بالآخر عدلیہ بحالی تحریک کئی نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد اپنے منطقی
انجام کی طرف پہنچ گئی۔ اور میں اس بات کا اعتراف کرلوں کہ اس کا انجام
میرے اندازے سے تھوڑا سا مختلف ہوا ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ یا تو چیف جسٹس
بحال ہونگے اور صدر زرداری کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ یا پھر صدر زرداری
اقتدار پر فائز رہیں گے اور عدلیہ بحالی تحریک ناکام ہوجائے گی۔البتہ یہ
بڑی خوش آئند بات ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دو نومبر دو ہزار سات
والی عدلیہ بھی بحال ہوگئیں ہیں اور صدر زرداری بھی موجود ہیں۔یہ بالکل غیر
متوقع صورتحال سامنے آئی ہے۔ بہر حال اس ساری صورتحال میں سب سے بڑا کریڈٹ
وکلاء کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس تحریک کو ترک نہیں کیا۔ حالانکہ ان کی
مالی پوزیشن بھی اس تحریک کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی۔ ان کے خلاف جبر بھی
کیا گیا، کئی فاضل ججز سے ان کی سرکاری رہائش گاہ جبراً واپس لے لی گئی۔
انہوں نے لاٹھیاں بھی کھائیں۔اس کے باوجود وہ ڈٹے رہے اور ان کی وجہ سے ہی
سیاسی پارٹیوں کو ہمت ملی کہ وہ اس مسئلہ پر آواز اٹھائیں۔اس کے بعد اس کا
کریڈٹ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے بھی اس مسئلہ
پر ایک ہی مؤقف رکھا اور بالآخر صدر آصف علی زرداری کو اپنے مؤقف بدلنے پر
مجبور کر دیا۔اس بات پر وکلاء برادری، سول سوسائٹی٬ اس تحریک میں شامل
سیاسی جماعتیں مبارک باد کی مستحق ہیں۔ اور ایک حد تک اس کا کریڈٹ پی پی پی
کے ان تمام رہنماؤں کو جاتا ہے کہ جنہوں نے ایک ایسے وقت میں کہ جب بظاہر
عدلیہ بحالی کا کوئی امکان نہیں تھا اس وقت انہوں نے اصولی مؤقف اختیار کر
کے اپنی ہی حکومت کے آمرانہ اقدامات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے علیحدگی
اختیار کی حالانکہ پاکستان کی سیاست میں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن جن لوگوں
نے یہ کام کیا وہ واقعی مباک باد کے مستحق ہیں سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے
اتوار کے روز لاہور میں جدو جہد کی ایک تاریخ رقم کی اور کم از کم چار
گھنٹے مسلسل شیلنگ برداشت کر کے بالآخر رکاوٹوں کو روندتے ہوئے آگے کی طرف
بڑھتے گئے۔اسلام آباد کو مکمل سیل کرنے کے باوجود جناب قاضی حسین احمد، اور
عمران خان اور شہباز شریف وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ پاکستان کی
تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ نواز شریف، لیاقت بلوچ اور اعتزاز احسن لاہور
میں میدان کارزار میں موجود تھے۔
اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات کا ذکر کردیں کہ ایک صاحب جو اس ویب
پر وکلاء کی تحریک کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔انہوں نے روایتی تعصب کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ججز بحالی کے چند گھنٹوں کے بعد ہی کہہ دیا کہ اب ملک میں
انصاف کا کتنا بول بالا ہوتا ہے یہ ہم بھی دیکھیں گے۔ موصوف سے برداشت نہیں
ہوا تو انہوں نے فوراً ہی اندر کا غبار ظاہر کردیا جبکہ موصوف کے اپنے معزز
لیڈر نے تیس سال پہلے حقوق کی جو بات کی تھی،آج تک اپنی قوم کو کوئی حقوق
نہیں دلائے، کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی بات کی لیکن تمام تر وسائل کے باوجود
کوٹہ سسٹم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی اور کوٹہ سسٹم آج تک برقرار ہے۔
پانچویں قومیت تسلیم کروانےکی بات کی اور ہزاروں نوجوانوں کا خون بہا کر آج
اس نعرہ سے دستبرادر ہوگئے۔ اور یہ انکی بد دیانتی کی انتہا ہے کہ وہ سب کو
جھوٹے الزام لگا کر معطون کرتے ہیں لیکن یہاں ان کی زبان بند ہوجاتی ہے۔
خیر ہم اپنے کالم تعصب کی حقیقت میں یہ بتا چکے ہیں کہ کس طرح تعصب انسان
کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔جب تعصب کی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی نبوت کا ہی انکار کردیا جاتا ہے تو ہم آپ کس گنتی میں
ہیں۔اللہ ہی ان کو ہدایت دے گا
عدلیہ بحالی کے بعد اصل امتحان اب شروع ہوگا کیوں کہ اب ان عدالتوں کے ججز
کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنے فرائض کو اد اکرنا ہوگا۔اور اب قوم کو ان سے
جو توقعات وابستہ ہوگئیں ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہوگا۔ دراصل یہی ان کا
امتحان ہے کیوں کہ جو لوگ اس سسٹم پر قابض ہیں وہ اتنی آسانی سے اپنی شکست
تسلیم نہیں کریں گے۔ اتنی آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ معزز چیف جسٹس
صاحب جناب افتخار محمد چوہدری سے بالخصوص قوم کو بہت توقعات ہیں۔ ہماری دعا
ہے کہ اللہ ان کو اپنے اس امتحان میں سرخرو کرے اور اپنی معزولی سے پہلے جس
طرح وہ ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے جواب طلبی کرتے تھے وہ
ایک بار پھر اسی طرح ظالموں کا ہاتھ پکڑیں، جس طرح پہلے وہ ارباب اختیار پر
انحصار کرنے کے بجائے ازخود کاروائی کرتے ہوئے مظلوموں کی داد رسی
کریں۔اللہ ان کو اپنے اس امتحان میں سرخرو کرے۔اور ان کا حامی و ناصر ہو۔
تمام قوم ( ماسوائے تعصب پرستوں ) کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں |