علامہ اقبالؒ کی پہچان عام طور
پر صرف مفکر پاکستان کے طور پر ہوتی ہے،جو اقبال ؒ کے لئے ایک اعزاز ضرور
ہے ،کہ دو قومی نظریے کے پیش کرنے والوں میں ان کا نام سرفہرست ہے۔لیکن
اقبالؒ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے،جس نے قرآنی تعلیمات کا بھرپور مطالعہ کر رکا
تھا۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ کی فکر بھی قرآنی تعلیمات کی طرح فلاح
انسانیت پر مبنی عالمی فلاحی معاشرے کا قیام ہی تھا۔ جس کا واضح اظہار حکیم
الامت علامہ اقبالؒ کی اردو اور ذیادہ تر حصہ فارسی شاعری میں ملتا
ہے۔اقبالؒ ایک دور اندیش اور مستقبل شناس شخصیت تھے یہ مستقبل شناسی محض
اپنے تخیل کی حد تک نہیں تھی۔بلکہ یہ دور اندیش و مستقبل شناس تعلیمات
قرآنی اور احادیث و روایات کے عین مطابق تھی ،یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ
کے نظریات و دور اندیش اور مستقبل شناس بالکل صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ حال ہی
میں عرب مشرق وسطی میں عوامی بیداری کے بعد امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام
کے کاروباری مرکز وال سٹریٹ سے شروع ہونے والے عوامی مظاہروں اور احتجاج اب
امریکہ کے شہروں سے نکل کر رفتہ رفتہ دیگر یورپی ممالک میں پھیل کر لاوا کی
شکل اختیار کرکے عوامی سونامی میں تبدیل ہو رہا ہے۔علامہ اقبال ؒ نے اس کی
پیشن گوئی بہت پہلے کی تھی۔جس کے لئے یہ شعر ہی کافی ہے۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو
عرب ممالک میں ظالم و جابر ڈکٹیٹروں کے خلاف جاری بھرپور عوامی تحریک کے
بعد اب یورپ میں پھیلنی والی عوامی بیداری وتحریک، انسانوں پر مطلق العنانی
اور چودھراہٹ کی دعوایدار امریکہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک ممالک کے
لئے شدید ترین خطرے کی گھنٹی ہے۔انسانوں کی فلاح و آبادی کے نام پر انسانوں
کی تباہی کے لئے بنا ئے جانے والے مصنوعی نظام کیمونزم کی تباہی اور روس کے
ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد کیپٹلزم یا سرمایہ دارانہ نظام میں داراڑیں اور
تباہی کے آثار انسانوں اور دنیا کو اپنے معبود حقیقی اور کائنات کے مالک
الللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت اور اتمام حجت کی طرف اشارہ کر رہی
ہیں۔کیونکہ اپنے اپنے مفادات کےحصول کے لئے بنائے جانے والے روس یا امریکہ
کی پشت پناہی سے بننے والےنام نہاد مشرقی و مغربی سپر پاورز کے کیپٹلزم و
کیمونزم کا جنازہ نکلنے کو ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو! الللہ کا وعدہ ہر حال میں
پورا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹلزم کا سارا دارومدار سود پر
ہے،اسلئے سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ممالک اور ان کا ںظام معشیت و بنکنگ
اورانڈ سٹری وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو جاتے
ہیں۔اس ظلم پر مبنی نظام کی وجہ سے مالدار و امیر لوگ امیر سے امیر تر اور
غریب و مفلس انسان غریب سے غریب تر ہو جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے معاشرے میں
فساد اور جرائم کے علاوہ عوام الناس میں بیزاری اور عدم برداشت پر مبنی
تشدد کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس زمانے میں اس سرمایہ
دارانہ ںظام اور سود کی خرابی کا زکر کچھ یوں کیا تھا۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
یا پھر اسی طرح فرماتے ہیں کہ
مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلذات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے مرگ مفاجات
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
عوامی بیداری اور تحریکوں کی بھینٹ چڑھ کر ظالم و جابر حکمران و ڈکٹیٹر
جیسے مصر کا حسنی مبارک(جس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ کا چار سال تک
محاصرہ کر رکھا تھا) عوامی نفرت کا نشانہ بن کر بستر مرگ پر عدالت میں
آجاتاہے اور رفاہ کراسنگ کھول کر مظلوموں کی داد رسی ہو جاتی ہے،یمن کا عبد
اللہ صالح ایک دوسرے ڈکیٹر شاہ عبد اللہ کے ہاں پناہ لیتا ہے،لیبیا کا معمر
