از قلم :: محمد ادریس رضوی ، ایم
۔ اے
سنی جامع مسجد ، پتری پل ، کلیان، مہاراشٹر۔
زندگی کے قیمتی لمحوں کو محنت و مشقت، جاں فشانی اور دماغ سوزی کی دہکتی
آگ میں جلانے کے بعد لمعات پیدا ہوتے ہیں ، لمعات بہ معنی چمک، کرنیں،
روشنیاں ، یہاں چمک ، کرنیں ؛ سے مرا روشنیاں نہیں بل کہ شاعری ہے، جیسے من
الظلمٰت والنور سے مراد ضلالت و گمراہی ہے ، یہ لمعات جس پر چمکتے ہیں اس
کا لطف و مزا وہی جانتا ہے، چوں کہ لمعات کا تعلق عشقِ حقیقی سے ہے ، اس
لیے اس کے دل میں ایک لپک پیدا ہوتی ہے کہ اس کو بخشش سے جوڑ دیا جائے تو
بہتر ہے، اس کا سہرا عشق و محبت کے امام ؛ امام احمد رضا فاضل بریلوی کے
سربندھتا ہے کہ آپ نے سب سے پہلے اپنے عشق کے باغ کا رابطہ بخشش سے فرمایا
یعنی ’’ حدائقِ بخشش‘‘ پھر تو بازار میں عاشقوں کا مال اسی نام سے آنے لگا
اور بازار کی ہر دوکان میں یہ مال چھا گیا، حدائقِ بخشش، سامانِ بخشش، قبا
لۂ بخشش، سفینۂ بخشش، ابرِ بخشش، قسیم بخشش، نغمات بخشش، وسیلۂ بخشش،
سبیلِ بخشش، صداے بخشش، سازِ بخشش، نداے بخشش، نواے بخشش، نویدِ بخشش وغیرہ
؛ بخشش کے اس باغ میں جناب محمد حسین مُشاہدؔ رضوی صاحب ’’لمعاتِ بخشش‘‘ لے
کر آئے ہیں ۔ موصوف نے کرم فرمایا اور کتاب کا ایک نسخہ راقم کے نام بھیجا
کہ دیکھو اور پڑھو۔ دوسو چالیس(۲۴۰ ) صفحات کی اس کتاب کو دیکھا، پڑھا اور
کچھ لکھ بھی رہا ہوں۔ حال آں کہ لکھنے والوں نے لمعات پر بہت کچھ لکھ دیا
ہے تو اب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ …نہیں ہے! کہ ہر آدمی کے لکھنے کا نداز
الگ الگ ہوتا ، نظریے الگ الگ ہوتے، خاک چھاننے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ،
جانچنے اور پرکھنے کا فارمولہ بھی الگ ہوتا ہے۔
شاعری سر پٹ نہیں دوڑتی بل کہ بحور و اوزان کی دو پٹریوں پر دوڑتی، ترنم
ریزی کے پردے پر پھیلتی ، نغمگی کی لہروں سے دل میں اترتی م پاکیزگی کی
بنیاد پر بخشش سے رشتہ جوڑتی، عمدہ بندشوںاور تراکیب کے ذریعے دانش وروں
اور اساتذۂ فن کی دہلیز تک پہنچتی، سر چڑھ کر بولتی، دادودعا لیتی ، لوگوں
کو دیوانہ بناتی ہے۔ شاعری میں سادگی بھی چاہیے جوش بھی، ترنم ریزی بھی
چاہیے نغمگی بھی، درد بھی چاہیے دوا بھی…
شاعر جب لمعات کی گہرائیوں میں اترتا ہے تو داخلی وجود سے نکلا ہوا نغمہ
تصوف کی شاعری کہلا تا ہے ، ہر شاعر کے یہاں داخلی نغمے ضرور ہوتے ہیں ،
خارجی چیزیں جب متاثر کرسکتی ہیں تو داخلی کیوں متاثر نہیں کریں گی؟
’’لمعاتِ بخشش‘‘ کا پہلا صفحہ حمد کے لمعات سے مزین ہے ، جو بحرِ مجتنث
مثمن مخبون محذوف اور اس کے اوزان کی پٹریوں پر بڑی خوش اسلوبی سے رواں
دوان ہے، ہر مصرع خوب صورت ، ہر شعر ایمان و اعتقاد و یقین کی گواہی دیتا
ہے نمونہ کے طور پر کس شعر کو پیش کیاجائے اور کس کو چھوڑا جائے ، ایک کو
سامنے لاتا ہوں تو دوسرے کے ساتھ ناانصافی ہوگی، لیکن نمونہ کے طور پر کسی
