عہدِ نَو کا سب رنگ شاعر…مُشاہدؔ رضوی
(Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
مفتی توفیق احسنؔ مصباحی ،ممبئی
محترم ڈاکٹرمحمد حسین مُشاہدؔ رضوی مالیگانوی نسلِ نو سے تعلق رکھنے والے
تازہ کار شاعر ہیں۔ جن کی تقدیسی شاعری بھی محض کلاسیکی نہیں کہی جاسکتی؛بل
کہ نُدرتِ فکر کے ساتھ اظہارِ خیال اور ترسیلِ معانی کا جو اچھوتا پن ان کے
یہاں دیکھنے کو ملتا ہے وہ مُشاہدؔ رضوی کے شعری امتیاز کو مستحکم کرتا نظر
آتا ہے۔اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ شاعری جدید بھی ہو اور کلاسیکی اصولوں
کی پابندی بھی کرے۔موجودہ دور کا شعری منظر نامہ غزل اور نظم سے بوجھل نظر
آتا ہے ،اس وقت ادبی دنیا میں بڑا شاعر وہ مانا جاتا ہے جو غزل اور صنفِ
نظم میں آزاد یا پابند ہو کر اپنے شعر ی سرمایے میں اضافہ کرتا ہے اور
ملکی و بین الاقوامی سطح پر روٗنما ہونے والے نیرنگِ زمانہ حالات، حادثات و
واقعات اور فلموں و ٹی۔وی سیریلوں میں پیش کی جانے والی عشق و محبت کی
داستانوں کو شعری قالب میں ڈھال کر وقت کا مانا جانا لب و لہجہ اور عمدہ
اظہارِ محبت کا پختہ گو شاعر کہلانا پسند کرتا ہے ۔ اس کی غزلوں اور نظموں
کے مجموعے سال بہ سال شائع ہوتے ہیں اور چنیدہ نقّاد بھی اس کے شعری امتیاز
کی کھل کر داد دیتے ہیں ، اسے ایوارڈز و اعزازات بھی ملتے ہیں، اس کے نام
’’شامِ غزل‘‘ منائی جاتی ہے، سیمینار منعقد ہوتے ہیں اور اس کا شعری و ادبی
خطبہ مقالات کی شکل میں پیش ہوکر کتابی صورت میں’’شخصیت و شاعری‘‘ کے نام
سے شائع ہوکر دوبارہ کسی ناقد کے پاس مقالہ نگاروں کے تنقید ی رویّے پر
تنقید کرنے کے لیے پہونچ جاتے ہیں۔
ممتاز شاعر و ادیب جناب زبیر رضوی نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’موجودہ ادبی منظر نامہ دراصل ان لوگوں کی تگ و دو اور چہل پہل کا منظر
نامہ ہے جو اپنی ادبی حیثیت کوپھلتا پھولتا اور خود کو پھولوں کا ہار اور
گجرا پہنے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ۔‘‘(روزنامہ انقلاب،ممبئی ۲؍اگست ۲۰۰۹ء
اتوار)
محترم زبیر رضوی صاحب کی باتوں میں یقینی طور پر صداقت ہے جسے قطعاً
جھٹلایا اورنظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، آج یقینا ایسا ہورہا ہے اور’’
ادبی دہشت گردی‘‘ پورے عروج پر ہے۔اس سلسلے میں معروف شاعر ونثر نگار سید
شکیل دسنوی نے محترم سعید رحمانی کے ادبی جریدے’’ادبی محاذ کٹک اڑیسہ‘‘
شمارہ اپریل تا جون ۲۰۱۰ء میں ایک اداریہ بہ عنوان ’’ادبی دہشت گردی
‘‘تحریر کیا ہے جو انتہائی چشم کشا اور حقائق کا برملا اور دو ٹوک اعتراف و
اظہار ہے۔
ایک بات اور عرض کردوں کہ زندگی کے قریب تمام شعبوں میں گروہ بندی نے طوفان
برپا کررکھا ہے جس کی وجہ سے ان شعبوں کی تما م تر رونقیں مائل بہ زوال
ہیں۔ادب اور فن بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا؛ترقی پسندتحریک،جدیدیت،مابعد
جدیدیت کا نہ تو میں یک سر مخالف ہوں نہ بالکل موافق؛البتہ اس کی آڑ میں
