ساری دنیا کو اس وقت کئی مسائل
کا سامنا ہے جس میں سرِفہرست دہشت گردی کا بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی دھماکہ ہو یا
کسی بناوٹی سازش کا انکشاف سب سے پہلے شک کے دائرے میں پورا شہر ہی آجاتا
ہے اور عام شہریوں کا گھر سے نکلنا مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ کرنے والے غائب
اورتلاشی اور اسنیپ چیکنگ کے بہانے گرفتاریوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں
معصوم شہری!
ہمارے ملک میں بھی اب اسی طرز کے واقعات نے شدت اختیار کر لی ہے۔ اس کی ایک
ہم وجہ تو شاید یہی ہے کہ صوبے کا ایک وزیرِ ڈاخلہ ہوتا ہے مگر ہمارے صوبہ
بھی انہونی ادوار سے گذر رہا ہے کہ جہاں وزیرِ داخلہ نام کی کوئی شئے موجود
ہی نہیں ہے۔ اور یہ عہدہ اضافی ذمہ داری کے طور پر چیف منسٹر صاحب نے اپنے
پاس رکھا ہوا ہے۔ یہ جملہ لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر وزیرِ داخلہ
ہوتا تو وہ اپنی فیلڈ پر مکمل کردار ادا کرتا ، اب چیف منسٹر صاحب کے پاس
پہلے ہی اتنی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے اوپر سے اتنا حساس عہدہ بھی
اپنے ہی پاس رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال مخدوش سے
مخدوش تر ہوتی جا رہی ہے اور اس معاملے پر کوئی سوچنے والا ہی نہیں
ہے۔روزآنہ کی بنیاد پر کراچی کی صورتحال کو بنیاد بنا کرمیڈیا میںٹاک شاک
کے سلسلے کے ذریعے جاری رہتے ہیں مگر بات چیت، ہجت بحث، تکرار کے بعد
پروگرام کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے صفر۔ ٹاک شاک کے
پروگراموں کو بھی کئیEpisodeتک کرنا چاہیئے تاکہ موجودہ دگر گوں صورتحال کے
سلسلے میں کوئی حتمی نتیجہ نکل سکے۔ اور مسئلے کو اس کے منطقی انجام تک
پہنچایا جا سکے اور شہری سکون کا سانس لے سکیں۔
اس تلخ حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کہ بدنظمی، بد اصولی، اور ایمانداری کے
فقدان کے ہم سب مجرم ہیں ہم ایک دوسرے پر ہی انگلیاں اٹھا کر اصلاح کی کوشش
کرتے ہیں جو کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ جو سچ نہیں بولتا وہ دوسروں سے کہے کہ
ہمیشہ سچ بولو اور جو اپنے ذاتی اغراض کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہو وہ حب
الوطنی، انکساری، جانثاری اور ایثار کی تلقین کرے وہ نہ تو اچھا سمجھا جا
سکتا ہے اور نہ اچھا ئیوں کو پیدا کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔آج بہت سے لوگ
بڑے محبِ وطن ، ایماندرا اور عوام دوست بن کر سامنے آ رہے ہیں ، وہ طرح طرح
کے کرتب دکھا کر مقبولیت اور شہرت حاصل کر رہے ہیں ان کے عمل، کرداراور
اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر عمل کا جب وقت آئے گا
تو سب سے پہلے یہی لوگ پیچھے ہٹیں گے ۔ وہ تو بس اپنی شہرت اور مقبولیت کے
خواہاں ہیں تاکہ اس کے سہارے سیاست میں سرگرم ہوں تو انتخابات میں کامیابی
کا سہرا سج جائے۔آج سیاسی جماعتوں کیلئے یہ سوچنا درست نہیں کہ وہ صرف
حکومت کو نشانہ تنقید بنا کر اپنی منزل پا لے گی صرف خام و خیال ہے کیونکہ
ایسے اور بھی بہت سے معاملات طوفان بن کر سیاسی بستیوں کی تاک میں ہیں ۔
ظاہر ہے کہ انتخابات میں جو بھی جماعت کامیابی حاصل کرے گی انہیں بھی اسی
طرح کے مسائل کا سامنا ہوگا اس لئے بہتر ہے کہ عوام کو دھوکہ دینے کے بجائے
ایسے دعوے کیئے جائیں جو وہ پورا کر سکیں۔
کئی لوگ جھوٹ بولتے ہیں کچھ اپنے مفاد کے لئے ، کچھ مصلحت کے تحت اور کئی
محض دوسروں کو پریشان ، اور کچھ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بری آسانی
