’’ محمد حسین مُشاہدؔ رضوی ایک
خوش گفتار اور خوش کردار نوجوان کانام ہے ۔ درس و تدریس کے شعبے سے جڑتے
ہوئے دینی و مذہبی موضوعات پر مضامین لکھنا ان کا شغل ہے ۔ مسلمان طلبہ کے
لیے ایک خوب صورت کتاب ’’چہل حدیث مع گل دستۂ احادیث ‘‘ حال ہی میں نوری
مشن مالیگاؤں سے شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے آسانی سے یاد ہونے والی
چالیس حدیثوں کے ساتھ ڈیڑھ سو سے زائد احادیث کو سجاکر پیش کیا ہے ۔ موصوف
کا یہ کام لائقِ ستایش ہے ۔‘‘
ہفت روزہ ’’انوار‘‘ مالیگاؤں
’’0 سہل پسندی عام انسانوں کی فطرتِ ثانیہ رہی ہے۔ عصرِحاضر میں سائنس نے
وسائلِ حیات اور سامانِ تعیش کا جو انبار لگادیا ہے اس نے سہل پسندی کی اس
فطرت کو کئی معنوں میں ’’خاص انسانوں ‘‘ میں بھی پیوست کردیا ہے۔ سماجی،
تعلیمی ، صحافتی اور زندگی کے بیش تر شعبوں کے ساتھ ساتھ سہل پسندی کی یہ
خُو ’’ادب‘‘ کے متوالوں میں بھی سرایت کرتی جارہی ہے۔
لیکن کچھ جیالے ، جاں باز ، ادب نواز شخصیات اب بھی بحرِ ادب کی متلاطم
لہروں اور زیرِ آب کی دقتوں اور تاریکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی
لگن ، جستجو، رغبت یک سوئی اور محنت سے ادب کے گوہرِ کم یاب بل کہ نایاب سے
ادب نوازوں کو از سرِ نو روشناس کراتے ہیں ۔ یقینا ادب کے ایسے ہی جیالوں
میں عزیزی محمد حسین مُشاہدؔ رضو ی کا شمار کیا جانے چاہیے۔
تعارفاً تحریر ہے کہ موصوف نے اردوادب میں ایم ۔ اے کیا ہے ، اور فرسٹ
اٹیمپٹ میں ہیNETجیسا مشکل تر امتحان کام یاب کرلیا ہے۔ نیز پی ایچ ڈی کا
عزم بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزم کو استحکام و کام یابی سے سرفراز
فرمائے (آمین)
عزیزی محمد حسین مُشاہدؔ رضوی نوری مشن مالیگاؤں کلے سلسلۂ اشاعتِ کتب سے
بھی مربوط رہے اور بیش تر کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترتیب و تزئین میں
موصوف کا زبردست حصہ رہا ہے اور’’ اردو کی دل چسپ اور غیر معروف صنعتیں ‘‘
نامی معرکۃ الاآراء کتاب تالیف کرکے موصوف نے اردودنیا کو نادرونایاب تحفہ
عنایت فرمایا ہے۔‘‘
دعاگو عبدالرشید صدیقی ، مالیگاؤں ، مورخہ 14؍ جون 2005ء
’’0 محبی مُشاہدؔ رضوی نے متروک اردواصناف ِ سخن کی وجاحت و سفارش کا ایک
منظر نامہ مرتب کیا ہے۔ یقیناموصوف نے اردو’’ موہن جوداڑو‘‘ کی کھدائی سے
اردو نظمیہ صنعتوں کے گم شدہ و گم گشتہ جزائر کو واسکوڈی گاما کی طرح تلاش
کرنے کی محققانہ کوشش کی ہے۔
اس عہدِ پُرآشوب کی صبا رفتاری ، انقلاباتِ زمانہ کی تیز رفتاری ، انسانی
اعلا اقدار کی پائمالی ، بلند اخلاقی روایات کی خستہ حالی اور بین الاقوامی
خود غرض و مفاد پرست سیاسیات کی کارفرمائی نے اردو سامع و قاری اور مبصر و
ناقد کو بھی حساس، تیز نظر اور فکر مند بنادیا ہے ۔ اس لیے کم از کم فی
زمانہ اس قسم کی مشقتِ سخن کی پذیرائی کا تو کوئی بھی امکان نہیں ہے۔
مگر اردو کی بالغ نظر شخصیت مولوی عبدالحق نے لکھا ہے کہ ’’ تہذیبی و لسانی
سیاق و سباق کی قیادت کے بغیر کسی بھی زبان کے ادب کی تعینِ قدر ناممکن ہے
۔‘‘ اس لیے مُشاہدؔ رضوی کی یہ تحریر اردو شعری ، تہذیبی و لسانی سفر کی
تشبیب و توقیر ضرور ہے۔ یہ اصنافِ سخن اردو زینہ کی وہ پائیدانیں ہیں جن کے
بغیر اردو نظمیہ کی تاریخ کی ترتیب و تدوین اور تزئین و تحسین نامکمل ہے۔
یہ صنعتیں بنیاد کے ان پوشیدہ پتھروں کی طرح ہیں جن سے زینت وزیبایشِ قصر
