بھارتیہ جنتا پارٹی نے جب رام کے
نام پرسارے ملک میں نفرت و عناد کا زہرگھول دیا تھا اور فرقہ وارانہ فسادات
کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تھے تو کچھ لوگوں نے اس جماعت کا نام
بھارتیہ جھگڑا پارٹی رکھ چھوڑا تھا بلکہ کچھ لوگ اسے بھارت جلاؤ پارٹی کہہ
کر بھی پکارنے لگے تھے لیکن نتن گڈکری پر بدعنوانی کے پے درپے الزامات کے
بعد پوری جماعت کا ان کی حمایت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا اس بات
کا تقاضہ کرتا ہے کہ اب اس کا نام بدل کر بھرشٹ(بدعنوان) جنتا پارٹی رکھ
دیا جائے ۔ نتن گڈکری اپنے بول بچن کیلئے کافی مشہورہیں انہوں نے کانگریس
کو منیّ سے زیادہ بدنام کہہ کر ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ سنگھ پریوار بھی
ان کی بڑ بڑ سے نالاں تھا ۔ بدعنوانی کے تازہ الزامات کے بعد بڑبڑ کو ان کے
نام میں شامل کرکے انہیں گڈکری کے بجائے گڑبڑ کری کے نام سے پکارنا زیادہ
بہترہے ۔ ویسے بی جے پی رہنماوں پر بدعنوانی کا الزام کوئی نیا نہیں ہے ۔
اس جماعت کے سابق صدور اڈوانی اور بنگارو پر بدعنوانی کے الزامات لگ چکے
ہیں۔ اس وقت وہ ازخود ہٹ گئے تھے یاپارٹی نے انہیں چلتا کر دیا تھا لیکن اس
بار صورتحال مختلف ہے نہ گڈکری ہٹنے کا نام لے رہے ہیں اور نہ کوئی انہیں
ہٹانے کی بات کررہا ہے سوائے بی جے پی رکن پارلیمان رام جیٹھ ملانی کے لیکن
تنظیم میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس لئےانکی پذیرائی ذرائع ابلاغ تک
محدود ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی روحانی پیشوا آر ایس ایس کو بھی اب اپنے نام میں
ترمیم کر کے بی ایس ایس یعنی بھرشٹا چارسیوک سنگھ کردینا چاہئے اس لئے کہ
فی الحال وہ راشٹرکی خدمت کرنے کے بجائے بی جے پی کے بدعنوان رہنماوں کو
کلین چٹ دینے میں مصروف ہے ۔دسہرہ کے موقع ممبئی میں ہندو ہردیہ سمراٹ بال
ٹھاکرے نے کلین چٹس کا حوالہ دیتے ہوئےکہا ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک ’’ نیشن
آف چیٹرس‘‘ میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ ویسے بال ٹھاکرے نے کانگریسیوں کو نشانہ
بنایا لیکن اس میں شک نہیں کہ ان چیٹرس میں زعفرانی اورترنگی برابر کے شریک
ہیں بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی آپس میں ملی بھگت ہو گئی ہے اور
دونوں مل کر قومی خزانے کو لوٹ رہے ہیں ۔ نتن گڈکری نے آرٹی آئی کارکن
ڈاکٹرانجلی دامنیا کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ ہم چار کام ان کے کرتے ہیں
اور وہ چار کام ہمارے کرتے ہیں اس لئے اس معاملے کو آگے نہ بڑھایا جائے ۔
دیوالی کے بعد دسہرہ ہندووں کا سب سے بڑا تہوار ہے ۔آر ایس ایس کی جانب سے
اس موقع پرملک بھرمیں جلسہ جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ناگپور میں سر
سنگھ چالک قوم سے خطاب فرماتے ہیں لیکن اس بار رنگ میں بھنگ ڈالنے کا کام
شری موہن بھاگوت کے منظورِ نظر نتن گڈکری نے کیا جو سفید قمیض ،خاکی نیکر
