معمہ

تاریخ پاکستان پر نظر ڈالیں تو جُھرجُھری لے کر رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب جب بھی نئی حکومت آئی چاہے وہ مارشل لاءہی کیوں نہ ہو، ہم نے دیکھا کہ عوام نے مٹھائیاں بانٹیں، جشن منایا ۔ عوامی جذبات کا اگر سرسری نظر سے جائزہ لیا جائے تو بات یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ملک پاکستان پر جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاستدان سب کے سب یا تو خود سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار ہیں یا پھر ان کی اولادیں اقتدار پر قابض ہیں ۔ انہیں ملک سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی واسطہ مطلب نہیں کہ ”پاکستان“ کن حالات میں بنا تھا۔ آج ملک دشمنوں کی ریشہ دوانیاں اور ہمارے نااہل حکمرانوں کی بھیانک اور شرمناک جاہلانہ حرکتیں کیا گل کھلا رہی ہیں۔

عوام کے مسائل میں جتنا اضافہ ہوچکا ہے وہ قوتِ برداشت سے زیادہ ہے۔ چند ہزار روپے میں ایک خودکش مل جاتا ہے اور وہ بے پناہ نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔ حکومت ملک میں بیٹھے ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے قاصر ہے جو ان خودکشوں کے ذریعے تباہی پھیلا رہے ہیں۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ساری سرکاری ایجنسیاں مسائل کی جڑ تک پہنچ کر اس کا قلع قمع کر دیتیں اور ملک کے اندر سازشیوں کو پکڑنے کے لئے پوری سوسائٹی کی چھان پھٹک کرتی تاکہ کوئی دہشت گرد اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہو پاتا۔ امریکہ میں 9/11 کے بعد کوئی بڑی یا چھوٹی دہشت گرد کارروائی نہیں ہوسکی تو اس کی وجہ وہاں کی انتظامیہ کی ذمہ دارانہ پالیسی ہے۔ جبکہ ہماری انتظامیہ خواب غفلت میں سوئی ہوئی ہے نہ جانے کب جاگے گی؟ یہاں تو ذاتی مفادات ہی سب چیزوں پر مقدم ہیں۔

پاکستان میں بالاتر طبقہ کی آپسی جنگ زور و شور سے جاری ہے۔ ملک کے حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ذاتی، گروہی، طبقاتی دشمنیوں کو بالائے طاق رکھ کر عوام میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کی سعی کی جائے،ملک میں جاری دہشت گردی کی لہرکو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جائے۔

ہم نے اپنی آزادی آسانی سے نہیں بلکہ بہت لُہو دے کر حاصل کی ہے۔ اِس آزادی نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ انگریزوں اور ہندوﺅں کی دوہری غلامی سے نجات ملی، کاروبار کے دروازے کھلے، رہن رکھی ہوئی تمام جائیدادیں واگزار ہوئیں اور وہ بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار جو ہندو بنیئے کے محتاج ہو چکے تھے دوبارہ اپنی وسیع جاگیروں اور زمینوں کے مالک بن گئے۔ لیکن جب وہی طبقہ ہمارا حکمران بنا تو انہوں نے اقتدار پر ہمیشہ کے لیے براجمان رہنے کے لئے ملک میں انارکی پھیلا دی کیونکہ وہ جانتا تھا اگر اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے ہاتھ میں آ گیا تو ہمارے ہاتھ کچھ نہیں بچے گا اور ہمارا یوم حساب آ جائے گا۔

آج حالت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ انتشار ، نفسانفسی، خودغرضی، بیماری، بیروزگاری اور عدم مساوات کا معاشرہ بن چکا ہے۔ ہم اپنی تمام اخلاقی اقدار خود اپنے ہاتھوں قتل کر چکے ہیں۔ ہمارے تمام ادارے — مقننہ سے لے کر عدلیہ تک اور عدلیہ سے لے کر فوج تک اور فوج سے لے کر نوکر شاہی تک، بدانتظامی اور استحصال کے نمائندے بن چکے ہیں۔ ہمارے اِس معاشرے کی نئی نسل کے احوال تو اور بھی شرمناک ہیں۔
قصّہ مختصر یہ کہ ××××× حکمران بن چکے ہیں اور ہماری قسمتوں کی باگ ڈور اُس نسل کے ہاتھ میں آچکی ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہر ناجائز ذریعہ اپنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔

