قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جب
پاکستان ہم سب کیلئے حاصل کیا تو اس وقت وہ اور ان کے رفقاءصرف پاکستان کی
بہتری اور بھلائی کیلئے ایک سوچ لیکر چلا کرتے تھے کہ کیسے پاکستان ترقی
کرے‘ پاکستان کی بھلائی کس کام میں مضمر ہے ‘ پاکستان کے لوگوں کی بہتری کس
کام کے کرنے میں ہے ‘ اور پاکستان کا نام کیسے دنیا بھر میں بلند ہو ‘ اور
پاکستان کو ترقی کی سیڑھیاں کیسے طے کرایا جائے جس سے اسلامی جمہوریہ
پاکستان صحیح معنوں میں پروان چڑھ سکے۔جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ ”خود کو بدل
دو قسمت خود بخود بدل جائے گی“ ۔اور ویسے بھی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ
ملک کے تمام عوام کو ایک قوم کے طور پر ہمیں دیکھنا اور رکھنا چاہتے تھے ۔
غلامی کی زنجیروں سے آزادی تو انہوں نے اپنے انتھک جد و جہد کے بعد دلوا دی
مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب آج تک انہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے
ہوئے ہیں۔
پیارے وطن میں ہر طرف بدعنوانی ، کرپشن اور گھوٹالوں کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔
ذرائع ابلاغ خواہ الیکٹرانک میڈیا ہوں یا پرنٹ میڈیا ان کی بریکنگ نیوز اور
شہ سرخیوں کا موضوع کم و بیش کسی بڑے سیاستداں، ان کے عزیز و اقارب یا کسی
بڑے افسر یا کسی بڑے فوجی جرنیلوں کے ذریعہ انجام دیے گئے کرپشن کا پردہ
فاش یا انکشاف سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کرپشن کے گڑ بڑ میں صرف سیاسی
کھلاڑیوں کے ہاتھ میلے نہیں بلکہ افسر شاہی اور بہت سے دیگر بھی اس حمام
میں ننگے ہیں۔ کوئی براہِ راست ملوث ہے تو کوئی بالواسطہ طور پر۔ مگر یہ
حقیقت ہے کہ سبھی اس سمندر میں غوطہ زَن ہیں۔ ان تمام کرپشن کی خبروں میں
ظاہر ہے کہ صداقت موجود ہے جبھی تو سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ
بھی صادر کیا ہے۔ ان میں ہضم کی گئی رقومات پر نظر ڈالا جائے تو نہ صرف سر
شرم سے جھک جاتا ہے بلکہ دل و دماغ میں شدید غصہ بھی ابھرتا ہے مگر ہمارے
کرتا دھرتاﺅں کو کب ہوش کے ناخن نکلیں گے ، کب ان کا ذہن اس طرف رجوع ہوگا
یہ سب کچھ وقت اور انتظار پر منجمد ہے دیکھئے کب تک اس پر کھلے دل کے ساتھ
عمل کیا جاتا ہے....
پاکستان کی سیاسی برادری میں بدعنوانی ایک ایسی بیماری کے طور پر سامنے آ
رہی ہے جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ روزانہ میڈیا اور اخبارات کے ذریعے ہر
پارٹی میں بدعنوان لوگوں کی خبریں زبان زدِ عام ہے ۔ اب بات بہت آگے بڑھ
گئی ہے ،حال یہ ہے کہ سو سو کروڑ کے لگ بھگ گھوٹالے ہو رہے ہیں ۔ مگرکسی
گنتی میں شمار نہیں ہو رہا ہے۔ بدعنوانوں کو سیاسی زندگی کا ساتھی مانا
جانے لگا ہے اور سماج میں عزت دی جا رہی ہے۔ یہ گھوٹالے انسانیت کو
جھنجھوڑتے نہیں ۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھانے
والوں پر بھی بدعنوان ہونے کے الزام لگ رہے ہیں اسی لئے بدعنوانی فروغ پا
رہا ہے۔ ایسے میں ظاہر کہ ہماری بنیادوں کو اس قسم کے لوگوں نے متزلزل اور
لڑکھڑا دیا ہے ۔ اور یہی لعنت کی وجہ سے ملک کے حالات بہت اچھے نہیں نظر آ
رہے ہیں۔ حالات کو صحیح راہ پر لانے کے لیے ہمیں ایک ملک اور ایک قوم کے
طور پر بدعنوانی کے خلاف صف بند ہونا پڑے گا۔ اور یہ کام فوراً کرنا پڑے
گا، کیونکہ اگر ان حالات کو ٹھیک کرنے کیلئے کسی اور قائد اعظم کا انتظار
کرنے کا منصوبہ بنایا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ ہمیں اپنے وقار اور شناخت کی