اور کالی ٹوپی پہن کر جلسہ گاہ میں پہنچ گئے ۔ ان کی موجودگی نے کانگریس کے
خلاف چلنے والی بدعنوانی کی تلوار کو کندکردیا ۔موہن بھاگوت بدعنوانی کے
خلاف گرجے برسے تو ضرورلیکن کسی کا نام نہ لے سکے بعد میں جب اخبار نویسوں
نے نتن سے متعلق سوال کیا تو وہ بولے میں نے عمو می باتیں کہہ دی ہیں تفصیل
کیلئے آپ لوگ سنگھ کے ترجمان منموہن ویدیہ سے رابطہ کریں ۔ کسی نظریاتی
تحریک کے سربراہ کا ایک ایسے سوال سے نظریں چرانا جس پر ساری قوم کی نظریں
لگی ہوئی ہیں نہایت شرمناک بات ہے ۔ یہ سنگھ پریوار کے داخلی کھوکھلے پن کا
زندہ ثبوت ہے ۔منموہن ویدیہ کا جواب بھی نہایت دلچسپ تھا انہوں نے کہا یہ
بی جے پی کا داخلی معاملہ ہےاورنتن گڈکری اس بابت پارٹی کے اندر وضاحت کریں
گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بدعنوانی بھی کسی سیاسی جماعت کا داخلی
معاملہ ہوسکتی ہے ؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس جماعت کا کیا جس کا ظاہر و
باطن بدعنوانی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ نتن گڈکری خودذرائع ابلاغ سے نظریں بچا کر
بھاگنا اس بات کا غماز ہے کہ ہے اب ان میں عوام کے سامنے آنے کی جرأت
نہیں ہے۔ صحافیوں نے جب انہیں پکڑلیاتو وہ بگڑ کر بولے اب بہت ہوچکا میں
اپنے موقف کی وضاحت کر چکا ہوں ۔
نتن گڈ کری پر جب پہلی مرتبہ انجلی دامنیا اور اروند کیجریوال نےالزامات
لگائے گئے تھےتو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ انہوں نے ازخود پریس کانفرنس بلا
کر اپنی صفائی پیش کی تھی اور اپنے آپ کو ہر طرح کی تفتیش کیلئے پیش کیا
تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پوری طرح اپنے رہنما کے پیچھے کھڑی ہوگئی تھی اور
ان لوگوں ں نے اروند کیجریوال کو کانگریس کا ایجنٹ تک قرار دے دیا تھا۔ بی
جے پی نےاس کے بعد ایک منفرد حکمتِ عملی اختیار کی ۔ انہیں پتہ تھا کہ جب
تک میڈیا کو کسی اور کام میں مصروف نہیں کیا جاتااس وقت کوئی صفائی کام
نہیں آئے گی اور نتن کا معاملہ اچھلتا رہے گا اس لئے سابق آئی پی ایس
افسروائی پی سنگھ کو پریس کانفرنس لینے کیلئے میدان میں اتارا گیا جنہوں نے
کانگریس کے بجائے اسکی حلیف جماعت این سی پی کے شرد پوار پر الزامات کی
بھرمار کردی ۔میڈیا کو اس میں الجھاکر نتن کی پردہ پوشی کی گئی ۔
یہ حربہ دیر تک کارگر ثابت نہ ہو سکا ۔ ٹائمز آف انڈیا والے نتن گڈکری کے
خلاف تحقیقات میں مصروف رہے اور ان لوگوں نے لرزہ خیز انکشافات کئے ۔نتن
گڈکری کوآئی آر بی نامی کمپنی نے بلاضمانت ۱۶۴ کروڈ کا قرض دیا ۔ اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ عوام کا سیاستدانوں پر اعتبار نہ بھی ہوتوسرمایہ داروں کا
زبردست اعتماد انہیں حاصل ہے اور یہ اعتماد اقتدار سے محرومی کے بعد بھی
باقی رہتا ہے ۔اس لئے کہ اگر کوئی سیاستداں بارسوخ ہو تووہ سرمایہ داروں کے
وارے نیارے کرتا رہتا ہے ۔ یہی باہمی اشتراک و تعاون بدعنوانی کی اصل بنیاد
ہے ۔بی جے پی یہ کہہ رہی ہے کہ آئی آر بی نے نتن گڈ کری کو اس زمانے میں
