پاکستان کوبنانے کے لیے ایک
نظریہ کو بنیاد بنایا گیا تھا۔جس کے تحت ملک میں اسلامی روایات کو فروغ دیا
جائے گا۔جہاں مسلمان آزادی سے اپنے دینی فرائض سرانجام دے سکیں۔جہاں سب
انسانوں کو برابری کی حیثیت حاصل ہوگی۔جہاں رسالت محمدی کے وضع کردہ نظام
پر عمل کرتے ہوئے عزت اورآبرو کے ساتھ زندگی کو آزادی کے ساتھ گزارنے کا ہر
ایک کو برابر حق دیا جائے گا۔انگریز کے دور میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی
ذیادتیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کا ایک
نظریہ پیش کیا گیا۔جس کے حصول کے لیے اور پاکستان کی تشکیل کے لیے ہر کسی
نے اپنے تن ،من اور دھن کی بازی لگا دی۔اور اسلام کے نام پر بننے والی اس
مملکت کی بنیاد رکھی ۔مگر جب اس ملک کا قیام عمل میں آگیا تو پھر کیاہوااس
عوام کے ساتھ؟ شائد ےہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔جو بھی حکومت آئی۔چاہے
وہ سیاستدانوں کی ہو ےا پھر آمریت کا قبضہ ہو۔کسی نے بھی عوام کے لیے کچھ
نہیں کیا۔پہلی ترمیم سے آج بیسویں تک جو بھی ترمیم کی گئی کسی میں بھی عوام
سے متعلق اول تو کوئی بھی شق نہ ڈالی گئی اور اگر ایسا کر بھی دیا گیا۔تو
اس پر کبھی بھی عمل نہ ہوسکا۔آئین سے باقاعدہ طور پر انحراف کیا جاتا رہا
ہے اور کیا جا رہا ہے۔مگر کوئی بھی بولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔آرٹیکل
19Âہمیں حق دیتا ہے۔کہ ہم عوام سے متعلقہ تمام تر معلومات تک رسائی حاصل
کریں۔تو آج ہم سوال کرتے ہیں۔کہ ہمارے ٹیکسوں کے پیسے اکٹھے کر کے،ہمارا
خون چوس کر ،ہماری محنت کی کمائی کو ہمارے ہاتھوں سے چھین کر جس پلانٹ پر
لگایا گیا جس سے بجلی پیدا کرنے کا ایک جھوٹا وعدہ کیا گیا۔کہاں گئی وہ
بجلی؟کہاں گیا وہ پلانٹ؟کہاں گئے اس کے ذمہ داران؟اس پر کتنا پیسہ خرچ
ہوا؟اس کا کون حساب دے گا؟بد قسمتی ہے اس ملک کے رہنے والوں کی یہاں جو بھی
کوئی کسی نہ کسی کیس میں مجرم ثابت ہو جائے اقتدار کے ایوان اس کے قدموں کی
دھول بن کر اس کی راہوں میں آنکھیں بچھا کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔جمشید
دستی صاحب نے جب اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک جھوٹی دستا ویز پیش
کرکے ۔الیکشن کمیشن کو دھوکہ دے کر اس ملک کے عوام کا پیسہ الیکشن پر ضائع
کرادیا۔تو بجائے اس کے کہ ان سے ان کے پہلے انتخابات پر ہونے والا خرچ
جرمانے کے طور پر وصول کیا جاتا ان کے لیے بڑے بڑے لوگوں نے جلسے کیے۔ترمیم
کر دی۔کہ عوام کی نمائندگی کرنے والے کا پڑھا لکھا ہونا یا صادق اور امین
ہونا ضروری نہیں۔اس کی ایک اور بڑی روشن مثال رحمان ملک صاحب کی صورت میں
موجود ہے۔جس عدلیہ کو آزاد کرانے اور کامیاب کرانے کا سہرا پی پی پی اپنے
سر لیتی ہے۔آج جب اس عدلیہ نے اس کے اراکین صادق اور امین جیسی خوبیاں سے
محروم کردیے تو بھی اس ملک کے بڑے عہدے پر ان کو فائض کرکے انہوں نے اس بات
کو ثابت کر دیا کہ عدلیہ کا ساتھ دینا اس وقت کی سیاسی ضرورت تھی اس کے
پیچھے کوئی اور جذبات منسلک نہ تھے۔ملک میں جو کوئی جتنا بڑا گنہگار ہوتا
ہے۔معذرت کے ساتھ اس کو اتنے ہی انعامات دے دیے جاتے ہیں۔پاکستان کے کسی