سے بول لیتے ہیں۔ ویسے بھی ملک کے لیڈران عوام سے نہیں بلکہ میڈیا سے ڈرتے
ہیں۔ویسے بھی بڑے لوگ سیکوریٹی کے حصار میں محفوظ رہتے ہیں اور پھر پِسنے
کو عوام ہی خاطر جمع رکھتے ہیں۔ آج کل امن و امان کی صورتحال اتنی مخدوش ہے
کہ اس کی تفصیل روز افزوں ہی میڈیااور اخبارات میں آپ پڑھتے ہی ہونگے میں
اس صورتحال پر اپنے موقف کے طور پر صرف یہ شعر درج کرنا چاہوں گا جس سے
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
قیدکر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
اب انسان کو ڈسنے کے لئے انسان ہی کافی ہے
ایک اخباری خبر کے مطابق اب تو سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت اور
اداروں کا یہی طرزِ عمل رہا تو کراچی کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بد امنی کیس کی سماعت کے دوران شدید اظہارِ برہمی کا
اظہارکیا۔ اور اسی خبر سے جُڑی ایک اور خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ سپریم کورٹ
نے اپنے حکم میں یہ کہا کہ نقصِ امن پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف سخت
کاروائی کی جائے تاکہ کراچی اور پورے پاکستان میں حالات کو معمول پر لایا
جا سکے۔دوسری جانب صدرِ پاکستان بھی اس تکلیف دہ صورتحال پر برہم نظر آتے
ہیں۔ مگر انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی ٹھوس حکمتِ علمی دیکھنے میں
نہیں آئی ہے۔
ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے کراچی زخموں سے چُور چُور ہونے کے باوجود نارمل طریقے
سے شب و روز گذار رہا ہے۔ مسلسل ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود کراچی کو اس
کشمکش سے نہیں نکالا جا سکا۔ اور ان تمام صورتحال پر عام لوگ بے چارگی کے
عالم میں سوال کرتے نظر آتے ہیں یہ سلسلہ کب رُکے گا۔ اس سے پہلے کہ حالات
مزید خراب صورتحال کو پہنچے اب وقت آگیا ہے کہ صدر، وزیراعظم معاملات کو
اپنے ہاتھ میں لیں، اپنے حلیفوں کو ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرنے کو کہا
جائے ورنہ نظر تو یہی آ رہا ہے کہ کراچی کے شہری اذیت ناک صورتحال سے دو
چار رہیں گے ، کراچی کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جائے۔ اور ویسے بھی
سیاست کے کھلاڑیوں کا کیا ہے ان کے لئے تو ایئر پورٹ پر ہمہ وقت دبئی، لند،
پیرس کی پروازیں تیار کھڑی رہتی ہے جناب!
کراچی ہی کیا بلوچستان بھی امن و امان کی دگر گوں صورتحال سے دوچار ہے اور
وہاں بھی ہر نیا دن نیا طوفان لے کر آتا ہے۔ نہ جانے کتنے گھرانوں کا چراغ
اب تک کل ہو چکا ہے جن کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ شرپسندوں نے شہریوں
کی لاشیں گرا کر کراچی کی دیو مالائی حیثیت کو، اس کے تہذیبی افکار و وقار
کو، اور خاص طور پر اس کی عالمی شہرت کو نہ صرف داغداد کیا ہے بلکہ یہ
پیغام عام کر دیا ہے کہ منی پاکستان میں انسانی اقدار، بھائی چارہ،
رواداری، اور اخوت کے جنازے اٹھتے ہیںاور یہاں موت بٹتی ہے۔ نہ جانیں کتنی
قیمتی جانیں اب تک آغوشِ لحد میں ابدی نیند سو چکی ہیں مگر ان کے اہلِ خانہ
، سوگواران اپنوں کے تجاہلِ عارفانہ اور بے حسی پر گریہ کناں ہیں۔اب تو
عوام یہ چاہتے ہیں کہ ان مسائل کے حل کی چابی چاہے جس کسی کے پاس بھی ہو ،
وہ چابی استعمال کریں اور مسئلے کا حل نکالیں ورنہ صورتحال بھیانک رُخ
اختیار کر سکتا ہے۔ ان حالات کو ارباب لمحہ فکریہ کے طور پر لیں اور اس کا
سدِباب کریں تاکہ کراچی اور ملک بھر میں جاری بدامنی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
(آمین) |