متحدہ کا طاقت کا فلسفہ

طاقت کا فلسفہ یہ ہے کہ آپ طاقت ور کا ساتھ دیں کچھ دن بعد آپ بھی اپنے حلقے کے سپر مین بن جائیں گے ۔ 1982 -83 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیش کے چیئرمین الطاف حسین جو اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد ہیں اپنی ہر تقریر میں طاقت کے فلسفے کی بات کرتے تھے ان کی تقریباََ ہر تقریر میں طاقت کا ذکر اور مظاہرہ کیا جاتا تھا ، طاقت کے اظہار کا سلسلہ تو تاحال جاری ہے تاہم اس کا ذکر کم ہوگیا ہے۔

ان ہی دنوں لوگوں کو معلوم ہوا کہ طاقت کے حصول کے لیئے اگر گھر کے ٹی وی اور ریڈیو بھی فروخت کرنا پڑے تو بھی کوئی ہچکاہٹ محسوس نہیں کرنا چاہئے بس کسی بھی طرح طاقتور بن جانا چاہیئے ۔

الطاف حسین اپنی تقاریر میں طاقت رکھنے والی قوتوں کے بارے دلائل سے یہ ثابت کرتے تھے کہ ان کی کامیا بی کا راز یہ ہی ہے کہ وہ ہر محاذ پر مقابلے کی طاقت رکھتے ہیں۔اپنے دلائل کی حمایت میں وہ فلسطین میں اسرائیلی فوج کے ظلم ستم کی بھی بات کیا کرتے تھے ان کاکہنا تھا کہ طاقت کے بغیر کوئی بھی قوم کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتی اس لیئے ضروری ہے کہ ریڈیو اورٹی وی بیچیں اوراسلحہ خریدیں ۔ ان کی اس مسلسل تبلیغ کے نتیجے میں شہر میں قانونی اور غیرقانونی اسلحہ پھیلتا گیا اب شائد ہی کراچی کا کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں اسلحہ کی موجودگی کا اظہارتقریباََ ہر روز ہی نہ کیا جاتا ہو، عیدالفطر کا چاند نظر آئے ، یا کرکٹ کے میچ میں کامیابی یا ناکامی ہو خطرناک کلاشکوف، رائفل اور ٹی ٹی پستول اوراب تو بم کی موجودگی کا بھی بلاخوف وخطر اظہار کیا جاتا ہے،ہر گلی محلے یہ ثبوت دے رہے ہوتے کہ یہاں اسلحہ موجود ہے۔اسلحہ کی آمد کے ساتھ ہی کراچی کے لوگوں خصوصاََ مہاجروں کی پڑھے لکھے ہونے کی دلیل ختم ہوگئی ساتھ ہی جو شناخت اور حیثیت ملی اس سے سب ہی واقف ہیں۔

اسی اسلحہ نے الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین اور قریبی ساتھیوں عظیم احمد طارق، ایس ایم طارق،خالد بن ولید اور دیگر کئی کی کراچی میں اور ڈاکٹر عمران فاروق کی لندن میں جان لی، اس اسلحے کے خوف سے الطاف حسین اپنی جان کی حفاظت کے لیئے 1992میں لندن چلے گئے وہ خود تو محفوظ ہوگئے لیکن آج بھی ان کے نئے ، پرانے اور سابقہ ساتھی اسی اسلحہ کی وجہ سے روزانہ ہی اپنی جانوں سے جارہے ہیں جو زندہ ہیں وہ سانسیں بھی خوف کے عالم میں لیتے ہیں اس اسلحہ کے خطرناک کھیل نے آج تک کسی کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے الٹا نقصان ہی پہنچایا ہے نتیجہ یہ نکلا کہ طاقت کا حصول امن پسند مہاجروں اور ان کے شہر کے لیئے ناسور بن گیا۔اب روزانہ چھ سات معصوم نہتے افراد اس اسلحہ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔لیکن اسلحہ کی موجودگی کے باعث طاقت کا مظاہرہ ملک خصوصاََ کراچی کے لوگ تسلسل سے اور ہر چند روز بعد دیکھتے ہیں۔ کراچی جہاں 29/28سال پہلے تک عام لوگ اسلحہ رکھنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے آج وہ ہی اسی اسلحے سے خوفزدہ کی وجہ سے اپنی زندگیوں کو اجیرن بناچکے ہیںامن پسند افراد کو اسلحہ رکھنا تھا نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے ہا ں البتہ گلی محلے کے بدمعاشوں کو اسلحہ کی زیادہ ضرورت تھی نتیجے میں انہوں نے خوب اسلحہ جمع کیا طاقت کا اظہار کرتے رہے جو آج بھی جاری ہے جبکہ شریف انفس لوگ آج اس اسلحہ سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔اس طرح شہر پرامن اور شرپسندلوگوں کے درمیان تقسیم ہوگیا۔امن پسندشہری اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیئے ہر مسلح شخص یا اس کے ساتھی کی بات سننے پر مجبور ہیںکیونکہ انہیں مسلح افرادکے شرسے بچانے والا کوئی بھی نظر نہیں آتا۔بہرحال بات ہورہی تھی طاقت کے فلسفے کی۔