ہمارا یہ حکمران طبقہ اپنی بقا کے لیے امریکہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ اپنی بقا کا انحصار امریکہ پر رکھنا ، ریت پر دیوار کھڑی کرنے کے مترادف ہے اور ریت پر جو دیوار کھڑی ہوتی ہے، زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔
ملکی حالات کچھ اس طرح ہوچکے ہیں کہ بہت اندھیری رات ہے۔اتنی اندھیری کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور ایسے میں ہم سیاہ کار (عام آدمی) اپنی اپنی کنجِ عافیت سے نکلتے ہیں(یا ہمیں باہر دھکیل دیا جاتا ہے)۔اب ایک نہ سمجھ میں آنے والی،نہ دکھائی دینے والی دنیا ہمارے سامنے ہے۔ہمیں بھٹکتے ، گرتے پڑتے لوگوں کی کراہیں سنائی دیتی ہیں،بڑے بڑے کانٹے اور پتھر ہمارے پیروں کا امتحان لیتے ہیں۔ ایسے میں ہم لوگ اس ذاتِ کریم کو ہی پکارتے ہیں کہ ”اے اللہ ہم میں پھر کوئی عمر فاروق جیسا حکمران بھیج “اس کے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں کیونکہ مایوسی مقدر کی صورت میں ہماری پیشانیوں پر لکھ دی گئی ہے۔ ہم جہاں تھے وہاں پر ہی کھڑے رہ کر ترقی کے دروازے کوحسرت سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اِک آس ہمیں رکھنے نہیں دیتی اور اِک خوف آگے بڑھنے نہیں دیتا۔

کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو گرچہ ہمارے بہت سامنے ہوتی ہیں مگر ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے— جیسے ہم انہیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔شائید اس لئے کہ وہ بہت بے رحم ہوتی ہیں۔بہت سرد،اتنی ناشائستہ کہ ہم انہیں اپنا احساس قرار دینے سے کتراتے ہے۔لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسانیت محض ”انسانی طرزِ عمل“سے بہت بڑھ کر سوچنے پر قادر ہے۔ ایسے ہی ہم اکثر سچ کو نہیں پا سکتے اور ساری زندگی سچ کی تلاش میں سرگردہ رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ سچ تو ہمارے اندر کی روشنی کا نام ہے جسے اللہ نے انسان کو دنیا دیکھنے کے واسطے دیا تھا۔

سچ ہمارے اردگرد ہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہم اسے ادھر ادھر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن سچ نہیں ملتا ملتا ہے توصرف میرا سچ ، تیرا سچ، اس کا سچ مگر کوئی مجموعی طور پر ہمارا سچ نہیں ملتا۔ہم غلطی کرتے ہیں تو بس اتنی کہ اپنے اپنے سچ کی گٹھڑی دوسروں کے سر لادنے کی کوشش کرتے ہیں— اپنی طاقت، اپنے ایمان اور اپنے جذبے کے بل بوتے پر اور یہیں سے ساری خرابی جنم لیتی ہے اور ہم بظاہر سچ کی تلاش میں ہمیشہ سربسجود رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سچ کی تلاش مجھے بھی ہے”طالبان“ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ ان کا وجود ہے بھی کہ نہیں یا پھر ان کا نام لے کر ہمیں اسلام سے پیچھے تو نہیں ہٹایا جا رہا ۔ہم نے اپنی سوچ سے کبھی ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے اسی کو سچ جانا جو ہم کو مغربی میڈیا نے بتایا اور ہم نے کچھ جانے سمجھے بغیر سچ جان لیا کہ طالبان کا نظریہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مساجد پر مدرسوں، اور سکولوں پر بم دھماکہ کرنا ۔ ہر بم دھماکے کا الزام طالبان پر لگا کر حکومت بری الزمہ ہو جاتی ہے لیکن طالبان کو سامنے نہیں لاتی یہ طالبان کون ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں اگر یہ طالبان مسلمان ہے تو مساجد پر حملے کیوں کرتے ہیں؟ یہ مسلمان طالبان یہ نہیں جانتے حضور نے فرمایا تھا کہ ”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“ ان طالبان کو یہ نہیں پتہ جنگ بدر میں جو کفار قیدی بنے تھے آپ نے صرف ان کو اس شرط پر رہائی دی کہ وہ دس مسلمان اَن پڑھ کو پڑھنا لکھنا سیکھا دیں۔ وہ تعلیم جو ان قیدیوں نے دینی تھی وہ اسلامی نہیں دنیاوی تھی۔ یہاں ثابت ہوتا ہے کہ دنیاوی تعلیم حاصل اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اسلامی تعلیم یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے لیکن طالبان کیوں نہیں جانتے؟ ایک سوال یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ آج تک کسی طالبان نے شراب خانے، جوے خانے پر، قحبہ خانہ پر بم دھماکہ نہیں کیا اس کی کیا وجوہات ہیں حالانکہ اسلام ان کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ کیا یہ طالبان نہیں جاتے؟