کو لانا ہوگا،نہیں تو مقصد فوت ہوجائے گا، سب کو منا کر ایک تلمیحی شعر پیش
کرتا ہوں ، وہ واقعہ حقیقی اور تاریخی ہے، صدیوں سے زندہ ہے اور قیامت تک
زندہ رہے گا، جو منبعِ فیض اور فیض رساں ہے، جس سے بھوک بھی مٹتی ہے اور
پیاس بھی، جس میں سدا سے شفا ہے اور سدا رہے گی، اس واقعہ کو شاعر نے جس
انداز میں قلم بند کیا ہے، خوب کیا ہے ؎
ترے ذبیح کی نازک سی ایڑیوں کے طفیل
سلگتے صحرا سے زم زم نکالتا ہے تو ہی
’’ذہن ‘‘ کا وزن کیا ہے، فاع یا فعو؟ اس سوال کو سننے کے بعد میدانِ شاعری
میں اترنے والے طرم خان لوگ بھی تھوڑی دیر کے لیے سر کھجلا نے لگتے ہیں ،
اور سر کھجلا تے ہوئے آہستہ سے بولتے ہیں ، فعو، اور کئی طرم خان نے ’’ذہن‘‘
کو فعو کی کرسی پر بیٹھا کر ، لکھ کر چھاپ کر، میدان میں لاکر واہ واہ کی
داد حاصل کر لیا، نہ داد لینے والوں نے سمجھا نہ داد دینے والوں نے ، من
ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو، والا معاملہ ہے، چمن ، زمن، فگن، شکن، کہن،
کا وزن ’’فعو‘‘ ہے اس وزن پر ’’ذہن‘‘ کو تولا ، باندھنا، لکھنا ، لانا، ’’
ذہن‘‘ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہی نہیں ! ظلم ہے ، کیوں کہ ذہن کا املا ’’ذِ
ہْن‘‘ ہے ’’ذِہَن‘‘ نہیں ، داد دیجیے تیس سال کے نوجوان مُشاہدؔ کو کہ
انھوں نے ان چیزوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ، شاعری کے تقاضا کو پورا کرتے ہوئے
لفظ’’ ذ،ہْن‘‘ کو ، فاع، کے وزن پر کھڑا کیا، ایک مصرع کا ایک جز دیکھیے ع
’’جو لوحِ ذِہْنِ مُشاہدؔ ‘‘ ……اس جز کے اوزان ہیں ، مفاعلن فعلاتن۔
مُشاہدؔ کی لکھی ہوئی ایک نعتِ پاک کے اشعار سے ایک شعر کو دیکھیے ، جو بحرِ
رَجز مطوی مخبون میں ہے ؎
نطق فدا ، قلم فدا ، ذِہْن فدا، زباں فدا
طیبہ پہ شاعری فدا ، سارے سخن وراں فدا
اس شعر کو وزن کرکے دیکھ لیجیے تو ذہن کا وزن ’’فاع‘‘ ہے ، خوب صورت شعر ہے
جیسا فرما ویسا نقشا کے مصداق بحر کے اوزان خوب صورت مگر سخت ہیں، سختی کو
جھیل لیجیے تو نتیجہ خوب صورت ہی ظاہر ہوگا۔
حمد و مناجات و دعا کی راہوں سے گذرتے ہوئے ، نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی وادی میں شاعر نے جب قدم رکھا تو سب سے پہلے اپنے آقاصلی اللہ علیہ
وسلم کو اپنا حال سنایا، ابتدا تو المیہ ہے لیکن انتہا طربیہ ہے، دربارِ
رسالت ایسا ہی ہے ، غم کے مارے ، اپنی جھولیوں میں خوشی وشادمانی لے کر
لوٹتے ہیں ، بہ ہر حال! شاعر نے اپنا غم یوں بیاں کیا ؎
غم نے کیا ہے یہ حال آقا
دل ہوگیا پائمال آقا
جب غم ہلکا ہوا ، خوشی سے دل شاد ہوا ، مزاجِ یار کو تسکین ملا، تو دشمنوں
کاحال بھی کہہ سنایا ، بڑے اچھے انداز میں کہا آپ بھی سنیے ؎
اتراتے جو پھر رہے ہیں نجدی
کب ہوگا انہیں زوال آقا
بوجھل طبیعت جب مائلِ پروازہوئی تو اپنا رنگ بدلا، ڈھنگ بدلا، انداز بدلا،
نئی آرزووں ، نئی تمناوں ، نئی چاہتوں کے باغ میں پہنچ گئی اور پہنچ کر
بول پڑی ؎
ہو کاش مشاہدہ ، مشاہدؔ