اس فلسفے نے شائد ان کی جماعت کو مہاجرقومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بننے پر مجبور کرنے کے ساتھ طاقتور اور منظم جماعت کا لیبل تو دیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی الطاف حسین ،ان کی جماعت اور ان کے ساتھی مظلوم بن کر سہارے کے متلاشی ہیںوہ تمام تحفظات ، شکوے اور شکایتوں کے باوجود حکومت کا ساتھ دینے اورحکومت میں رہنے پر مجبور ہیںحالانکہ طاقت کے حصول نے انہیں اور انکی پارٹی کو دنیا کی سپر پاور امریکہ کے قریب بھی کردیا ہے لیکن امریکہ کی حمایتی پارٹیوں میں شامل ہونے کے باوجودخودالطاف حسین اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس ہیں اگر مایوس ہونے کی بات غلط ہے تو کم از کم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ الطاف حسین اپنے سیاسی مستقبل سے مطمئین نہیں ہیں تب ہی تو انہوں نے حال ہی اپنے ٹیلی فونک خطاب میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ” اگر اعتدال پسند ، روشن خیال اور لبرل ذہن رکھنے والے ان کا ساتھ نہیں دینگے تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ پاکستان کی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلیں“۔

ملک کی تاریخ میں بے پناہ طاقت رکھنے والی منظم جماعت کہلانے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کی یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ متحدہ ہر وہ کام کرنے اور ہر اس ایشو کی حمایت کرنے پر مجبور ہے جونہ صرف موجودہ حکومت بلکہ امریکہ اور غیر مسلم قوتوں کے مفاد میں ہو؟

پاکستان میں طالبان کی سرگرمیاں ہو یا پھرامریکہ میں تیار کی جانے والی گستاخانہ فلم کا ایشو متحدہ کےلئے” گلے میں پھنسی ہڈی“ بن جاتی ہے ۔اپنے قیام کے 28 سال بعد بھی باوجود اس کے کہ ہزاروں کارکن اور عام مہاجر طاقت اورحقوق کے حصول کی جدوجہد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور لاکھوں کی تعداد اس کے حمایتی ہونے کی دعوﺅں کے باوجود متحدہ اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں اس کو سہارے یا طاقت کی ضرورت تھی یہ سچ ہے کہ غریب اور متوسط قیادت کو متحدہ نے اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچادیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عام مہاجروں اور دوفیصد طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کے مسائل میں صرف اضافہ ہوا ہے۔ تمام اختیارات اور مسلسل حکومتوں کا حصہ رہنے کے باوجود متحدہ نہ صرف اپنے کارکنوں بلکہ عام لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام ہے ، ہزاروں افراد کے اجتماعات اور لاکھوں حمایتوں کے دعوﺅں کے باوجودکراچی کے شہریوں کے لیئے متحدہ امن اور تحفظ کی علامت نہیں بن سکی تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟متحدہ اس قابل بھی نہیں بن سکی کے اپنے قائد الطاف حسین کی پاکستان میں حفاظت کرسکے جس کے نتیجے میں الطاف حسین” لندن میں رہنے اور وہاں کی شہریت کے فائدے اٹھانے پر مجبورہوئے“۔

کراچی کے تاجروں نے ٹارگیٹ کلنگ ،بھتہ خوری اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث 3 نومبر کو گورنر اور وزیراعلیٰ ہاﺅس پر احتجاجی مظاہرہ و دھرنا اور مسائل حل نہ ہونے پر 10نومبرکو ہڑتال کا اعلان کیا ہے جو اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی متحدہ اپنے ووٹرز کو وعدوں کے مطابق کچھ بھی نہیں دے سکی ، متحدہ منظم اور طاقتور ضرور ہوگی لیکن کس کے لیئے ؟اس سوال کا جواب تاحال مطلوب ہے۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166222 views I'm Journalist. .. View More