وزیراعظم و صدور سے ملاقاتوں کے بعد یہ اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں کہ صدر زرداری نے پنجاب سے گورنر راج کے خاتمے اور چیف جسٹس کی بحالی کا عندیہ دے دیا ہے اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ موجودہ حالات میں صدر زرداری کا ایک ایسا مستحسن اقدام ہوگا جس سے پاکستان تمام سیاسی بحرانوں سے نجات ہی نہیں پائے گا بلکہ صدر زرداری پاکستان کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا ناکام بناکر پاکستان کے بہترین سیاسی رہنما ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرلیں گے کیونکہ پاکستان کے خلاف کی جانے والی تمام تر سازشوں سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کا یہی واحد حل ہے کہ صدر زرداری ایک جانب پنجاب سے گورنر راج کا خاتمہ کرکے اکثریتی پارٹی کے طور پر مسلم لیگ (ن) کو ایک بار پھر پنجاب میں حکومت بنانے کا موقع فراہم کریں اور شریف برادری کی ناہلی کے عدالتی فیصلے کو ایوان کے ذریعے معطل کراکر وطن عزیز کی ہر دلعزیز سیاسی قیادت کو سیاسی منظر سے باہر ہونے سے بچاتے ہوئے ”اشتراکی نظام “ کو قائم کریں جبکہ دوسری جانب ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی بحال کردیں ‘ رہی بات افتخار چوہدری کی جانب سے بحیثیت چیف جسٹس این آر او کے خاتمے کی تو صدر کے ایگزیکٹیو آڈر کے تحت چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہونے والا این آر او کا خاتمہ کس طرح سے کرے گا کیونکہ این آر او کے خاتمے سے جہاں زرداری کے خلاف قائم تمام کیسز دوبار اوپن ہوجائیں گے وہیں صدر کی حیثیت سے جاری کردہ ان کا ایگزیکٹیو آرڈر بھی غیر فعال ہوجائے اور ایگزیکٹیو کے آرڈر کے تحت بحال ہونے والے چیف جسٹس کی بحالی بھی آئینی طور پر ختم ہوجائے گی ۔اس لئے صدر زرداری کو تمام شکوک و شبہات اپنے ذہن سے نکال کر صدارتی فرمان کے ذریعے چیف جسٹس کو بحال کردینا چاہئے جبکہ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال میں افتخار چوہدری کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ بحالی کے بعد این آر او کے خلاف کوئی کاروائی نہ کریں کیونکہ اس سے جہاں جمہوریت پر ضرب کاری پڑے گی وہیں اس ”اشتراکی نظام “ کا بھی خاتمہ ہوجائے گا جو بقائے پاکستان کے لئے لازم ہے ۔رہی بات سترھویں ترمیم کے خاتمے کی تو صدر زرداری نے اس کےلئے قوم سے وعدہ کیا ہے اور انہیں ایسے متنازعہ اختیار کو اپنے پاس رکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو ختم کرسکیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو سامراجی قوتوں کی سازشوں سے محفوظ رکھنے کےلئے سارا کھیل اعتماد کا ہے جہاں صدر زرداری اپنی پارٹی پر اعتماد کرکے سترھویں ترمیم کے خاتمے کے ذریعے قوم کی نظروں میں ختم ہوتا ہوا اپنا اعتماد بحال کرسکتے ہیں وہیں نواز شریف اور افتخار چوہدری بھی صدر زرداری کو حکومت نہ گرانے اور این آر او نہ ختم کرنے کا یقین دلاکر اس اعتماد پر پورا اتر سکتے ہیں جس کےلئے قوم نے مینڈیٹ دے کر مسلم لیگ کو اقتدار اور افتخار چوہدری کو بحالی کی منزل تک پہنچایا ہے اور وہ اعتماد ہے مسائل کا حل اور وطن کو بحرانوں سے نجات دلانے کا اعتماد کہ یہی قوم کی ضرورت ہے اور یہی قوم کا مطالبہ .... کیونکہ محاذآرائی کی موجودہ سیاست سے وطن عزیز جس معاشی تباہی کی جانب گامزن ہے اس نے عوام کی اکثریت کو فاقوں کا شکار تو کرہی دیا ہے لیکن پنجاب میں جاری محاذ آرائی جو آگے چل کر پورے ملک میں بھی پھیل سکتی ہے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کی امریکی خواب کو بھی تعبیر کی منزل تک لے جارہی ہے اور اسی مقصد کی تکمیل کےلئے وہ پاکستان میں انتشار کا کھیل کھیل رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے سیاسی عمائدین امریکہ کے اس کھیل کو کس طرح ناکام بناتے ہیں اور وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ؟
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 62611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Nawaz Zardari Disagreement-What Is The Matter - Pakistani nuclear assets can only be secured from the America by having good relation ship between the Mian Nawaz Sharif And President Asif Ali Zardari. In This article the politics views is given to on the various problems and issues. The Pakistani politics is facing crisis now a days. Many issues can be solved with the brotherhood.