ہونے والے غیر ادبی کام اور ا س کی جلو میں فروغ پا نے والے غیر ادبی
رجحانات نے ادب کو کا فی نقصان پہنچایا ہے۔میں ان تحریکوں اور نظریوں کے
ذریعہ ہونے والے فوائد و منافع کا انکار نہیںکررہاہوں، گروہ بندی نے اردو
زبان و ادب کی ارتقائی راہیں مسدود کررکھی ہیں ۔جس نے اردوکے قارئین کو بھی
بدظن اور متنفرکردیا ہے آج شاعر ہویا نثر نگار،تنقید نگار ہویا افسانہ
نگار ہر کسی کو اپنا قاری خود تلاش کرنا پڑرہا ہے۔
شعری اصناف میں غزل، نظم، قطعہ، رباعی، مرثیہ وغیرہا کو نمایاں حیثیت حاصل
رہی ہے۔ ہر جدید شاعراِن اصناف میں طبع آزمائی کرنا چاہتا ہے اور ہر ناقد
اُن پر تنقیدی نگاہ ڈالنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب حمد و نعت کو
کوئی صنفِ ادب ماننے کو تیار نہ تھا، لیکن آہستہ آہستہ اس رجحان میں کمی
آئی، نظریہ بدلا اور اب نعت کو بھی ایک مخصوص صنف ِ سخن تسلیم کرلیا گیا
ہے۔یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔اب کسی شاعرکا کوئی غزلیہ یا نظمیہ مجموعہ
منظرِ عام پر آتا ہے تو ایک دو حمد و نعت بھی بہ طورِ تبرک ابتدا ے کتاب
میں شامل رہتی ہے۔
اس وقت میں جس شاعر کے متعلق اظہارِ خیال کررہاہوں وہ خالص نعت و حمد و نظم
کے شاعر ہیں۔اصنافِ ادب سے انھیں پوری آگاہی ہے، عروض و قوافی کا گیان بھی
انھیں حاصل ہے۔ انھوں نے نعت نگاری سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور اب
تک مسلسل نعتیہ شاعری قلم بند کررہے ہیں ۔ادبی دنیا میں ان کا نام کیوں
نہیں؟ اس لیے کہ وہ غزل کے شاعر نہیں ہیں۔
مُشاہدؔ رضوی ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔عشقِ رسول صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کا اظہار وفروغ جس کا وطیرہ رہا ہے۔اس لیے مذہبیات کے
شبنمی قطرے ان کی شعری کائنات پر چھائے ہوئے ہیں ۔انھوں نے اپنی شاعری خالص
اسلامی طرز وادا کے ساتھ شروع کی اور اب تک شاعری کا تقدس پامال نہیں ہونے
دیا۔ڈاکٹر سید یحییٰ نشیطؔ رکن مجلسِ ادارت بال بھارتی ، پونے کے بہ قول:
’’لمعاتِ بخشش کا شاعر محمد حسین مُشاہد ؔرضوی نو عمر و نوجوان ہے ۔ بچپن
سے ان کا قلم عشقِ رسول ﷺ کے اظہار کے لیے صفحۂ قرطاس پر نعتوں کے موتی
بکھیر رہا ہے۔انھوں نے تقدیسی شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور
بعض عمدہ اشعار ان اصناف کے تخلیق کیے ہیں۔‘‘
(ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط صاحب سے معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ اللہ عزوجل
کے علاوہ کسی انسان کے کام کو نہ تو تخلیق کہا جا سکتا ہے اور نہ اسے خالق
سے موصوف مانا جاسکتا ہے نہ اس کی کاوشات کو تخلیقات نام دیا جاسکتا ہے۔)
مُشاہدؔ رضوی نے آنکھیں کھولتے ہی جو ماحول پایا وہ خالص اسلامی ماحول
تھا۔جہاں نعتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدھر بھرے نغمات ان کے
کانوں میں رس گھولتے نظر آتے تھے۔نعتیہ مجالس میں انھیں شرکت کا موقع
ملتا، مشاہیر نعت گو شعرا کی نعتیں سننے کا اتفاق ہوتا، اور یوں انھیں خود
