گامے کا گھر گاﺅں سے دور تھا۔نام
تو اس کا غلام رسول تھا لیکن غریبوں کو غلام رسول کون کہتا ہے۔غلامی رسول
بھی شرفاءکا استحقاق ہے اور اگر کوئی غریب صرف نام کی حد تک ہی غلامی کا
دعویٰ کرے تو اس بد بودار اشرافیہ کو یہ بھی قبول نہیں ہوتا تو وہ اسے گامے
میں بدل دیتی ہے۔میں کہہ رہاتھا کہ غلام رسول کا گھر گاﺅں سے دور تھا۔اس نے
پانی کے لئے ایک کنواں کھود رکھا تھا۔غریبوں کے کنویں اکثر بغیر منڈیروں کے
ہوتے ہیں ۔ایک دن کوئی پیاسا کتا کہیں سے پانی کی تلاش میں وہاں آیا اور
شاید پیاس کی شدت سے کنویں میں گر کے مر گیا۔کنواں چونکہ گہرا تھا اس لئے
غلام رسول کو کچھ دن تو خبر ہی نہ ہوئی کہ اند ہی اندر کیاچل رہا ہے لیکن
جب پانی بدبودار ہو گیا تو غلام رسول نے وجہ دریافت کی اور گھرکی عدالت
عظمیٰ یعنی اس کی بیگم نے اپنے مختصر فیصلے میں اسے بتایا کہ کنویں میں کتا
گر گیا ہے۔غلام رسول نے سن رکھا تھا کہ کتا پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک
ہو جاتا ہے۔
وہ فوراََ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں تمام ماجرا کہہ سنایا۔مولوی
صاحب نے اسے بتایا کہ پانی پاک کرنے کے لئے تمہیں کنواں ایک بار خالی کرنا
پڑے گا۔غلام رسول کہ ماننے والا آدمی تھا۔اس کی ساری زندگی مانتے گذری
تھی۔کبھی گاﺅں کے وڈیرے کی ،کبھی ایم پی اے ایم این اے کی،کبھی پولیس کے
انسپکٹر کی ،کبھی عدالت کے جج کی اور کبھی ایف سی کے حوالدار کی۔اسے فوج سے
بڑا ڈر لگتا تھا۔ایوب کا مارشل لا لگنے پہ وہ پہلے دس دن تو گھر سے بھی
نہیں نکلا تھا۔مولوی صاحب کی بھی ماننی پڑتی تھی کہ اللہ اور بندے کے
درمیان مولوی صاحب کا بیرئر جو ایستادہ تھا۔اس نے کنواں رات دن کی مشقت کے
بعد خالی کر دیا۔اس کا خیال تھا کہ ا ب کنواں پاک ہو گیا ہے۔لیکن پانی میں
بو تو جوں کی توں تھی۔وہ اپنا مسئلہ لے کے دوبارہ مولوی صاحب کے پاس گیا کہ
جناب میں نے پانی سارا نکال دیا ہے لیکن کنواں پاک نہیں ہوا۔یہ سنتے ہی
مولوی صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔وہ چلائے، مولوی میں ہوں یا تم؟ جب میں
نے کہہ دیا ہے کہ پانی پاک ہو گیا تو تمہاری مجال کہ تم انکار کرو۔یہ توہینِ
علم اور توہینِ مذہب ہے۔غلام رسول نے معافی مانگی اور جانے کو اٹھ کھڑا
ہوا۔جاتے جاتے اس کے منہ سے نکلا مولوی صاحب! پانی پاک تو ہو گیا ہے لیکن
اس سے بو پھر کیوں نہیں جاتی؟اس کا خیال تھا کہ پاک چیز سے بو کیسے آسکتی
ہے؟مولوی صاحب نے اسے دوبارہ بلایا اور پوچھا کہ کنویں سے کتا بھی نکالا ہے
یا نہیں؟اس نے بے بسی سے نفی میں سر ہلایا تو مولوی صاحب نے اسے جھڑکتے
ہوئے کہا کہ بے وقوف پہلے کنویں سے کتا نکالو، پھر سارا پانی نکالو تب
کنواں صاف ہو گا۔وہ منمنایا کہ" مولوی توں ایہہ گل پہلے تاں نہی سی دسی"
میں اپنے ملک کو سوچتا ہوں تو یہاں بھی مجھے کتا کنویں ہی میں پڑا لگتا ہے
اور ہمیں بھی ہمارے مولویوں نے پچھلے تریسٹھ سال سے پانی نکالنے پہ رکھا
ہوا ہے۔ہم پانی نکالے جا رہے ہیں لیکن بو ہے کہ اس سے اب تو پاس پڑوس والوں
