پاکستان میں شاید ہی کوئی شعبہ
اتنی تیزی سے ترقی کرنے میں کامیاب ہوا ہو جس انداز سے میڈیا نے ترقی کی ہے۔
پاکستان کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق اداروں اور کارکن صحافیوں
نے جس طرح سے دنیا بھر میں اپنا ایک نام اور مقام بنایا ہے وہ قابلِ ستائش
ہے۔ وگر نہ ماضی میں پاکستانی میڈیا ایک کمزور بھیڑ کی طرح تھا کہ کوئی جب
چاہے اسے ہانک لے۔ وہ کمزور بھیڑ بہرکیف ان بھیڑوں سے بہت مختلف تھی جو
پاکستان نے آسٹریلیا سے منگوا کر خود ہی چھری پھیر کر تلف کردی ہیں۔ ان سے
بھلا کوئی پوچھے ان بھیڑوں کو تلف کرنے کی سہولت آسٹریلیا اور دوبئی میں
موجود تھی تو اتنا تردد کرنے کیا ضرورت تھی یقینا ان بھیڑوں کی برآمد کے
پیچھے کوئی نہ کوئی کالی بھیڑ بھی موجود ہوگی۔ جو اس ہجوم اور بھیڑ کا حصہ
ہے جس کا ہم بھی حصہ ہیں ۔ خیر یہ بھیڑچال ہمیشہ رہی ہے۔ بہرطورجب سے میڈیا
”آزاد “ ہو اہے ”یہ کھلی ترتیب“ چل رہا ہے یعنی کھل کھلا کر سامنے آیا ہے۔
بسا اوقات تو میڈیا اتنا کھلتا ہے کہ لوگ ٹی وی ”کھولتے“ (آن کرتے ) ہوئے
ڈرتے ہیں کہ پتا نہیں کیا چل رہا ہو۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے
ہوں تو والدین کو مجبوراً ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے کہ
”نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے“ اور فوری چینل تبدیل کرنا پڑے۔
بہرکیف ہمارا میڈیا جو2002 کے بعد سے ایک مضبوط اور موثر میڈیا کے طور پر
سامنے آیا ہے ابھی بھی ارتقائی منازل طے کررہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ
یقینا اس کے قول اور فعل دونوںمیں پختگی آئے گی۔ آج بھی ہمارے میڈیا میں
ایسے متعدد کالم نویس، صحافی اور اینکرزموجود ہیں جو انتہائی نپی تلی بات
کرتے ہیں اور جو اپنی ریٹنگ کو بالائے طاق رکھے ہوئے خالصتاً ملک اورعوام
کی بہتری کے لئے لکھتے ہیں ۔ قیناً ایسا کرنے سے ان کا اپنا ضمیر بھی اتنا
ہی مطمئن ہوگا جتنے مطمئن وہ خوددکھائی دیتے ہیں وگر نہ جن کے چہروں پر شور
کی کسی کیفیت بپا رہتی ہے ان کے اندر کس قدر شور اور ہڑبونگ ہوگی اس کے
بارے میں یا وہ خود جانتے ہوں گے یا اُن کا خدا جانتا ہوگا۔
یہ باتیں تو خیر اپنی جگہ لیکن پاکستان کے میڈیا نے جس قدر مشکلات دیکھی
ہیں وہ اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب اچھے خاصے
ہنستے بستے اور چلتے چلاتے‘ اخبارات قومیائے گئے تو وہ کملا کر رہ گئے۔
نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) بن گیا اورپاکستان ٹائمز‘ مشرق‘ امروز جیسے
بہترین اخبار اُس کاحصہ بن گئے۔ ہم نے نوے کی دہائی کے اوائل میں وہ وقت
بھی دیکھا جب امروز بند ہو رہا تھا تو میو ہسپتال کے سامنے جہاں پاکستان
ٹائمز کا دفتر بھی تھا سڑک پر ایک چارپائی پر روزنامہ امروز کا ”مردہ“ ڈال
کر بے چارے کارکن صحافی احتجاج کررہے ہوتے کہ اخبار نیشنل پریس ٹرسٹ
کی ’بہترین ‘کارکردگی کی بدولت بند ہورہا تھا اورملازمین کے گھروں کے چولہے
ٹھنڈے ہوا ہی چاہتے تھے۔ پاکستان ٹائمز بھی ایک بڑا اخبار تھا اب ” ڈمی“ کے
طور پر سسکیاں لے رہا ہے۔ روز نامہ مشرق جس کا طوطی بولتا تھا اس کا حشر
بھی سب دیکھ چکے پھر بھی قابلِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اس کو کسی نہ کسی صورت