نعت کہنے کا ذوق بیدار ہوا، اور وہ نعتیہ اشعار موزوں کرنے لگے۔ گو یا ان
کی شاعری کی ابتدا نعت ہے اور اب تک اسی ابتدا کی شاہ راہ میں اپنی فکر
وخیال کا جادو جگارہے ہیں اور بے طرح کامیاب ہیں۔محترم مُشاہدؔ رضوی نے
اپنے شعری سفر کے آغاز کے متعلق خود اظہار ِ خیال فرمایا ہے :
’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں جماعت دہم میں زیرِ تعلیم تھا تب اعلا حضرت
امام احمد رضا کی مشہورِ زمانہ نعت ؎
زہے عزت و اعتلاے محمد (ﷺ)
کہ ہے عرشِ حق زیرِ پاے محمد(ﷺ)
کی زمین میں پہلی نعت قلم بند کی۔ ‘‘(سرنوشت،لمعاتِ بخشش ص۱۱)
مُشاہد ؔرضوی کی شاعری میں امام احمد رضا کا شعری فیضان جگہ جگہ نمایاں نظر
آتا ہے۔ انھوں نے اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہے،اپنی پہلی نعت
میں لکھتے ہیں ؎
رضا کے کرم سے بنی نعتِ اوّل
جو اوّل رقم کی ثناے محمد(ﷺ)
مُشاہدؔ رضوی نے ۲۰۰۹ء میں اپنا کل شعری سرمایہ اکٹھا کرکے ایک دیوان کی
شکل میں قارئین اور ناقدینِ ادب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی اور اس
میں پوری طرح کامیاب رہے۔ یوں تو شعری مجموعے ہر روز شائع ہورہے ہیں ،
غزلیہ، حمدیہ، نظمیہ، رباعیہ، ہزلیہ وغیرہا ؛ لیکن باقاعدگی کے ساتھ دیوان
کی شکل میں حروف ہجائیہ کی ترتیب کے ساتھ شاید وباید کوئی مجموعہ منظرِ عام
پر آتا ہے اور وہ بھی خالص نعتیہ شاعری کا دیوان تو بہت کم دیکھنے میں
آتا ہے۔
گذشتہ سال محترم سید اولادِ رسول قدسی ؔ کے تین شعری مجموعے ایک ساتھ شائع
ہوئے اور تینوں دیوان کی شکل میں؛ ایک نعتیہ، دوسرا غزلیہ، تیسرا نظمیہ… اس
سے قبل ۲۰۰۸ء میں بزرگ شاعر و نقّاد محترم ڈاکٹر صابر سنبھلی مرادآبادی نے
اپنا نعتیہ دیوان حروفِ ہجائی کی ترتیب کا لحاظ کرتے ہوئے ۱۴۴؍ صفحات میں
شائع کیا تھا۔
مُشاہدؔ رضوی نے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کل سرمایہ دیوان کی
شکل میں ۲۴۰؍ صفحات پر مشتمل مجلد’’لمعاتِ بخشش‘‘ کے نام سے شائع
کرایاتھا۔جس کی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی،اخبارات میں اس کتاب پر
تنقیدی و تجزیاتی مضامین نظروں سے گذرے اور بڑوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی
، جو ان کے لیے بڑے اعزاز و انعام کی بات ہے۔
اس سے قبل مُشاہد ؔ رضوی نے ۲۰۰۵ء میں ’’اردو کی دل چسپ اور غیر معروٗف
صنعتیں‘‘ کے نام سے چالیس نادر ونایاب صنعتوں پر مشتمل ایک کتاب اہلِ علم
کی خدمت میں پیش کی تھی جس کے متعلق محترم غلام مصطفی اثرؔ صدیقی کا لکھنا
ہے کہ :
’’یقینا محمد حسین مُشاہدؔرضوی کی یہ کاوش اردو طلبا و طالبات کے لیے ایک
اور ’فرہنگِ ادبیات‘ سے کم نہیں۔‘‘
مُشاہد ؔرضوی کا سنہ ولادت دسمبر ۱۹۷۹ء ہے،جاے پیدایش شہر مالیگاوں
ہے،تعلیمی لیاقت ایم۔اے،ڈی۔ ایڈ،یو جی سی -نیٹ ہے اور ابھی حال ہی میں
انھوں نے اپنا مقا لہ ٔ ڈاکٹریٹ بہ عنوان ’’مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی
نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘چار سو سے زائد صفحات کو محیط مراٹھواڑہ
یونی ورسٹی ،اورنگ آباد میں جمع کردیا ہے۔اللہ عزوجل انھیں امتیازی نمبروں
سے کام یابی عطا فرمائے،آمین۔(۲؍ اپریل ۲۰۱۱ء کو کام یاب وائیوا کے بعد
موصوف کو پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کردی گئی)
موصوف کو بارہویں جماعت اور بی۔ اے میں اردو مضمون میں ٹاپ پوزیشن حاصل
کرنے پر مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی طرف سے اعزاز بھی دیا گیا، ۲۰۰۲ء سے
تاحال ضلع پریشد اردو پرائمری اسکول ، نیاے ڈونگری، تعلقہ ناند گاوں ضلع
ناشک میں تدریسی ذمہ داری نبھارہے ہیں اور ان کا اشہبِ قلم بھی پوری تندہی
کے ساتھ رواں دواں ہے ۔رسائل و جرائد میں ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور
نعتیہ شاعری مطالعہ میں آتی ہے۔ممبئی و مالیگاؤں کے اردو اخبارات میں بھی
ان کے مقالات تواتر کے ساتھ شائع ہوتے ہیں۔اس وقت مُشاہدؔ رضوی نے اپنی ایک
بالکل نئی کتاب’’تشطیٖراتِ بخشش‘‘ کا مسودہ میرے مطالعہ کی میز پر سجایا ہے
اور اب میں اسی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔بہ قول معروف فکشن نگار
شاعر وادیب سید محمد اشرف مارہروی :
’’فنِ نعت کسبی نہیں ،وہبی ہے،یہ صرف عطاے الٰہی سے حاصل ہوتاہے ۔ البتہ
تکنیکی نوک پلک درست کرنے کے لیے مشق اور مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔‘‘
مُشاہدؔ رضوی کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ سے یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ اللہ
عزوجل نے ان کے عشقِ رسول ﷺ، فنِ نعت سے والہانہ وابستگی اور سچے نعت گو
شعرا سے بے پناہ وارفتگی کی وجہ سے انھیں نعت گو شاعر بنادیا ہے اور انھوں
نے عطاے الٰہی کا سہارا لے کر اپنا قلم خالص نعتیہ شاعری کے لیے وقف کررکھا
ہے وہ کہتے ہیں ؎
ہیں یوں تو اور بھی اصنافِ شاعری لیکن
کسی کا رُتبہ نہیں نعتِ مصطفی کی طرح
اقبالؔ، ذوقؔ، امیرؔمینائی، محسنؔکاکوروی، حفیظؔجالندھری، احمدرضاؔبریلوی،
استاذِزمن حسنؔ رضابریلوی، نوریؔبریلوی، اخترؔرضاازہری، نظمی مارہروی،
اجملؔسلطانپوری، بیکلؔاتساہی وغیرہا مشہورِ زمانہ نعت گو شعرا کی شاعری کا
مطالعہ انھوں نے کیا ، جس کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں دکھائی دیتی
ہے۔لیکن ان سب کے باوجود انھوں نے امامِ نعت گویاںاحمد رضا بریلوی کو اپنا
استاذ ِ شعر مانا اور ان کے حُسنِ تخیل کی چمک کو اپنا راہ نما… لکھتے ہیں
؎
رضا کا حُسنِ تخیل ہے رہِ نما میرا
کہ نعت گو نہیں کوئی مرے رضا کی طرح
مُشاہدؔ رضوی کی ایک حمد میں نے کسی اخبار میں پڑھی تھی اس کا مطلع آج بھی
ذہن و فکر میں گھومتا نظر آتا ہے ؎
بطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تو ہی
صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے توہی
واہ! کیا کہنے ،کتنا اچھا مضمون باندھا ہے۔سید محمد اشرف مارہروی نے ۲۰۰۰ء
میں مُشاہدؔ رضوی کو لکھا تھا :
’’مجھے دلی خوشی ہوئی کہ ۲۱؍ برس کانوجوان اتنی اچھی اردو اتنی صحیح نثر
اور ایسی پیاری نعتیہ شاعری لکھنے پر قادر ہے۔‘‘…
اس لیے مجھے مُشاہدؔ رضوی کے تعلق سے مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے،
اور زیرِ نظر کتاب’’تشطیراتِ بخشش‘‘ نے مجھے مسحور کررکھا ہے۔کیا لکھوں،
کیا نہ لکھوں؟ … مُشاہدؔ رضوی نے بجا تحریر کیا ہے: ’’ صنائع و بدائع شاعری
کے حُسن و زیور ہیں۔‘‘ اسی لیے انھوں نے اس حُسن و زیور سے اپنی شاعری کو
سجانے کی کوشش کی ہے۔یہ کتاب صنائعِ شاعری کی ایک نمایاں صنعت’’تشطیر‘‘
پرمشتمل شعری گل دستہ ہے۔موصوف کے الفاظ میں’’اصطلاحِ ادب میں جب شاعر کسی
شعر کے دومصرعوں کے بیچ میں موضوع سے ہم آہنگ مزید دو تضمینی مصرعوں کا
اضافہ کرتا ہے تو اُس صنعت کو ’’صنعتِ تشطیٖر‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
امام احمد رضاؔ بریلوی، مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اور اخترؔرضا ازہری بریلوی
کے چالیس چالیس اشعار میں اس صنعت کا استعمال بڑی مہارت اور سلیقہ مندی کے
ساتھ کیا گیا ہے۔جن کے اندر خیالات کی ندرت، جذبے کا تقدس، افکار کی بلندی
اور شعریت کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ ہم وزن، ہم قافیہ، ہم رنگ اور ہم مضمون
خیال کو ایک ساتھ برتنا کتنا مشکل کام ہے یہ مُشاہدؔ رضوی ہی جان سکتے ہیں۔
کسی زمین پر کوئی شعر کہہ دینا اتنا دِقّت طلب نہیں جتنا کسی مخصوص وزن و
قافیہ کی رعایت کے ساتھ موضوع و خیال کی ہم آہنگی کاا لتزام کرتے ہوئے
کوئی شعر قلم بند کرنا ہے اور مُشاہدؔ رضوی نے اس مشکل ترین سفر کو کامیابی
کے ساتھ مکمل کیا ہے ؎
’’تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نوٗر کا‘‘
تیرے صدقے پالیا سب نے خزینہ نوٗر کا
ہر گلِ تر نوٗر کا ہر ذرّ ذرّہ نوٗر کا
’’تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نوٗرکا‘‘
آج کسی شاعر یا ادیب کی شعری و ادبی نگارشات کو وزن دار بنانے کے لیے سکّہ
بند ناقدین کی آرا سے کام لیا جاتاہے ، میں مُشاہدؔ رضوی کے شعری امتیاز
کے اس خاص پہلو کو نمایاں کرکے دیکھنے کے لیے ان کے نعتیہ اشعار کے مطالعہ
کی دعوت پیش کرتا ہوں اور بس، … ان کے اشعار خود گواہی دیں گے ؛… انھیں کسی
ناقد کی شہادت کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
مُشاہد ؔرضوی کی یہ کتاب اگرچہ بہت مختصر ہے لیکن موٹی موٹی کتابوں پر
بھاری ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کا بھر پور مطالعہ کیا جائے ، بالخصوص ناقدینِ
ادب سے ضرور گزارش کروں گا کہ وہ اپنا روے تنقید نعتیہ شاعری کی طرف بھی
موڑنے کی زحمت گوارا کریں۔ یہ بھی زبان و ادب کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
مُشاہدؔ رضوی ایک کامیاب نثر نگار، مایۂ ناز محقق، قادرالکلام شاعر ہیں بل
کہ میں تو انھیں عہدِ نَو کا سب رنگ شاعر مانتا ہوں ۔امید ہے کہ ادبی حلقوں
میں یہ کتاب پذیرائی کی مستحق ہوگی۔
توفیق احسنؔ ،ممبئی(۸؍ اکتوبر۲۰۱۰ء شب شنبہ) |
|