ہم وطنو! طالبان کا وجود ہے کہ نہیں ان کا مذہب کیا ہے؟ میں نہیں جانتا میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ امریکہ نے 9/11 کا بدلہ لینے کے لیے جب اپنا دشمن تلاش کیا تو ہر طرف ناکامی ہی اسے نظر آئی چنانچہ اس نے اپنی ناکامی اور حفت مٹانے کے لیے ایک کہانی گھڑی کہ 9/11 پر حملہ اسامہ بن لادن نے کیا ہے؟ اس طرح پوری دنیا نے یہ نہ سوچا کل تک اسامہ کا وجود نہیں تھا اور اچانک یہ کیسے پیدا ہوگیا؟ اس طرح ہمیں جو جو معلومات امریکہ بتاتا گیا ہم یقین کرتے چلے گئے۔ جب امریکہ بہادر نے دیکھا اب کہانی کا انجام ہو جانا چاہیے تو اس نے اسامہ کو مار دیا اور اس کی لاش تک نہیں دکھائی۔ یہ کبھی ہوسکتا ہے ایک متنازعہ شخص جس کے وجود کے مطلق دنیا کے ذہن میں شک و شبہات ہوں اس کے چہرے کو مسخ کرکے سمندر میں پھینک دیا جائے اور مسخ شدہ چہرہ بھی نہ دکھایا جائے۔ وہ ایک معمہ تھا معمہ ہی رہا۔

طالبان کو بنانے اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ذہن جانتے ہیں کہ پاکستان کی عوام کس طرح کی باتوں کے جھانسے میں آ جاتی ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمارا خفیہ دشمن کیا چاہتا ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں کہ سن 1970 ءمیں جب پاک بھارت جنگ نہیںہوئی تو کچھ انڈین شرپسندوں نے پاکستان کا لبادہ اوڑھ کر گنگا طیارہ ہائی جیک کر لیا اور پاکستان میں لے آئے یہاں پر کسی نے نہ سوچا یہ ہائی جیکر انڈین بھی ہوسکتے ہیں اس کے پیچھے انڈیا کا اپنا مفاد بھی ہوسکتا ہے لیکن ہم تھے کہ ان کے وارے جا رہے تھے اور ان کو سر آنکھوں پر بٹھا رہے تھے کہ پھر ہم کو اس وقت سمجھ آئی جب ہم ذلت آمیز شکست کے بعد دو ٹکڑے ہوگئے۔ اسی طرح اب طالبان کے روپ میں ایک بساط پھیلائی جا رہی ہے ۔ اس کے پس پردہ کیا محرکات ہیں؟
abdul razzaq wahidi
About the Author: abdul razzaq wahidi Read More Articles by abdul razzaq wahidi: 52 Articles with 87011 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.