حکیم جلیل کریم خان
فاضل الطب و الجراحت
سردی کی آمد آمد ہے۔ بدلتے موسم اﷲ تبارک تعالیٰ کی قدرت کی اہم ترین
نشانیوں میں سے ہوتے ہیں۔
گرمیوں میں لو لگتی ہے خوب پسینہ آتا ہے یہاں تک کہ انسان گرمی کی شدت سے
پریشان ہو جاتا ہے۔ سردیوں میں تن بدن ڈھانپنے اور گرم رکھنے کے لیے سوئٹر،
جرسی،کمبل،شلوار،قمیض،واسکٹ،کوٹ، مفلر وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے اور ان چیزوں
کو امیر آدمی اپنی دولت سے حاصل کر لیتا ہے مگر غریب آدمی کا گزارہ مشکل ہو
جاتا ہے۔ لیکن اﷲ تبارک تعالیٰ نے محنتی کسان اور مزدور طبقہ کے لیے ان کی
صحت کو سردی سے بچانے کے لیے ایسی ایسی غذائیں پیدا فرما رکھی ہیں جو نا
صرف غربت کا مقابلہ کر سکتی ہیں بلکہ سردی سے بھی بچاتی ہیں۔
رات کو سونے کے بعد جاگتے وقت جو مرد و عورت اپنی طبیعت ہلکی پھلکی اور چست،
بدنی اعضا اور جوڑ نرم، دل میں کام کرنے کی بھر پور خواہش، پٹھے ملائم اور
لچکدار اور معدہ میں غذا حاصل کرنے کی طلب محسوس کرے، اسے صحت مند اور
تندرست انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس تندرستی کو حاصل کرنے کے لیے اگر دن رات کو
تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس پر عمل کرنے سے صحت برقرار رہتی ہے۔
مثلا ۸ گھنٹے مکمل نیند لی جائے، دوسرے ۸ گھنٹے دوکان، دفتر یا دنیا کے کام
کاج میں گزارنے چاہئیں۔ تیسرے ۸ گھنٹے میں سیر و تفریح، ورزش، نماز، تلاوت
وغیرہ میں صرف کرنے چاہئیں۔
بدنی سردی ان لوگوں کو زیادہ محسوس ہوتی ہے جن کے جسم پر گوشت کم ہوتا ہے
جب ہم انسانی جسم کے تانے بانے پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بدن
کا بیشتر حصہ گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنا ہوا ہے اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں
دل، دماغ، جگر، گردے،پھیپھڑے،معدہ اور آنتیں جسمانی نظام کو چلاتے ہیں۔
شریانیں،وریدیں،عضلات، رباطات، غدودیں (گلینڈز) مٹی سے بنے ڈھانچے کو میلوں
سفر کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ ہمارے جسم کے یہ کارندے لحمی اجزا (
پروٹین) سے ہی شکل و صورت بناتے ہیں۔ لحمی اجزا ( پروٹین) در اصل
آکسیجن،نائیٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مجموعہ سے زندگی کا آغاز کرتے
ہیں۔
حکیم جالینوس نے صدیوں پہلے باد نسیم ( آکسیجن) کو زندگی بخش عنصر قرار دیا
تھا۔ چاروں ہواؤں کے مجموعہ( آکسیجن،نائیٹروجن،ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی
آکسائیڈ) سے جو لحمی جزو بنتا ہے ہمیں نباتات اور حیوانات کھانے سے ملتا
رہتا ہے۔ نباتاتی غذائیں جن میں گیہوں،لوبیا،چنا اور دالیں وغیرہ غریب آدمی
کو مل سکتی ہیں اور حیوانی لحمیات میں گوشت،مچھلی، انڈہ، دودھ،دہی،مکھن
وغیرہ شامل ہیں، یہ مہنگے داموں ملتے ہیں مگر ان اجزائے لحمیہ میں دودھ کو
مکمل پروٹین تسلیم کیا گیا ہے۔ حیوانی لحمی اجزا کی سب سے زیادہ مقدار
سریش(جیلیٹن) میں ہوتی ہے۔
اﷲ تبارک تعالیٰ کی کرم نوازی سے غریبوں کو سستے داموں پروٹین مہیا کرنے کے
لیے۔۔۔۔
سریش، جس میں ۹۰ فیصدی تک لحمی اجزا موجود ہو تے ہیں
خشک گوشت اور خشک دودھ، ۴۰ فیصدی
انڈا اور میوہ جات، ۱۰ فیصدی تک
دالیں،لوبیا،مٹر وغیرہ، ۲۰ فیصدی تک۔
سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ان غذاؤں کا استعمال انتہائی سستا اور آسان
ہوتا ہے۔
نباتاتی اور حیوانی غذاؤں کو استعمال کرکے سردی اور گرمی کا مقابلہ بہ
آسانی کیا جا سکتا ہے۔
اس حسین و جمیل دنیا میں انسان آتا ہے چلا جاتا ہے، کوئی ہنستا ہے کوئی
روتا ہے، کوئی عمدہ غذائیں استعمال کرتا ہے اور کوئی دال سبزی پر ہی گزر
بسر کرتا نظر آتا ہے۔ آجکل کی شہرہ دنیا دودھ، دہی، مکھن کے نام سے ڈرتے
ہیں اور چائے کی پیالی پر گزارہ کرتے نظر آتے ہیں کئی لوگ آج کے مادہ پرست
دور میں میں دولت حاصل کرنے لیے اپنے آپ کو خوب سرگرم عمل رکھنے کے لیے دن
بھر چائے کو استعمال کرتے ہیں جس سے غذا کی طلب اور غذا کی ضروریات کو پورا
کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔۔۔ نتیجہ صحت برباد ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ
جہان فانی سے رخصت ہو جاتا ہے۔ |