حفاظت خود کرنے کے لیے فوری طور پر سوچنا ہوگا ۔بدعنوانی کی جتنی کہانیاں
اب تک میدیا اور اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہیں وہ کسی کو بھی شرمندہ کرنے
کیلئے کافی ہیں، اور پھر سپریم کورٹ کا اصغر خان کا فیصلہ بھی آگیا تو دودھ
کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔
سوال ہی تھے کچھ ایسے جواب کیا دیتے
نوازشات کا اُن کی حساب کیا دیتے
سبھی رہبران ایک دوسرے سے تو سوال کر رہے ہیں ، لیکن خود سے کیے گئے سوال
کا جواب نہیں دیتے یا اگر دیتے ہیں تو گھما پھرا کر ، ” مجھ پر غلط الزام
لگائے جا رہے ہیں“ یا ” بعد میں جواب دونگا“ یا پھر یہ” پچھلی حکومت کا
تحفہ ہے“بھائیوں اگر پچھلی حکومت کا تحفہ بھی ہے تو جو حکومت کام رہی ہے وہ
اس پر کڑوا گھونٹ پیئے اور بدعنوانی اور کرپشن کا زہر صاف کرنے کے لیے
اقدامات کرے ، آخر کسی نہ کسی کو تو یہ اسٹیپ اٹھانا ہی پڑے گا نا تو پھر
انتظار کس بات کا ہے....ورنہ تو ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ بھی اعلیٰ عدلیہ ہی
کرے گی۔
ملکی سیاست کا عجیب منظر ہے ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کے گریباں پر ہے اور لبوں
پر ہیں بُرے بھلے الفاظ۔ ہر لیڈر اپنے نیفے میں اپنے مخالف کے خلاف الزامات
کا تیکھا خنجر لیے گھوم رہا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں۔ سینے پر
ایمانداری کا تمغہ سجائے ہر شخص دوسرے کو حد درجہ کا بے ایمان اور کرپٹ
ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے مگر مہنگائی اور بے روزگاری سے مردہ جان ہونے
والے عوام کی فکر کسی کو نہیں۔آج ہمارے ملک میں بدعنوانی اور کرپشن ایک
ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ناسور کو
غیر طبی طریقے سے برسرِ عام پھوڑ دیا جائے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس
کے باقاعدہ علاج کی جائے اور اسے جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
ابھی حال ہی نچلے سطح کے اداروں میں پلاٹوں کی بے راہ روی کا کیس بھی سامنے
آچکا ہے کہ موصوف اپنے مختصر سے دور میں ہی لاتعدادسرکاری پلاٹ اپنے عزیزوں
، دوستوں اور اقربا کو الاٹ کر دیا مگر ان کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدامات
نہیں کئے گئے۔سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ بھی جاری و ساری ہے اور بے کس و
غریب عوام کیلئے کوئی نوکری نہیں ملتی۔ ٹھیک ہے کہ سب کو سرکاری نوکری نہیں
مل سکتی مگر لوگ پرائیویٹ نوکریاں بھی کہاں کریں ۔ حالات کی وجہ سے صنعتیں
بھی بند ہو رہی ہیں تو نوکری کہاں ملے گی۔اور جو صنعتیں اور فیکٹریاں کام
کر رہی ہیں ان میں بھی ڈاﺅن سائزنگ کا عمل جاری ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ بجائے
نوکریاں ملنے کے لوگ نوکریوں سے نکالے جا رہے ہیں۔
بلاشبہ آج پاکستان جمہوریت نشان جن دو تین انتہائی اہم مسائل سے دو چار ہے،
ان میں سے ایک سرِفہرست مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی کا بھی ہے، لیکن فرقہ
پرستی، اقلیتوں پرمظالم، بے روزگاری اور عدم مساوات، دہشت گردی، علاقے و
زبان کے نام پر تفریق و تعصب بھی کرپشن سے کم اہم مسائل نہیں ہیں، مندرجہ
بالا مسائل و ایشوز پر بھی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں جب جب انتخابات قریب آتے ہیں خواہ وہ اسمبلی کے ہوں یا نچلی
سطح کے ہوں الزامات، جوابی الزامات، کردار کشی اور فرضی کہانیاں گڑھنے کا
دور شروع ہو جاتا ہے۔ اور آج کل تو سیاست میں وہی لوگ وارد ہو رہے ہیں