کا بھی ناک پھٹا جا رہا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اس ملک کے گامے اب پانی نکال
نکال کے تنگ آ چکے ۔اب انہیں بتانا ہی پڑے گا کہ جب تک کنویں سے کتا نہیں
نکلتا یہ کنواں کبھی پاک نہ ہو گا۔وہ کتا یہ ہے کہ چور کی پشت پناہی چھوڑ
دی جائے۔چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں ،سیاست میں ہو یا مذہب میں
میں،فوجی بیرک میں ہو یا چیف جسٹس کے گھر میں،اسے تلاش کیا جائے اور پھر
پوری قوت کے ساتھ گھر سے باہر پھینک دیا جائے اور کنویں کے گرد خونی رویت
کی ایسی مضبوط منڈیر بنا دی جائے کہ دوبارہ سے کوئی کتا کنویں کے اندر نہ
گر سکے۔ورنہ آپ جتنا مرض پانی نکال دیں بو سے آپ کا دماغ پھٹتا رہے گا۔
فوج چونکہ طاقتور ادارہ ہے اس لئے اسی سے شروع کرتے ہیں۔اگر کوئی فوجی کسی
غلط کام میں ملوث ہے تو اسے اس کے کئے کی پوری سزا ملنی چاہئیے۔اس اصول سے
کوئی بھی مبرا نہیں ہونا چاہئیے چاہے کوئی سرونگ ہو یا ریٹائرڈ۔میری دانست
میں فوج میں یہ سسٹم پہلے ہی سے رائج ہے۔اسی لئے فوج کے تین ریٹائرڈ جرنیل
دوبارہ ایکٹو سروس میں آکے کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔ارسلان افتخار
کا کیس ہم سب کے سامنے ہے۔چیف جسٹس کو اس کیس کے سامنے آنے پہ میں نے انہی
کالموں میں در خواست کی تھی کہ اپنے اس نالائق اور ناخلف بیٹے کو خود اپنے
ہاتھوں سے جیل بھیجیں ورنہ یہ آپ کی لٹیا ڈبو دے گا۔
حکمرانوں کے اربوں روپے کی کرپشن اور حزبِ اختلاف کا آئی ایس آئی سے پیسے
لینا اور اس طرح کے دوسرے جرائم کے معاملے میں جب تک انصاف اپنی آنکھوں پہ
پٹی باندھ کے اندھا اور بے رحم نہیں ہو گا تب تک کتا کنویں کے اندر ہی رہے
گا۔فوج بیان دیتی رہے گی۔سپریم کورٹ کے فیصلے آتے رہیں گے۔حکومت انہیں جوتے
کی نوک پہ رکھتی رہے گی ۔اپوزیشن حکومت کی سپورٹ کرتی رہے گی کہ سب کا
ایجنڈہ ایک ہے۔جسے قاف لیگ کے مشاہد حسین نے ایک فقرے میں بیان کیا تھا کہ"
لٹو تے پھٹو"لیکن جب حکومت نے پھٹنے سے انکار کیا تو سید زادہ خود بھی
لوٹنے والوں میں شامل ہو گیا۔
عرض صرف یہ ہے کہ اپنوں کو بچانا اور دوسروں کو پھنسانا یہ معاملہ اب شاید
زیادہ دیر نہ چلے۔اب انصاف کرنا پڑے گا احتساب کی اصل روح کے ساتھ جس میں
سب سے پہلا ملزم ارسلان افتخار ہو کہ اس نے نہ صرف چوہدری افتخار کے افتخار
کا خون کیا ہے بلکہ قوم کو بہتری کی طرف لے جاتے نظام ِ انصاف پہ بھی ایک
بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔اس کے بعد زرداری،نواز شریف اسلم بیگ، درانی
اور وہ سارے جن پہ الزامات ہیں۔اسی جھونک میں اگر فیصل رضا عابدی کو بھی سن
کے ٹانگ دیا جائے تو بہتوں کا بھلا ہو گا کہ وہ جھوٹا ہے تو اسے خاک میں
ملانا بنتا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے کتا نکال لیں ۔کتا
جب نکل جائے گا تو کنواں خود بخود پاک ہو جائے گا۔ایک آدمی جو خود اپنے آپ
کو احتساب کے لئے پیش کر سکے اسی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی
کٹہرے میں کھڑا کر سکے۔یک طرفہ انصاف نہیں ہوتا ظلم ہوتا ہے اور ظلم زیادہ
دیر تک چل نہیں سکتا۔ |