تو نہیں ہوئی مگر جن کے بغیر قصر کی تعمیر و تشکیل کا امکان نہیں۔ اب یہ
صنعتیں ان بیش قیمت نادرات کی طرح ہیں جن سے ’’اردو میوزیم‘‘ کا وقار و
احتشام بحال ہے۔ یقینا جناب محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کی یہ کاوش اردو طلبہ
کے لیے اک اور ’’فرہنگِ ادبیات ‘ ‘ سے کم نہیں ۔‘‘
اثرؔ صدیقی،
کائناتِ نجم النسآء ، مالیگاؤں، یکم اگست 2005ء
’’ 0 فی زمانہ اردو زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک اور بے التفاتی اپنے نقطۂ
عروج پر ہے۔ حکومت اور اربابِ سیاست اسے مسلمانوں کی زبان سمجھ کر صرف اور
صرف اس کے استحصال میں لگے ہوئے ہیں لیکن میری نظر میں اس سے بھی برا المیہ
یہ ہے کہ یہ زبان اب خود اپنے ہی شیدائیوں کے درمیان اجنبی بنتی جارہی ہے
سمجھ میں نہیں آتا کہ ماتم اپنوں کا کیا جائے یا غیروں پر۔ لیکن چوں کہ یہ
زبان بڑی سخت جان ہے اور اب بھی اس کے دیوانوں کی ایک بڑی فوج اس کے قدو
گیسو کو سنوارنے اور نکھارنے میں مصروف ہے اس لیے اس کے مستقبل سے مایوسی
سے کہیں زیادہ امید کی کرنیں روشن ہیں ، اس کے عشاق میں ایک محمد حسین
مُشاہدؔ رضوی بھی ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنی تازہ ترین تصنیف میں اردو
کی دل چسپ اور غیر معروف بل کہ تقریباً متروک صنعتوں پر تحقیقی بحث کرکے
ایک اچھا کام انجام دیا ہے جس کی پذیرائی بہ ہر حال ہونی چاہیے۔ ہم باباے
اردومولوی عبدالحق صاحب کے اس نظریہ سے مکمل متفق ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ:
’’ تہذیبی و لسانی سیاق و سباق کی قیادت کے بغیر کسی بھی زبان کے ادب کی
تعینِ قدر ناممکن ہے ۔‘‘ ایسے پُر آشوب حالات میں جب اردو کے مستقبل کا ہی
سوال پیدا ہوگیا ہے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کی بقا کے لیے اس کے لباس کے
تمام آرایشی اور زرنگار حصوں کو صیقل و تر وتازہ رکھا جائے حالات، ضرورت
اور مصلحت کے تحت اسے عریاں نہ کیا جائے جیسا کہ کچھ ماہرین اسے دیوناگری
رسم الخط میں محفوظ رکھنے کی بات کرکے اس کے مدفن کو مزید گہرا کرنے کے لیے
تیشہ بہ دست ہونے کا مشورہ دے چکے ہیں ۔ اردو والوں کو مُشاہدؔ رضوی کا شکر
گزار ہونا چاہیے کہ ان میں اب بھی دیوانگی برقرار ہے … ترے جنوں کا خدا
سلسلہ دراز کرے ۔
محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کی یہ تحقیق بلاشبہ اردو کے اس گنج گراں مایہ کو
باہر نکال لانے کی ایک کام یاب کوشش ہے جو تقریباً نصف صدی سے لوگوں کی
نگاہوںسے معدوم تھا۔ یہ کتاب طلبہ ، اساتذہ اور شعری ذوق رکھنے والوں کے
لیے ایک قیمتی تحفہ ہے ۔‘‘
وصیل خان ، اردو ٹائمز ، ممبئی 2.10.2005
’’0 جناب محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کا شمار شہرِ ادب مالیگاؤں کے جواں سال
متحرک نثر نگار و نعت گو شاعر میں ہوتا ہے موسوف کی اب تک تین کتابیں منظر
عام پر آچکی ہیں ۔ ’تذکرۂ مجیب‘ یہ چوتھی پیش کش ہے ۔ مفتی محمد مجیب
اشرف ، ناگ پور جماعتِ اہل سنت کے ایک جید عالم دین ، فقیہ، ماہر شریعت اور
پیرِ طریقت ہیں ۔ سلسلہ قادریہ کے مشہور ترین مرکز بغداد سے بھی آپ کو
خلافت واجازت حاصل ہے ۔ آپ خلوص و للہیت سے اپنے مشن کی تبلیغ میں ہمہ وقت
مصروف رہتے ہیں ۔ خطیبِ اہل سنت تو ہیں ہی ، مُشاہدؔ رضوی کی مرتبہ ’تذکرۂ
مجیب‘ سے یہ علم ہوا کہ آپ ایک اچھے نثر نگار اور نعت گو شاعر بھی ہیں ۔