جنہوں نے اس کھیل کو کامیابی کا زینہ بنایا ہوا ہے اور وہ اس کے سہارے اپنے
اور اپنے خاندان کو بلندیوں پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ بحر حال ہمیں اس سے کیا
کہ کون لوگ سیاست میں آ رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ بھی سیاست
میں وارد ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں انہیں خدا تعالیٰ عقل، دانش مندی عطا
فرمائے تاکہ وہ حکومت میں آکر اوپر ذکر کئے گئے تمام امور پرایک ایسی واضح،
قطعی، اور ہمہ گیر پالیسی وضع کرکے اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں۔ اور
پاکستان بلکہ ہمارے پیارے اور خوبصورت پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر
سکیں۔اب تو حال یہ ہے کہ کوئی بھی کسی معاملے میں قدم اٹھانے کو تیار ہی
نہیں ہوتا کہ حالات سدھر سکیں۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے:
گونگی ہو گئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلمان کہتے کہتے
یہ بات نہیں کہ مجھ کو اس پر یقین نہیں ہے
بس ڈر گیا خود کو صاحبِ ایمان کہتے کہتے
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ قدرت نے آپ کو ہر
نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لا محدود وسائل موجود ہیں ۔ آپ کی ریاست کی
بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اس کی
تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیئے
اور بڑھتے ہی جایئے۔ (پاکستان کی پہلی سالگرہ پر پیغام۔ 14 اگست 1948ئ)
کیا ہم ان کے اس حکم نامے پر عمل کر رہے ہیں۔ شاید نہیں ہم تو ایک دوسرے کو
مار رہے ہیں، کرپشن ، بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو مارنے کے عمل سے
بھی ہم نہیں چُوک رہے ہیں۔لگتا ہے کہ ہم ایسی سر زمین کے باسی ہیں جہاں آئے
دن کی اموات سے ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ہے۔ ہاں جو عناصر ہمارے ملک
میں اموات بانٹ رہے ہیں وہ کسی شرم و خوف یا جزا اور سزا کی فکر سے آزاد
ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 25 جنوری 1948ءکراچی بار ایسوسی ایشنسے خطاب
کرتے ہوئے ایک اورسبق آموز تقریر فرمائی جو کچھ یوں تھی:: اسلام اور اس کی
بلند نظری نے جمہوریت سکھائی ہے ۔ اسلام نے مساوات سکھائی ہے۔ ہر شخص سے
انصاف اور رواداری کا حکم دیا ہے۔ کسی بھی شخص کے پاس کیا جواز ہے کہ وہ
عوام الناس کے لئے انصاف، رواداری اور دیانتداری کے اعلیٰ معیار پر مبنی
جمہوریت، مساوات اور آزادی سے کھبرائے۔(یہ تقریر سمجھنے اور سمجھانے کیلئے
بہت ہے اب اگر کوئی سمجھنا نہ چاہے تو ؟؟؟)
جہاں تک بدعنوانی اور کرپشن کے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں تو آج کل بس
سوالات اور الزامات در الزامات کا مقابلہ ہی ہو رہا ہے اورہر لیڈرگول مٹول
جواب دیکر اپنا دامن بچا جاتا ہے۔ جبھی تو سوال اٹھتا ہے کہ: ”انداز یہ نیا
ہے سوال و جواب کا“
میں تو اس موقعے پر اللہ سے دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اے ہمارے رب! ہم سے کوئی
بھول ہوگئی ہو یا کوئی خطا ہوئی تو ہماری پکڑ نہ کر۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ
بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا ۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ
نہ ڈال جس کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو اور ہم سے در گُزر فرما اور ہمیں
بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ (آمین) |