قزافی جس نے چالیس سال تک عوام کو بے وقوف بناکر ان کے چار سو بلین ڈالرز
اثاثے (دنیا کے مختلف یورپی بینکوں میں اپنے بیٹوں و وفاداروں کے نام پر
جمع کرکے)لوٹ لئے ،جب کہ بحرین کے ڈکٹیٹر خاندان آل خلیفہ امریکہ اور شاہ
عبد اللہ اور اس کے ہم خیال ٹولے کے کرائے کے فوجیوں کی مدد سے عوامی تحریک
کو دبانے لگتے ہیں یہی حال دیگر مطلق العنان عرب حکمرانوں کا بھی ہے اور
ایسا لگتا ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو کر ہر ایک کی باری آنی والی ہے۔ شاید یہ
مطلق العنان حکمران حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول بھول گئے ہیں کہ۔۔۔
حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں۔۔۔۔۔علامہ اقبالؒ نے عرب
ممالک کے انہیں مطلق العنان ڈکٹیٹروں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ
۔اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ، ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ص
اقبالؒ ہی نےعرب عوام بالخصوص حماس و حزب اللہ جیسی حریت پسند تحریکوں کے
لئے کہا تھا کہ
نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیریؑ
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
یامٹایا قیصر و قصری کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدرؑ ،فقر بوزرؒ صدق سلمانی ؒ
انشاالللہ وہ وقت دور نہیں جب عوام کے ہاتھوں موجودہ امریکی صدر اوبا یا
پھر آنے والے امریکی صدور کے علاوہ یورپ اور سرمایہ دارانہ ںظام سے وابستہ
دیگر ممالک کے حکمرانوں کی گریبانوں میں ہونگے۔۔کیونکر نہ ہوں مظلوم
فلسطینی،کشمیری ،عراقی و افغانی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرمایہ
دارانہ نطام سے وابستہ قابض قوتوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے ظلم و جبر کا
نشانہ بننے والے عوام کی آہیں اور ظالموں کے خلاف صدائیں آخر کار تو عرش
الہی تک پہنچنی تھیں۔اقبال ہی نے تو مظلوم فلسطینی،کشمیری و عرب و افغانی
عوامی تحریکوں کی حمایت کے بارے میں کہا تھا
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب
جس نے روحِ آزدایٔ ِ کشمیر کو پامال کیا
حتی کہ اقبالؒ نے اغیار کے اشاروں پر اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے
ان نام نہاد مجاہدین و مذہبی جنونیوں کا بھی تذکرہ کر رکھا تھا کہ جنہوں نے
عراق افغانستان اور پاکستان میں اپنے کلمہ گو بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلی
ہے۔ملاحظ کیجئے اقبالؒ کا اس حوالے سےدشمن شناسی سے بھرپور پیشن گوئی۔
اﷲ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اسی طرح اقبالؒ نے افغانستان اور اس سے متصل قبائلی علاقوں پر قابضین کے
تسلط کی بھی پیشن گوئی کی تھی اور اپنے فارسی اشعار میں اس کا برملا اظہار
کرکے اس کا حل بھی تجویز کیا تھا۔کہ براعطم ایشیا یا اس خطے میں امن و امان
اس وقت آسکتی ہے،جب افغانستان میں امن ہوگا۔کیونکہ اگر ایشیا یا اس خطے کو
ایک بدن سے تشبیہ دی جائے تو افغانستان اس بدن کا دل ہے۔جب تک دل صحیح نہیں
ہوگا تو پورا بدن خراب ہوگا یعنی ناامنی و دہشت گردی۔
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملتِ افغان در آن پیکر دل است
از فسادِ اُو فسادِ آسیادر
گشادِ اُو گشادِ آسیا
کا ئنات کے خالق و مالک اورمعبود برحق کا قرآن مجید میں یہ واضح فیصلہ کہ
۔۔۔سود اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔۔۔۔ اس کے باوجود دنیا کے عوام
کے آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نطام یا
کیپٹلزم کے سحرو لالچ میں مبتلا کرنے کا انجام تو آخر کار یہی ہونا تھی۔اس
حوالے سے اگر علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے انقلاب اسلامی ایران اور اسلامی
جمہوریت پر مبنی نطام ولایت فقیہہ امام خمینی اور ان کے نائب سید علی خامنہ
ای کے دور اندیشی اور دشمن شناسی کا زکر نہ کیا جائے تو یہ بھی خیانت کے
مترادف ہوگا۔امام خمینی نے جو شعار بلند کیا تھا کہ لا شرقیہ لا
غربیہ۔۔۔اسلامیہ اسلامیہ ۔۔۔۔علامہ اقبالؒ نے اس کی بھی پیشن گوئی کی تھی۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