آپ کے کئی کتب و رسائل شائع ہوچکے ہیں۔ محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کی تالیف
کردہ ’تذکرۂ مجیب‘ مفتی مجیب اشرف کی مختصر ترین سوانح کا ایک اجمالی منظر
نامہ ہے۔ جس سے آپ کی شخصیت ،تعلیم و تربیت ، اخلاق و عادات وغیرہ سے
آگاہی ہوجاتی ہے۔ نیز آپ کے اقوال اور خطبات سے جو اقتباسات پیش کیے گئے
ہیں و ہ اہمیت کے حامل ہیں ۔سرورق ، کمپوزنگ، کاغذ اور طباعت دل کش اور
عمدہ ہے۔ اتنی خوب صورت کتاب کی اشاعت پر مؤلف محمد حسین مُشاہد ؔرضوی اور
ناشر سنی جمعیۃ العلماء مالیگاؤں دونوں شکریے کے مستحق ہیں ۔‘‘
ڈیلی ’’شامنامہ‘‘ مالیگاؤں 27؍ اکتوبر 2010بروز جمعرات
’’0 پیارے بھائی محمدحسین مُشاہدؔ رضوی صاحب ، خوش رہیے۔آپ کی کتاب ’’عملی
قواعدِ اردو ‘‘ ملی ، خط بھی ملا ، شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آپ نے صحافت میں
میرے مضمون کو پسند کیا یہ سن کر خوشی ہوئی۔ ’’عملی قواعدِ اردو ‘‘ بہت
عمدہ کتاب ہے، اسے مدرسوں اور اردو اسکولوں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔
کتاب پڑھ کر میرے علم میں بھی اضافہ ہوا جس کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
(پروفیسر ڈاکٹر شکیل الرحمان )بابا سائیں
ہریانہ18/02/2011
’’0 عربی محاورہ ہے کہ زبان و بیان میں تازگی ، چمک دمک اور صحت کے لیے
گرامر و قواعد کی ضرورت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کھانے میں نمک کا لازمہ…
پکوان کتنا ہی لذیذ اور قیمتی بنا دیا جائے لیکن اگر اس میں نمک نہ ڈالا
جائے تو وہ بالکل بے رغبت و بے مزہ ہوجاتا ہے۔ محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
پیشۂ تدریس سے وابستہ ہیں اور اکثر ان کے مضامین اسی موضوع کا احاطہ کرتے
ہیں اس سے قبل ان کی کئی کتابیں اور ایک تحقیقی کتاب اردو کی دل چسپ اور
غیر معروف صنعتیں نام سے بھی آچکی ہے۔ زبان کی لذت و شیرینی قائم رہے اس
تناظر میں آپ کا مختصر لیکن نہایت کارآمد و مفید کتابچہ ’’عملی قواعدِ
اردوٗ‘‘ اہلِ علم اور خصوصاً طلبہ کے لیے نہایت مفید ہے جس میں تمام
اصطلاحات کو نہایت مختصر مگر جامع طور پر ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے
۔‘‘
وصیل خان ، اردو ٹائمز ، ممبئی،۳۰؍ جنوری ۲۰۱۱ء اتوار
’’0 یہ اردو ادب کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے کہ نقادانِ عصر مذہبی و
اسلامی کتابوں کو ادب کے زمرے میں شامل ہی نہیں کیا۔ لغویات، جھوٹ ، فریب
اور جنسیات کو فروغ دینے والی کتابوں پر یہ’’ ادب زادے‘‘ بڑے شوق سے اردو
ادب کی کسی صنف کا لیبل چسپاں کردیتے ہیں مگر جن کتابوں سے قوم و ملت کی
تعمیر و تطہیر اور تذکیر و تزکیہ ہوتا ہے، جو کتابیں اصلاحِ معاشرہ میں اہم
رول ادا کرتی ہیں اور جنہیں پڑھ کر انسان حقیقی معنوں میں انسان بنتا ہے
انہیں یہ لوگ درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے ۔ اس میں مسلکی و مشربی خانہ جنگیوں
کو دخل نہیں ہے تقریباً ہر مکتبِ فکر کے علما کی کتابوں کے ساتھ یہی سوتیلا
سلوک کیا گیا ہے اور بالخصوص امام احمد رضا قادری بریلوی کی کتابوں کے ساتھ
یار لوگوں نے تو کچھ زیادہ ہی سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ ان کے بعض
معاصر علما کے لیے یک گونہ رعایت رکھی ہے۔ اگر قارئین پر بار نہ ہوتو میں
کہہ دوں کہ اس میں قصور ان کا نہیں ہمارا ہی ہے ۔ کیوں ، کیسے اور کس طرح