دیکھوں رُخِ پر جمال آقا
’’لمعاتِ بخشش‘‘ میں نعتوں کا سلسلہ دور تک چلتا ہے، لڑی میں لڑی اور کڑی
میں کڑی پیوستہ ہے۔ قلم میں خیال ، خیال میں محبت، محبت میں عشق ، عشق ذات
و شخصیت میں مدغم ہوتے ہیں تو لمعات پھیلتے ہیں ، ذات و شخصیت کی خوبیوں کے
سمندر میں جب خیال اترتا ہے تو محبت کے موتی لے کر نکلتا ہے ، محبت کی لَو
بڑھنے اور پختہ ہونے پر عشق بنتا ہے، عشق کی وادی میں مدتوں رہنے کے بعد
عاشق اپنی ذات کو بھول جا تا، اس کو ہر طرف محبوب کا جلوہ نظر آتا ہے، وہ
اسی میں گم رہتا ، اسی کے گُن گاتا ، اسی کی تعریف و توصیف سے اپنی زبان
اور خیال کو پاک کرتا ، اپنے کو کچھ نہیں ان کو سب کچھ جانتا ہے، اس راہ پر
چلنے والے کم لوگ ہوتے ہیں اور جو ہوتے ہیں خوب ہوتے ہیں، اس راہ کے لیے دو
طرح کے رہِ نما کی ضرورت ہوتی ہے، ایک باطنی طور پر دوسرا ظاہری طور پر،
باطنی رہِ نما اسے کہا یا سمجھا جاتا ہے کہ کسی عظیم شخصیت سے متاثر ہوکر
اگر کچھ کہا جائے، لکھا جائے تو وہ باطنی رہِ نما ہوا، ظاہری رہِ نما وہ ہے
جو اس لکھے کو فن کے خراد پر کاٹ چھانٹ کر اچھا اور پختہ بنا دے، مُشاہدؔ
صاحب نے باطنی رہِ نمائی کے لیے اولیاے کرام اور خاص کر عشق و الفت کے
مینار امام احمد رضا کا انتخاب فرمایا ہے، جیسا کہ ان کے کلام سے ظاہر ہوتا
ہے ؎
اے مُشاہدؔ نعت گوئی عاشقوں کا کام ہے
سیکھنا احمدرضا سے یہ ہنر اچھا لگا
مُشاہدؔ نعت لکھّے گا تری اوقات ہی کیا ہے
سلیقہ تجھ کو بخشا ہے رضا نے ان کی مدحت کا
غوث و رضا کا صدقہ عطا کر
بختِ مُشاہدؔ کو بھی جگا جا
ہے مُشاہدؔ کی تمنا کہ رضا کے صدقے
خدمتِ دین کوئی مجھ سے کرادیں آقا
مسلکِ احمدرضا اپنا لے جو
ناری سے وہ نور ہوہی جائے گا
احمدرضا کے صدقے مُشاہدؔ بہ صد خلوص
محوِ ثناے سرورِ کون و مکاں ہے آج
یہ سارے اشعار اس بات کے غماز ہیں کہ امام احمدرضا کے عشق کی شعاعوں میں
مُشاہدؔ رضوی کے عشق کی شعاعیں گم ہیں، جب مُشاہدؔ کے عشق کی شعاعیں رضا کے
عشق کی شعاعوں میں گم ہوئیں تو لمعات ظاہر ہوئے، ان لمعات کے ذریعہ نعتِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ ابھرا جو ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کے صفحات ۱۶۰تک
چھایا ہوا ہے، اس کے بعد مناقب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس کی ابتدا اس شعر
سے کی گئی ہے
نعرۂ غوث و خواجہ ، رضا و عشقی ، عینی اور نوری
پیارے نبی کے عشق وادب اور ایماں کی پہچان ہے
اس صف میں حضرات صدیقِ اکبر، فاروقِ اعظم، عثمانِ غنی، مولا علی، امام حسین،
غوثِ اعظم، خواجہ غریب نواز، بہاوالدین انصاری، علامہ فضل حق خیرآبادی،
ساداتِ مارہرہ مطہرہ، علامہ آزاد بلگرامی، امام احمد رضا، حضرت نوری، اختر
رضا ازہری، شارح بخاری، ارشدالقادری، مجیب اشرف، عبدالمبین نعمانی، فخرِ
خاندیش وغیرہ ہیں، اس کے بعد آزاد نظم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، جو لائقِ
مطالعہ ہے۔ |