یعنی نہ ہی کیمونزم چل سکتا ہے اور نہ ہی کیپٹلزم یا سرمایہ دارانہ نطام
بلکہ انسانوں کو اپنے معبود حقیقی کے نظام کی طرف آنا ہوگا۔۔جب کیمونزم اور
روس اپنے عروج کے نشے میں مبتلا ہو کر دنیا پر حکمرانی اور کیپٹلزم کی شکست
کے دعوؤں میں مبتلا تھا اس وقت امام خمینی نے روس کے صدر گورباچوف کو مکتوب
لکھ کر اس بات کا واضح اشارہ دیا تھا کہ بہت جلد کیمونزم کا خاتمہ ہو جائے
گا۔اور پھر امام خمینی کے رحلت کے بعد دنیا نے کیمونزم کی بربادی اور نام
نہاد سپر پاور روس کے ٹکرے ٹکڑے ہونے کا مشاھدہ کیا۔۔اسی طرح امام خمینی کے
نائب سید علی خامنہ ای نے دو سا ل پہلےامریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام ہی کو
امریکہ کی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے روس کی طرح امریکہ کی تباہی و عدم
استحکام کی پیشن گوئی اور اس نظام سے وابستہ ممالک کے لئے بھی خطرہ قرار
دیا تھا،جس کا آغاز شروع ہو رہا ہے۔علامہ اقبال ؒ نے بھی امام خمینیؒ
انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریت پر مبنی نظریہ ولایت فقییہ کی بھرپور
نشاندہی و تائید کرکے اس کا برمالا اظہار کیا تھا۔پہلے مغربی ںظام جمہوریت
کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
پھر اس کا حل اسلامی جمہوریت پر مبنی نظریہ ولایت فقییہ کی بھرپور نشاندہی
و تائید کرکے یوں گویا ہوئے تھے۔
دیکھا تھا افرنگ نے اک خواب جینیوا
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
عرب ممالک کے بعد یورپی ممالک میں پائی جانے تبدیلیوں اور عوامی بیداری کی
لہریں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔کہ دنیا فریب وفتنئہ دجال پر مبنی
انساننوں کی تباہی کے سرمایہ دارانہ نظام کیپٹلزم سے حقیقت و معنوعیت پر
مبنی انسانون کی فلاح و بہبود پر مبنی عالمی نجات دہندہ کے انقلاب اور
فلاحی معاشرے کے قیام کی طرف رواں دواں ہیں۔ عرب ممالک و یورپ میں پھیلنی
والی عوامی بیداری اور انسانوں کی تحریک حریت اس بات کی طرف بھی اشارہ کر
رہی ہیں کہ دنیا کے عوام اب سفیانی(یاد رہے کہ سفیانی کو سفیانی اسلئے کہتے
ہیں کہ وہ اسلام کے اولین دشمنی کرنے والے ابوسفیان کی اولاد سے ہوگا) و
دجال(دجال صیہونیوں اور بعض صیہونیت کے زیر اثر شدت پسند عیسائیوں کا نجات
دہندہ ہے،جب کہ بعض عیسائی حضرت عیسیؑ کو ہی نجات دہندہ تصور کرتے ہیں) کے
باطل فتنوں سے نجات پا کر عالمی نجات دہندہ امام مہدیؑ اور حضرت
عیسیؑ(مسلمانان عالم کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیؑ امام مہدیؑ کی نصرت کے
لئے تشریف لائیں گے اور امام مہدیؑ کی امامت میں بطور مقتدی نماز جماعت میں
بھی حصہ لیں گے) کے ظہور کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔کیونکہ یہ بھی وعدہ الہی ہے
اور الللہ کا وعدہ ہر حال میں پورا ہو کر رہتا ہے۔بقول شاعر
بتا رہی ہیں یہ تبدیلیاں زمانے کی
کسی ولیؑ کا یقیینا ظہور ہونا ہے
حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے دنیا بھر کے انسانوں کے لئے عالمی فلاحی معاشرے
اور عالمی نجات دہندہ کے اس نظریے کے بارے میں کئی دہائیاں پہلے اشارہ کرکے
انسانوں کو اس حوالے سے تیاری کرنے کا سبق اپنے اشعار میں یہی پیشن گوئی
یوں کی تھی عالمی نجات دہندہ امام مہدیؑ کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے دو
اشعار پیش خدمت ہیں۔
کبھی اے حقیقت منتظرؑ نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے ٹرپ رہے ہیں مری جبیں نیاز میں
یا پھر ایک دوسری جگہ یوں امام مہدیؑ کا نام لے کر اشارہ کیا۔
دنیا کو ہے اس مہدیؑ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ، زلزلہ عالم افکار
عرب ممالک کے بعد یورپ میں پھیلنی والی عوامی بیداری و تحریکیں انشا الللہ
حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے ایک اور خواب کی تکمیل یعنی عالمی فلاحی معاشرے
امام مہدیؑ کے انقلاب
(جہاں در انتظار عدالت عدالت در انتظار مہدیؑ)
کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
( شکریہ ختم شد) |