کے تفصیلی جواب کے لیے یہ کالم متحمل نہیں ہے اس لیے اس سے صَرفِ نظر کیا
جاتاہے۔ اس ضمن میں ضرورت ہے کہ سنجیدہ اسلوب میں علما کی کاوشوں کو منظرِ
عام پر لایا جائے اور ادب کے چودھریوں کو اس طرف متوجہ کرایا جائے۔اس پش
منظر میں ’’نثرِ رضا کے ادبی جواہر پارے‘‘ ایک سنجیدہ کوشش کے زمرے میں
رکھی جاسکتی ہے۔48صفحات کی اس کتاب میں مصنف محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
مالیگانوی نے امام احمدرضا کی کتابوں سے چیدہ چیدہ اقتباسات خوانِ قرطاس پر
سجادیے ہیں اور ادیبانِ عصر کو دعوتِ نقد دی ہے۔ امام احمدرضا قدس سرہٗ نے
چوں کہ متنوع موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے اور تقریباً ہر موضوع کو مالا
مال کیا ہے اس لیے مؤلف نے ضروری سمجھا کہ باغِ رضا سے ہر طرح کے پھول چن
لیے جائیں تاکہ امام احمدرضا کے اسلوب و اظہار کا ایک مکمل نقشہ سامنے
آجائے۔ محمد حسین مُشاہد رضوی اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی ہیں ۔مُشاہدؔ
رضوی نے نسبتاً بہتر کام کیا ہے امام احمدرضا کے ذہن سے قریب ہونے کے لیے
یہ کتاب بھی اپنی جگہ اہم شمار کی جاسکتی ہے۔‘‘
صادق رضا مصباحی ، ممبئی ماہ نامہ سنی دعوتِ اسلامی ، ممبئی، مئی 2011ئ، ص
43
’’0 کتابچوں کی اہمیت و افادیت سے انکار قطعی ممکن نہیں ہے یہ بڑی لحیم
شحیم اور متوسط کتابوں کی بہ نسبت قاری کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کرتے ہیں
اور ایک وسیع حلقے تک آسانی سے پہنچ جاتے ہیں مگر شرط یہ کہ موضوع میں
عصری حِس موجود ہو اور ابلاغ و اظہار کی سنجیدگی قاری کو اپنے تار سے
باندھے رکھے۔ محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کا مرتب کردہ ’’ سرکارِ دوعالم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوش طبعی ‘‘ ایسا ہی ایک مختصر ترین رسالہ ہے۔
قاری ایک بہت مختصر عرصے میں اس کتاب کو پڑھ کر نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ایک رُخ(خوش طبعی) سے مستفیض و مستنیر ہوسکتا
ہے۔ کسی کے ساتھ ہنسی مذاق اور خوش طبعی کا مطاہرہ کیسے کیا جائے اس کے
عملی نمونے یہاں دیکھے جاسکتے ہیں ۔‘‘
صادق رضا مصباحی ، ممبئی ماہ نامہ سنی دعوتِ اسلامی ، ممبئی، مئی 2011ئ، ص
43
’’0 زیرِ تذکرہ کتاب محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کی ایک ایسی تحقیقی کتاب ہے جس
میں انھوں نے بڑی کد و کاوش سے امام احمدرضا کی تصنیفات کا گہرا مطالعہ
کرکے اس میں موجود ادبی رنگ کشید کیے ہیں ۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد امام اۃل
سنت کی تحریروں میں ادبی چاشنی اور حسنِ کلام کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے
کتاب میں اعلا حضرت کے تعلق سے اہل دانش و بینش کے آرا و خیالات بھی جمع
کعدیے گئے ہیں جن میں مولانا شاہد رضا نعیمی اشرفی، داکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر
امجد رضا امجد، ڈاکٹر صابر سنبھلی اور پروفیسر فاروق احمد صدیقی وغیرہم کے
اعترافات اہمیت رکھتے ہیں ۔ کتاب کو جگہ جگہ اقتباسات سے مزین کیا گیا ہے ،
مجموعی طور پر یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک اچھی تحقیق کا درجہ
رکھتی ہے ۔ اس ضمن میں مزید پیش قدمی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‘‘
وصیل خان ، اردو ٹائمز ، ممبئی،۱۹؍ جون ۲۰۱۱ء اتوار |