قرض دیا جبکہ وہ وزیر نہیں تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب وہ عوامی
تعمیراتی شعبہ (پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ)کے وزیر تھے اس وقت انہوں نے آئی آر
بی کو مختلف ٹھیکہ دلوائے تھے ۔ اب جو رقم اس نجی کمپنی نے نتن گڈکری کو
قرض کے طور پر دی تھی وہ قرض تھی یا رشوت اس کا پتہ لگانا ضروری ہے اس لئے
کہ قرض دیتے وقت آر بی آئی کی کل میراث بہت قلیل تھی ۔ اس کمپنی کے مالک
کا بیان ہے کہ میں نے یہ رقم اپنے ذاتی خزانے سے دی ۔ آئی آر بی کمپنی کا
مالک دتاتریہ مھسکر کوئی پشتینی ساہوکار نہیں ہے بلکہ وہ ایک معمولی سیول
انجنیرتھا ۔اس نے نتن گڈکری کے آشیرواد سے اپناتجارتی ادارہ شروع کیا
تھا۔اس کی ذاتی تجوری میں اس قدر خطیر رقم کہاں سے آئی یہ سوال بحث کا
موضوع بن گیا ہے ۔تفتیش اس زاویہ سے بھی ہورہی ہے کہ آیا وہ روپیہ مھسکر
کا تھا یا خود نتن گڈکری کا کالا دھن تھا جس پر قرض کا لیبل چسپاں کردیا
گیا۔
موہن بھاگوت نے اپنی دسہرہ کی تقریر میں کہا کہ میڈیا صرف منفی باتوں پر
توجہ دیتا ہے جبکہ ایک غلط کے مقابلہ دس صحیح کام ہوتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ
جب تک بی جے پی کے علاوہ دیگر جماعتوں خاص طور پر کانگریس کے پول کھولتا
رہا سنگھ پریوار کو اس کی اس کمزوری کا احساس نہیں ہوا بلکہ وہ اس سے فائدہ
اٹھاتا رہا لیکن جب توپ کا رخ بی جے پی کی جانب ہوا تو سر سنگھ چالک خواب
سے بیدار ہوئے۔ رابرٹ وڈرا کانگریسی صدر سونیا گاندھی کے داماد ضرور ہیں
مگران کا سیاست اور جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے باوجوداس کے خلاف
لگائے جانے والے الزامات پر بی جے پی والے بلیوں کی مانند اچھل رہے تھے
جبکہ اپنے صدر کی حمایت میں کہہ رہے ہیں کہ کسی شخص کو صفائی کا موقع دئیے
بغیر موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ وطنِ عزیز میں مسلمانوں کو محض
الزام کی بنیاد پر نہ صرف دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے اور جیل کی سلاخوں
کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا اس وقت کوئی نہیں کہتا کہ محض الزامات کی بنیاد پر
کسی کو مجرم قرار دینا غلط ہے ۔
موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ دولت کہاں سے آئی یہ دیکھنے
کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ اس کا استعمال کن کاموں میں ہوا
ہے ۔یعنی اگر کوئی رشوت کی دولت سےعوامی فلاح و بہبود کے کام کرے تواس کی
بدعنوانی کوایک خوشنما چادر سے ڈھانپ دیا جائے گا ۔ نتن گڈکری نے غالباً
اسی خیال کے تحت ذرائع ابلاغ کے سامنے فخر یہ کہا تھا انہوں نے کسانوں
کواپنی آمدنی بڑھانے کیلئے اناج کے بجائے گنا پیدا کرنے کی تلقین کی
۔انہیں کم قیمت پر اچھے بیج فراہم کئے ۔ زمین چھن جانے کے باوجودکسانوں
کااپنی زمین پر زراعت کرنے کی اجازت دی ۔ صنعتوں کو قائم کرکے روزگار کے
مواقع پیدا کئے نیز خوشحالی میں اضافہ کیا لیکن ان حسین دعووں کے پسِ پردہ