بھی شعبے کو دیکھ لیں۔پی پی پی کے کارنامے کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔اب عربوں
روپے کھاکرڈکار تک نہ مار کر وہ سمندری جہاز بجلی نہ بھی دے کر جا رہا
ہے۔مگر وہ ایسے بھی نہیں جا رہا کئی بڑے بڑے لوگوں کے بڑے بڑے ثبوت اپنے
ساتھ لیکر جا رہا ہے۔حج کے پیسے کون کھا گیااور کون پکڑا گیا؟عوام اب
عقلمند ہے سب جان جاتی ہے۔ہمارے خون پسینے کی کمائی پر چلنے والی حکومت کی
عیاشیاں اور ان کے اخراجات دن بدن بڑھ رہے ہیں ۔نہ تو وہ عوام کو تحفظ دے
پائے ہیں۔نہ ہی ان کو تعلیم صحت اور کوئی بھی ایسی سہولت فراہم کی ہے جو
حکومت کے فرایض میں شمار ہوتی ہے۔ملک میں روز درجنوں لوگ مر جاتے ہیں۔حکومت
کا سوائے مذمتی بیان کے کوئی رد عمل نہیں ملتا۔حکومت کا تصور کاربڑ کی
مہرتک ہی رہ گیا ہے۔بھٹو مرحوم نے ایک مر تبہ اضیاءالحق جو کہ اس وقت کے
آمر تصور کیے جاتے تھے ان کے دور میں ایسے الفاط استعمال کیے
"اے میرے قائد تونے کیا ایسا پاکستان سوچا تھا؟ کیا تو نے ایسے ہی پاکستان
کا تصور کیا تھا؟اے میرے قائد آج میں احتجاج کرنے آیا ہوںمزدوروں کسانوں
اور طالب علموں کی جانب سے۔کیا پاکستان کی خاطر اسی لیے جدوجہد کی گئی
تھی۔اے میرے قائد اس ملک پر ظلم ہو رہا ہے۔ہم آپ کے مزر پر تقریر نہیں
کرسکتے ہماری زبانیں بند کر دی گئی ہیں۔بول اے میرےے قائد! یہ ظلم کا سورج
کب غروب ہوگا؟میرے قائد ےہ کیسا انصاف ہے کہ نوکر شاہی اور افسر شاہی نے
پورے پاکستان پر اپنا کالا سایہ ڈال رکھا ہے"
آج جب ملک کے موجودہ حالات دیکھے جائیں تو حیرت انگیز طور پر ایسا محسوس
ہوتاہے۔جیسے بھٹو مرحوم آج کے دن کو پاکستان کی حالت دیکھ کر ایسا فرما
گئے۔ےا پھر اگر ایسا نہیں تو کیا پی پی پی کی آج کی حکومت جسے وہ جمہوری
حکومت اور عوامی ترجمان حکومت قرار دیتے ہیں کیا وہ ضیاالحق کی آمریت کے
مترادف تھی۔؟اگر ایسا نہیں ہے تو اور یہ واقعی جمہوری حکومت ہے تو پھر کیا
ہم اس بات کی توقع کریںجن صاحب کو اس رینٹل پاور کا ذمہ دار قرار دیا جا
رہے ۔کیا وہ اس ملک کے لوٹے ہوئے پیسے کا جواب دےں گے؟خواہ وہ کسی بھی عہدے
پر فائض ہوں؟کیا قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کر کے کوئی حکومتی رکن اپنے
عہدے سے مستعفیٰ ہوگا؟عوام کے پیسے سے تنخواہ لینے والے اور بیرون ملک سے
وفادری کا حلف لینے والے کیا اس ملک کی عوام سے معافی مانگیں گے؟غلط لوگوں
کو اہم فرائض سونپنے والوں کے مقدر میں کبھی قید و بند لکھی جائے گی؟ٹی وی
پر بیٹھ کر غلط الفاظ اور زبان استعمال کرنے والے کبھی اپنے الفاظ واپس لیں
گے؟فوج کے سہارے سامنے آنے والے لوگ فوج پر الزام ثابت کر پائیں گے؟اگر کر
بھی لیا تو ان کو ان کے کیفر کردار تک لے جائیں گے؟جعلی ڈگری اگر ایک
نوجوان ملک میں چپڑاسی بھرتی ہونے کے لیے دے تو اسے جیل کی ہوا کھانا پڑتی
ہے مگر جب کوئی حکومتی رکن ایسا کرے تو اس کی محض رکنیت معطل ہوتی ہے ۔اگر
پی پی پی بھٹو صاحب کو لیڈر مانتی ہے۔تو حالات کا تقاضہ ےہی ہے کہ اس ملک
سے مزید کوئی جھوٹ نہ بولا جائے اور حکومت ختم کرکے عوام سے معافی مانگی
جائے ان تمام حالا ت پر جو آ ج اس ملک میں ایک جمہوری حکومت کے چار سال سے
ذیادہ عرصہ گزارنے پر پید اہوئے۔ |