راز سے فاش تک

حقائق کو کتنا ہی توڑ موڑ اور خلط ملط کرکے کیوں نہ پیش کیا جائے وہ خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے سچائی کو اپنے سینے میں سموئے مد ہوش رہتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی ترشی نشہ اتارتی ہے تو یہ سچ کی انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی سرزمین میں بہت سے راز مد فون ہیں جنہیں راز رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ حقائق چھپائے جاتے ہیں‘ جھوٹ بولا جاتا ہے لیکن رازوں کی نفسیات سے آگہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ راز ٬ راز اسی لیے بنتے ہیں کہ انہیں منکشف ہونا ہوتا ہے ۔ کوئی راز ٬ راز نہیں رہتا۔ راز اگلے ضرور جاتے ہیں ۔ زمین بھی اپنے سارے راز اگل دے گی اور رازداں منہ چھپاتے پھریں گے لیکن اترے ہوئے نقاب پیشانیوں پرچمکتی کالک کو واضح کردیں گے۔ ہم راز چھپانے میں مہارت رکھتے ہیں لیاقت علی خان کا قتل‘ ضیاءالحق کے طیارے کا حادثہ‘ سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب و محرکات کارگل کا محاذ ٬ مرتضیٰ بھٹو٬بے نظیر بھٹو اور مصحف علی میر کا قتل و استہلاک ان کی مرقدوں کی لوح پر ” راز“ کے الفاظ کے ساتھ کندہ ہے لیکن یہ راز بھی بالآخر بے نقاب ہوں گے ۔ سابق سیکرٹری داخلہ روائیداد خان نے عمر کے آخری حصے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کو امریکہ نے راستے سے ہٹایا جس میں جنرل(ر) اسلم بیگ بھی ملوث تھے ۔ مسز رابن رافیل نے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے امریکہ میں جنرل اسلم بیگ کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی نے آئی جے آئی اس لیے بنوائی کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت سیکیورٹی رسک بن کر نیو کلیئر ٹیکنالوجی کی بساط لپیٹنے پر آمادہ تھی چنانچہ ان کی حکومت سے چھٹکارے کے لیے حمید گل کی سربراہی میں آئی جے آئی متحرک ہوئی۔ ضیاءالحق کے دور میں ایٹمی پروگرام کی تکمیل پر امریکہ چونک گیا تھا اور اسے یقین تھا کہ اگر جنرل ضیاءزندہ رہے تو انہیں کابل میں کردار نہیں دیں گے لہذا انہوں نے جنرل ضیاءالحق کو راستے سے ہٹانے کا پروگرام بنایا جس میں جنرل مرزا اسلم بیگ کا بھی حصہ تھا۔ جنرل مشرف کو امریکہ کی بہت زیادہ خدمت کے باوجود اس لیے ہٹایا گیا کہ امریکہ ان کے خلاف عوامی نفرت کی شدت سے خوفزدہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ نواز شریف سے اسٹیبلشمنٹ خوفزدہ ہے پاکستان کی عدلیہ کمزور نہیں ۔ فوج عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرائے گی لیکن جرنیلوں کے ٹرائل کا وقت ابھی نہیں آیا۔ نگران حکومت ضرور بنے گی لیکن یہ تین ماہ نہیں زیادہ عرصے کے لیے ہو گی جو احتساب نہیں کرے گی۔ ریٹائرڈ جنرل حمید گل نے بھی روئیداد کے انکشاف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیو کلیئر پروگرام کو سمیٹنا اس سارے عمل کا بنیادی نکتہ تھا آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے انہوں نے سپریم کورٹ کی فعالیت واستحکام کے ضمن میں روئیداد خان کے سے خیالات کا ہی اظہار کیا ہے۔ان کا یہ کہنا درست ہے کہ قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ کون کتنا بڑا مجرم اور غدار ہے؟ انہوں نے آئی جے آئی بنانے کے جرم میں اپنے ٹرائل کی پیشکش بھی کی ۔جنرل(ر) حمید گل کے مطابق جنرل ضیاءالحق کے طیارے کو امریکہ نے ٹارگٹ کیا کیونکہ وہ فوجی قیادت کو بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا وہ آئی جے آئی بنانے اور دیگر معاملات کو ایکسپوز کرنے کے لیے تیار ہیں آج بھی وہی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد پاکستان کی سلامتی پر اثر انداز ہونا اور بعض قوتوں کے تابع فرمان بنانا ہے جب افغانستان پر روس کا قبضہ ہوا امریکہ پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو ٹارگٹ کررہا تھا۔ اب بھی اسے رول بیک کرنے کے مشورے ہو رہے ہیں مذکورہ دونوں اہم ترین شخصیات کے انکشافات میں ضیاءالحق کے طیارے کا حادثہ‘ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے‘ عدلیہ کے استحکام اور کردار کے امور مشترک ہیں گویا یہاں نہ رہزنوں کا اعتبار ہے نہ راہبروں کا ۔ رہبرو رہزن ایک ہی رفتار پر رواں دواں ہیں اس کے باوجود بھی سب پارسا ہیں کوئی قصور وار نہیں۔ کوئی مجرم نہیں سب کے پاس اپنے اپنے جواز موجود ہیں ۔ مجرموں کے پاس اپنے بے گناہ ہونے کا جواز ہے اور منصفوں کے پاس سزا نہ دینے کا۔اس حمام میں سبھی ننگے ہیں لیکن ایک دوسرے کی برہنگی چھپانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے حب الوطنی کا کوئی معیار ہے نہ غداری کی کوئی انتہا۔ سب اپنی اپنی ڈگر پر رواں دواں ہیں‘ الزامات و در الزامات ہیں لیکن حقائق ظاہر نہیں ہوتے۔ کوئی سزا نہیں پاتا کیونکہ سزا دینے اور ممکنہ طور پر سزا کے حقدار دونوں ہی کے دامن آلودہ ہیں پاکیء داماں کی حکایت کوئی نہیں سنا سکتا۔ جن کے سینے پر میڈل سجے ہیں ان کے ہاتھ بھی صاف نہیں اور جو جمہوریت کے علمبردار ہیں انہوں نے بھی جمہورےت کی آڑ میں بہت سے گل کھلائے ہیں۔ ملکی تاریخ انتہائی تلخ حقیقتوں سے پر ہے ۔ بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے‘ بھونچال آئے‘ حادثات ہوئے‘ ملک کی تقدیر کادھارا موڑنے کی سعی کی گئی۔ عمل اور رد عمل میں بلند بانگ دعوے کیے گئے کبھی گورنر راج ٬ کبھی جمہوریت٬ کبھی آمریت و سول آمریت اور کبھی مارشل لا لیکن ان سے کوئی سبق نہ سیکھا گیا۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک ہی سرکاری ٹی وی تھا جس پر سب اچھا کاراگ الاپا جاتا ،عوام کو اتنا ہی بتایا جاتا جتنا بتایا جانا ضروری تھا حقائق جاننے والوں کی آنکھوں پر پٹی اور کانوں میں سیسہ ڈال دیا جاتا اب اگرچہ بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے پھر بھی مجبوریوں اور مصلحتوں کی بنا پر عوام کو لا علم رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عدلیہ نے مینڈیٹ چرانے اور پیسے لینے والوں کے نام تو بتا دئیے لیکن سزا دینے کے لیے گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی جو سزا یافتگان کی سزا معاف کرنے میں بھی تاخیر نہیں کرتی کجا یہ کہ وہ قصور واروں کو سزا دے۔ جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ پر مرضی کے نتائج لینے کے لیے پیسے تقسیم کرنے ہی کا الزام ہی نہیں اپنے ہی آرمی چیف کے قتل میں معاونت کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے ۔ اگر اس میں صداقت کا کوئی پہلو موجود ہے تو یہ انتہائی سنگین ہے مگر ہمیں کسی بھی سنگینی سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔ اعجاز الحق نے بھی اسلم بیگ کے ملوث ہونے کی بابت اب زباں کھولی ہے سوال یہ ہے کہ ان رازوں کو سینے میں چھپائے رکھنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا بھی اب یہ کہنا ہے کہ پیسے جمع کرنے سے متعلق اسلم بیگ سے ہدایات ملیں پیسوں کی تقسیم سے متعلق بھی انہی سے رابطہ کیا تحقیقات کرنے والوں کو فہرست فراہم کردوں گا۔ سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کے نزدیک اصغر خان کیس کے عدالتی فیصلے میں ابہام واسقام ہیں‘ عدالت کو جنرل اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دینا چاہیے تھا۔ اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کے حق میں تھا جانے کون سچ بول رہا اور کون جھوٹ؟ لیکن راز اب راز نہیں رہیں گے کارروائی ہوتی ہے یا نہیں راز ضرور فاش ہوں گے کیونکہ رازوں کو فاش ہونا ہی ہوتا ہے۔
Qamar Ghaznavi
About the Author: Qamar Ghaznavi Read More Articles by Qamar Ghaznavi: 9 Articles with 5822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.