جو گل کھلائے گئے اسےٹائمز نے طشت ازبام کر دیا ۔
نتن گڈکری کی کمپنی کے ڈائرکٹر س میں ان کے ڈرائیور پنسے اور سریش اٹرام،
بیکری ملازم راجیش خانزودے،سبزی فروش وشال کیداری،پیون سدھاکر مڈکے اور
جیوتش وشنو شرما کا نام کس بات کی نشاندہی کرتا ہے ؟ کیا کوئی شخص کروڈوں
کی کمپنی کا حصہ دار ہو اور پھر بھی ڈرائیور رکھنے کے بجائے خود دوسرے کی
گاڑی چلانے پر قانع ہو یہ ممکن ہے ؟اگر نہیں ہوتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا وہ اصلی حصہ دار ہے یا بس ان کا فرضی نام لکھ دیا گیا ہے اور اصلی
مالک کوئی اور ہے؟ نیز اصلی مالک نے ان لوگوں کا نام کیوں استعمال کیا ؟
اگر اس نے یہ سب اپنی کالی دولت کو چھپانے یا ٹیکس بچانے کیلئے کیا تو کیا
یہ معاشی بدعنوانی کی بدترین شکل نہیں ہے ؟ اگرچہ کوئی عام سرمایہ دار اس
جرم کا مرتکب ہو تو اسے جیل جاناہوگایہ اور بات ہے کہ وہ جیل میں بھی عیش
کرے گا لیکن اگروہ کوئی بڑا سیاستداں ہو تو اسے جیل جانے کی بھی زحمت نہیں
کرنی پڑے گی بلکہ اس کےارد گرد تحقیق و تفتیش کا ایک ایسا مایا جال بُنا
جائیگا جو بالآخر اسے بدعنوانی کے سارے الزامات سے بچا لے گا ۔
نتن گڈکری یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے کہ انہوں نے عام لوگوں کواپنے ادارے
کا ڈائرکٹر بنا کر خوشحال بنا کر ان پر احسان کیا اس لئے کہ انہیں پتہ تک
نہیں کہ کاغذ پر ان کی حیثیت کیا ہے ؟ وہ تو بیچارے وہی ہیں جو حقیقت میں
ہیں ۔ مسئلہ صرف اس حد تک نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کے فرضی نام لکھ کر ان کے
نام پر اپنی ناجائز دولت کو چھپایا گیا بلکہ ان لوگوں کے نام پر ملکیت بھی
خریدی گئی ۔ انہیں فرضی قرض دیا گیا۔ پونے شہر کاایک سبزی فروش جس کی
ماہانہ آمدنی دس ہزار روپئے ہے ممبئی میں ۶۰ لاکھ روپئے کا مکان خرید لیتا
ہے اور اس کیلئے قرض دینے کا کام نتن گڈکری اور ان کے پارٹنر اجئے سنشیتی
کرتے ہیں ۔ قرض بغیر کسی ضمانت کے دے دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ شرط
لگا دی جاتی ہے کہ قرض نہ ادا کرنے کی صورت میں مکان قرضدار کے حوالے کر
دیا جائیگا ۔ اب ظاہر ہے یہ قرض ادا نہیں ہوگا اور مکان بہر صورت سرمایہ
کار کا ہو جائیگا ۔ سدھاکر مڈکے اور سریش اٹرام کو اس کارستانی کا پتہ اس
وقت چلاجب آدرش گھوٹالا کی تفتیش میں انہیں طلب کیا گیا ۔
آدرش گھوٹالے کو لے کر بی جے پی نے اس قدر ہنگامہ کیا تھا کہ کانگریس کو
اپنے وزیر اعلیٰ اشوک چوہان کو بے آبرو کر کے رخصت کرنا پڑا ۔ بی جے پی
والے اس معاملے میں مرکزی وزیر ولاس راؤ دیشمکھ کو بھی پریشان کرتے رہے
لیکن کانگریس نے کبھی پلٹ کر یہ نہیں کہا کہ آدرش سوسائٹی میں بی جے پی
صدر اور ان کے رکن پارلیمان کے بے نامی فلیٹ بھی ہیں ۔ کیا بی جے پی والوں
کا فوجیوں کی خاطر تعمیر کی جانے والی عمارت کے مکان خریدنا ۔ کانگریس کواس
مسئلہ پر گھیرنا اور اس کے باوجودکانگریس کے ذریعہ بی جے پی کی بدعنوانی کی
پردہ پوشی کرنا اس حقیقت کا غماز نہیں ہے کہ بدعنوانی کے معاملے میں
کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک دوسرے کے شریکِ کار ہیں ۔ جب یہ مجبور ہوتے
ہیں تو سیاسی مفادات حاصل کرنے کی غرض ایک دوسرے پر تنقید کرتے ضرور ہیں
لیکن بالآخر اند ر ہی اندر ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں ۔
ہندوتواوادی جب مصیبت میں گھِر جاتے ہیں تو انہیں گاندھی جی کی یاد آتی ہے
۔تقسیم ہند کے بعد جب یہ لوگ غم و اندوہ کے سمندر میں ڈوب گئے تو انہیں
گاندھی جی کی بہت یاد آئی اور انہوں نے گاندھی جی کا قتل کرکے اپنا کلیجہ
ٹھنڈا کیا ۔ بھارتیہ جن سنگھ کو پہلی بار جنتا پارٹی کے زمانے میں اقتدار
نصیب ہوا اور اس کےبعد دوہری رکنیت کے مسئلہ پر وہ چھن گیا تب بھی وہ بہت
غمگین ہوئے اور بھارتیہ جنتا پارٹی قائم کی اس وقت بھی گاندھیائی سوشلزم کا
نعرہ بلند کر کے گاندھی جی کو خراجِ عقیدے پیش کیا گیا اور اب جبکہ بتن
گڈکری بدعنوانی میں گھر گئے تو گاندھی جی کےقاتلوں کی زبان پر پھر ایک بار
گاندھی کا نام آیا ۔
موہن بھاگوت نے اپنی حالیہ تقریر میں گاندھی جی کا نام لے کر اپنے رضاکاروں
کو چونکا دیا۔ گاندھی جی نے ۱۹۲۲میں اپنے جریدے ینگ انڈیا کے اندر سات
گناہوں گناہوں کی نشاندہی کرکے ان سے اجتناب لازم قرار دیا تھا ۔ اس میں سب
سے اول نمبر پر اقدار سے خالی سیاست کو رکھا گیا تھا ۔فی الحال ساری بڑی
سیاسی جماعتیں بشمول گاندھی جی کی کانگریس اور ان کی ازلی مخالف بی جے پی
اقدار سے پوری طرح محروم ہو چکی ہیں ۔ نہ کوئی اصول ہے اور نہ کوئی نظریہ
سیاست کی بنیاد صرف اور صرف موقع پرستی اور ابن الوقتی ہے۔ اس کے بعد بغیر
مشقت کی دولت کا ذکرہے۔رشوت کے ذریعہ حاصل کی جانے دولت کیلئےا س سے اچھا
کوئی اورنام نہیں ہوسکتا۔ اس دلدل منموہن سنگھ سے لے کر نتن گڈکری تک سارے
رہنما ملوث ہیں ۔
ان کے علاوہ بے عمل علم ۔بے اصول تجارت ۔انسانیت سے عاری سائنس ۔قربانی کے
بغیر عبادت اوربلا شعور کا ذکر بھی سر سنگھ چالک نے اپنی تقریر میں کیا ۔
یہ تمام گناہ فی الحال ہماری قومی سیاست میں کارِ ثواب بن گئے ہیں ۔موہن
بھاگوت نے بدعنوانی کے خاتمہ کی خاطرکردار سازی کوناگزیر قرار دیا ۔ ان کی
اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کردار
سازی ہوگی کیسے؟کیا نتن گڈکری جیسے بدکردار اور بدعنوان سیاستداں کی حمایت
کرنے سے اعلیٰ اقدار و کردار کا فروغ ہوگا یا خاتمہ ہوگا ؟ اس آسان سے
سوال کا جواب ہر کوئی جانتا ہے ۔ اس کیلئے کسی موہن بھاگوت کا پروچن سننے
کی ضرورت نہیں ۔نتن گڈکری نے پھر ایک بار یہ ثابت کردیا ہے کہ بی جے پی کا
شیش محل بدعنوانی کی سنگ باری سے ریزہ ریزہ ہوچکا ہے اور اب موہن بھاگوت کی
مسیحائی اس کے کسی کام نہیں آسکتی ۔ اس لئے کہ بقول فیض ؎
موتی ہو کہ شیشہ جام کہ در
جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا
تم ناحق شیشے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
یہ ساغر شیشے لعل و گہر
سالم ہو تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط
چبھتے ہیں لہو رلواتے ہیں |