لالٹین والی سرکار کی خود ساختہ"اتفاق رائے " اور لوٹا

خدا کی زمین پر اپنے اختیار کا دعوی کرنے والی " لالٹین والی سرکار" نے کالا باغ ڈیم کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی اتفاق کیلئے اس معاملے کو اچھالنے کی ضرورت نہیںاور اگر ایسا کیا گیا تو لالٹین کی روشنی میںلالٹین والی سرکار احتجاج بھی کریگی-صوبے سے تعلق کی بناء پر ہم کالا باغ ڈیم کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے لیکن سیلاب کی تباہ کاریاں ہم نے نوشہرہ میں دیکھی ہیں اس لئے ہماری بھی لالٹین والی سرکار سے اتفاق ہے کہ اس ایشو کو نہ ہی چھیڑا جائے تو بہتر ہے کیونکہ تین صوبے اس کو مسترد کر چکے ہیں اس لئے اس منصوبے کے بجائے ایسے منصوبے شروع کئے جائیں جس پر نہ صرف قومی اتفاق رائے ہو بلکہ عوام کو بھی سہولت ہو تاکہ وہ "لالٹین کی روشنی "سے نکل کر بجلی کی سہولت سے مستفید ہوں-انتخابی فضاء بننے کے بعد" لالٹین والی سرکار"کو صوبے کے عوام کو اگلے پانچ سال کیلئے دوبارہ بے وقوف بنانے کا خیال آہی گیا اس لئے سرگرمیاں بھی شروع کردی گئی اور اب عوام سے کہا جارہا ہے کہ ہم کھلے میدان میں سرگرمیاں کررہے ہیں حالانکہ نوشہرہ میں ہونیوالی "کھلے میدان" کی سیاسی سرگرمی سے اندازہ ہوگیا کہ امن کا نعرہ بلند کرنے والے عوام سے کتنی دوری پر رہنا چاہتے ہیں اس کا اندازہ ڈاگ اسماعیل خیل میں ہونیوالے جلسے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جس میں صرف پشاور سے تین سو کے قریب پولیس اہلکار سیکورٹی کیلئے تعینات کردئیے گئے جبکہ مردان اور نوشہرہ سے لائے جانیوالی پولیس سپیشل برانچ کے اہلکار اور چار لگائے گئے واک تھرو گیٹ اس کے علاوہ ہیں -عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی پولیس سپیشل برانچ اور بیورو کریٹس کا اس جلسے میں حال یہ تھا کہ ووٹ دینے والے غریبوں کو "کتوں"سے بدتر نظر سے دیکھ رہے تھے- کسی کو یقین نہیں آتا تو جا کر جلوزئی ڈاگ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں سے اس دن کی کارروائی کا پوچھ لیں جنہیں اپنے ہی علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دے جارہی تھی کیونکہ امن کے دعویداروں کو سیکورٹی خدشات تھے اور انہوں نے سکینر خاردار تاریں اور جنگلے سمیت عام لوگوں کو اپنے گھروں سے بھی دور گاڑیاں رکھنے پر مجبور کردیا اور بیمار بھی اسی دن خوار ہوتے رہے -فائدہ ایک شخصیت کا تھا جو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جارہا تھا-

عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والی " لالٹین والی سرکار"کو صوبے کے عوام کا اتنا احساس ہے کہ صبح سویرے سے انہوں نے پبی سٹیشن جلوزئی اور مختلف علاقوں میںغریبوں کی دکانیں بند کردی جو دوپہر چار بجے تک بند ہی رہی پبی سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک صحافی کے بقول اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ لالٹین والی سرکار کو غریبوں کا کتنا خیال ہے اس دن مزدوری غریب مزدوری نہ کرے یہ لالٹین والی سرکار کو قبول ہے ان غریب مزدور دکانداروں کے گھروں میں چولہا نہ جلے یہ بھی لالٹین والی سرکار کو قبول ہے کیونکہ یہ بے وقوف لوگ تو ویسے بھی روکھی سوکھی کھا کر زندہ رہتے ہیں اور پھر بھی زندہ باد مردہ باد کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن دھماکہ بازار میں نہ ہو جس کا نشانہ یہ غریب غرباء لوگ بن جائیں کیونکہ آنیوالا دور تو ویسے بھی انتخابات کا ہے اس لئے "ووٹوں"تک انہیں زندہ رکھنا ہے بعد میں پھر دیکھا جائے گا-شائد میں کچھ زیادہ ہی تلخ ہوگیاہوں چونکہ خود بھی " ٹٹ پونجیا"ہوں اس لئے یہ باتیں کچھ زیادہ ہی لگتی ہیں -قومی اتفاق رائے کا تلقین کرنے والی "لالٹین کی روشنی دینے والی سرکار" کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن دوسروں کو اتفاق رائے کا سبق دینے والے" پشتو "میں اپنا الگ قومی ترانہ بجاتے ہوئے قومی اتفاق رائے کو بھول جاتے ہیں -جب اسلامی عوامی اور ساتھ میں جمہوری پاکستان کا اپنا قومی ترانہ ہے تو پھر "الگ سے دکان"سجانے کی ضرورت ہی کیا ہے اور تو اور یہ میں نے پہلی مرتبہ دیکھ لیا کہ ہمارے لوگ نئی قومی ترانہ کیساتھ ڈانس کرتے ہیں یہ باقاعدہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ ڈاگ اسماعیل خیل میں ہونیوالی لالٹین والی سرکار کے جلسے میں کچھ من چلے"نت نئی " قومی ترانے کیساتھ بجائے جانیوالے ڈھول پر اپنے رہنمائوں کے سامنے ڈانس کرتے رہے بعد میں کچھ بڑوں نے اشارہ کیا جس کی وجہ سے منچلے آرام سے بیٹھ گئے ورنہ ڈھول کی تھاپ اور وہاں پر بجائے جانیوالے کچھ گانے سن کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہاں پر لوگ "ڈانس کے شوقین " تھے انہیں " لالٹین والی سرکار"سے کوئی غرض نہیں تھا جس کی طرف ایک مقامی شخص نے بھی دوران پروگرام اشارہ بھی کیا تھا ایک بھاری بھر کم شخصیت نے تو جوش میں آکر سو سو روپے کی نوٹ ڈانس کرنے والوں پر نچھائور کردئیے اور ڈانس کرنے والے اپنا ڈانس بھول کر سو سو روپے کیلئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 'یہ بھوکی ننگی عوام" لالٹین والی سرکار کے دور میں بھی سو روپے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں-

نوجوانوں کو گانوں میں "چوڑیاں"پہننے کا طعنہ دینے والی "لالٹین والی سرکار"کیلئے اطلاع عرض ہے کہ کہ یہاں کے نوجوانوں نے چوڑیاں نہیں پہنی جس کا اندازہ گذشتہ پانچ سالوں سے صوبے میںدہشت گردی اورخراب حالات کے باوجودمیدان میں ڈٹے رہنا ہے لالٹین والی سرکار بھی ڈٹی ہوئی ہے لیکن"ہیلی کاپٹراور آٹھ سے دس گاڑیوں کی کانوائے" میں پھرنے والے لوگوں کو گدھا گاڑی اور زمین پر پھرنے والوں کی حالات کا اندازہ ہی نہیں -سڑکیں اور سکول تو بن رہے ہیں لیکن اگر عوام بھوکے ہوں انہیں روزگار کے مواقع نہیں مل رہے ہو تو پھر یہ لوگ کیسے سڑکوں پر نکلیں گے اور کیسے اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیجیں گے اس لئے "ہیلی کاپٹر"میں عوام کی خدمت کرنے والی سرکار کو "ہوش کے ناخن"لینے چاہئیے - ویسے ذاتی طور پر مجھے ان ڈیڑھ سو چھوٹے چھوٹے درختوں کا خیال آتا ہے جسے بے رحمی سے کاٹا گیا اور بھی"لالٹین والی سرکار"کے سرکاری جلسے کیلئے ہمارے ہاں تو ویسے بھی درختوں کی کمی ہے اور صرف کسی کو خوش کرنے کیلئے اگر ڈیڑھ سو درخت کاٹے جائیں تو اس کا ماحول پر کتنا برااثر پڑے گا اس کا اندازہ کسی کو نہیں -ماحول کے حوالے سے یاد آیا کہ گذشتہ ایک ہفتے سے بیگم ہدایت کررہی تھی کہ " لوٹے کے پیندے" میں سوراخ ہوگیا ہے اس لئے گھر کیلئے نیا " لوٹا لیکر آجائو " کیونکہ " لوٹے" کے بغیرتو کام نہیں چلتا اور ہمارے لئے " لوٹے "کی اہمیت ویسے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ باتھ روم میں اس کی ضرورت بہت زیادہ پڑتی ہے اور ہم بھی گھریلو ماحول بہتر کرنا چاہتے ہیں اس لئے" لوٹا" زندہ باد میرا مطلب ہے لوٹا لینے کیلئے ہم بازار جارہے ہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498237 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More