لاہور، پشاور اورکوئٹہ سے مختلف مالکان اور ٹیموں کے ہمراہ اس کی زندگی کا
سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ماضی میں میڈیا اراکین کو جیلوں اور تشدد کا سامنا بھی رہا آج جب کہ
پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گیارھواں برس ہے میڈیا اپنے محاذ پر
ڈٹا ہوا ہے۔ اب تو شدت پسندوں کی جانب سے بھی انہیں کھلی دھمکیاں دی جارہی
ہیں۔ نجانے میڈیا کا قصور کیا ہے جو اس شعبے سے وابستہ لوگوں کو یوں خطرناک
نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں حالانکہ صحافی بننا از خود ایک خطرناک کام
ہے جس کا فیصلہ صحافی خود کرتا ہے۔ اب تو حالات بہتر ہیں وگرنہ صحافی کی
تنخواہ تو اتنی کم ہوتی ہے کہ جس دن تنخواہ ملتی ہے اس دن بھی اس کی اپنے
گھر میں عزت نہیں ہوتی ہے کہ اسے کٹہرے میں بٹھا کر پوچھا جاتا ہے کہ ان
پیسوں کو بھلا تقسیم تو کرکے بتاﺅ کہ بچوں کی فیس ،گھر کا راشن اور بوڑھے
والدین کی دوائیوں کے لئے تمہارے پاس کونسا الہ دین کا چراغ ہے کہ تم مہینہ
نکال جاﺅ گے۔ اس لئے بہت سے پرانے صحافی گھر جانے کی بجائے پریس کلب میں
پڑے رہتے تھے۔ ایک صحافی جب دو چار دن گھر نہ گئے تو ان کا بیٹا پتہ کرتے
کرتے پریس کلب پہنچ گیا۔ کسی نے بتا دیا کہ تمہارے ابو اندر کمرے میں تشریف
فرما ہیں۔ بیٹے کو دیکھ کر صحافی سٹپٹا گیا۔ اس نے بیٹے کو تو سو پچاس‘دے
کر چلتا کیا بعد میں پریس کلب میں کھڑے ہو کر ننگی گالیاں دیں کہ میرے بارے
میں کیوں بتایا ہے کہ میں فلاں کمرے میں ہوں۔
صحافی اس شعبے میں اپنے ٹھرک اور شوق کی بنا پر آ تے تھے وگر نہ پیسہ تو
اُن کے پاس بھی بہت ہے جو اکثر لوگ نہیں بننا چاہتے۔ آج بھی بے شمار صحافی
اچھی زندگی بسرنہیں کررہے۔ وہ کسی جگہ بغیر تنخواہ کے، اپنی عزت نفس کو مار
کرکام کررہے ہوتے ہیں جوکامیاب اور زیادہ تنخواہ والے صحافی تو چند فیصد
ہیں۔ اس کے باوجود میڈیا کو دھمکیاں اسطرح سے دی جارہی ہیں کہ پتہ نہیں
جیسے یہ ملک لوٹ کر کھا گئے ہوں!
صحافی کا سب سے بڑا مسئلہ خبر ہے۔ وہ خبر کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا
اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس دور میں صحافی حقائق پر مبنی رپورٹنگ
کررہے ہیں تو اس میں کیا مذائقہ ہے۔ اگر ملالہ کو شدت پسندوں نے گولی ماری
ہے تو میڈیا یہی کہہ رہا ہے کہ اسے گولی ماری گئی ہے اب میڈیا یہ تو نہیں
کہہ سکتا کہ ملالہ سائیکل سے گر کر زخمی ہوئی ہے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ بحث
کے دوران جو پہلے چیخا وہ شکست کھاگیا۔ اگر کسی نظریے یا پیغام میں جان ہو
تو وہ دلوں پر ضرور اثر کرتا ہے وگر نہ دھونس‘ دھمکیوں کے ساتھ کبھی انقلاب
نہیں آتے۔ اس سے نفرتیں ہی پھیلتی ہیں اور میڈیا کو دھمکیوں کے اس ماحول
میں قوم کی سپورٹ حاصل ہے کہ میڈیا کاکام اپنے پیشہ ورانہ امور کو انتہائی
دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ انہیں صرف اس پاداش میں جان سے مارنے کی
دھمکیاںدینا کہ وہ اپنا کام کیوں کررہے ہیں‘ عقل سے بالاتر ہے۔ میڈیا نے
ہمیشہ ملک و قوم کی بھلائی کے لئے کام کیا ہے خدا کرے کہ یہ اسی عزم اورقوت
کے ساتھ رواں دواں رہے۔ |