چھوٹی لڑکی نے میرا ہاتھ دبایا
تو میں ایک بار پھر بچوں کے بارے میں سوچنے لگی۔ مجھے اس عورت کا خیال
رکھنے اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی نہ ضرورت تھی اور نہ خواہش۔ مگر
اب بہت کچھ داﺅ پر لگ چکا تھا۔ میں غصے سے کھول رہی تھی کہ میں اس پر کیوں
راضی ہو گئی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں نے مسکین کے سامنے ہتھیار
کیوں ڈالے۔اب اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ بوجھ مجھے ہی اٹھانا پڑ رہا
تھا۔اسی نے میرا نیا نام تجویز کیا اور ہم نے ایک جوڑے کے طور پر افغانستان
میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ ہم اس کی
گیارہ سالہ لڑکی کو بھی ساتھ لے لیں، لیکن میں نے اس کو مسترد کر دیا۔ میں
اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہتی تھی اور اب میں دو بچوں اور ان کی ماں
کے ساتھ تھی۔
رہبروں نے کوئی سودا بازی کی اور ہم ٹیکسی میں بیٹھ کر جلال آباد کی طرف
روانہ ہو گئے۔ اس روڈ کی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہو سکتی کہ اس میں جا
بجا گڑھے تھے اور یہاں پڑی ہوئی روڑی کو کبھی تار کول نصیب نہیں ہوا تھا۔
ہم پچھلی نشست پر بیٹھیں مسلسل ہچکلولے کھا رہی تھیں۔ میرا سر کھڑکی میں
لگے ہینڈل سے بری طرح ٹکرا رہا تھا اور اس مےں درد شروع ہو گیا تھا۔
ٹیکسی ڈرائیور نے گہری سانس کھینچی اور کار روک لی۔اس نے سر نکال کر پچھلے
پہیے کو دیکھا اور شور مچادیا۔ وہ نیچے اترا، ساتھ ہی دونوں مرد بھی نیچے
کود گئے۔ پچھلے ٹائروں میں سے ایک پنکچر ہوگیا تھا۔ اور وہ اس کی مرمت میں
جت گئے، تقریباً دس منٹ کے بعد ہم پھر روڈ پر تھے۔ میں ان کی مستعدی سے
متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی کہ انہوں نے کتنی جلدی پہیہ تبدیل کر دیا تھا۔
ذرا آگے چلے تو اچانک دھم کی آواز آئی اور کار گھومتی ہوئی کچے راستے پر
آگئی جس پر پتھرہی پتھر پڑے ہوئے تھے۔ اب ایک اور پنکچر ہو چکا تھا.... واہ
ری قسمت کہاں لا پھنسایا؟
وہ پھر پہیہ بدل رہے تھے اور میں حیران ہو رہی تھی کہ ڈرائیور کتنے فالتو
پہیےے اٹھائے پھر رہا ہے؟ زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ وہ دو پنکچروں سے
نمٹتے ہوئے ایک لمحہ کےلئے بھی پریشان نہیں ہوا۔ پھر بھی پانچ منٹوں کے
اندر دو پنکچر ہو جانا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کہ تقدیر قدم قدم
پر میری راہ میں رکاوٹ ڈال کر مجھے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہو۔
ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کا پس منظر اچانک ہموار میدانوں میں تبدیل ہو گیا
اور ہمارے سامنے وسیع کھیت پھیلے ہوئے تھے ،جن میں اناج اور کماد کی فصلیں
کھڑی تھیں۔
یہاں اُن سکڈ میزائل لانچروں کا نام و نشان تک نہ تھا جن کے بارے میں سنا
تھا کہ طالبان نے حال ہی میں لگائے ہیں اور ان کا رُخ پاکستان کی طرف ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ وہاں کسی فوجی سرگرمی کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ یہ بات
حیرت کی تھی کہ جو ملک عنقریب دنیا کی ایک زبردست جنگی مشین کے حملے کی زد
میں آنے والا تھا ، وہاں کسی قسم کی فوجی تیاریاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
البتہ میں نے سرحد سے گزرنے کے فوراً بعد صرف ایک "MLRS" (ملٹی لانچ راکٹ
سسٹم ) دیکھا تھا.... اور بس!
اچانک ٹیکسی اچھلی، ڈگمگاتی اور گڑگڑاہٹ کے ساتھ 50کلو میٹر کی رفتار سے
جلال آباد کی طرف دوڑنے لگی۔ کچھ سکون ملا تو مےرا سر جھولنے لگا۔ میں
تھکاوٹ، دباؤ اور داخلی ہیجان پر قابو پاتے پاتے نیند کی وادی میں گھوم رہی
تھی کہ اچانک گاڑی رکنے کی وجہ سے میرا سر گاڑی میں لگے دستے سے ٹکرا گیا۔
آنکھ کھلی تو خود کو جلال آباد کے مضافات میں پایا۔ اس دھچکے کیوجہ سے میری
نظر گھومنے لگی، پھر معاً یاد آیا کہ میں تو برقع پہنے ہوئے ہوں، مجھے بہت
محتاط رہنا ہوگا۔
ڈیڑھ گھنٹہ پہلے جب میں سرحد عبور کرکے طالبان سپاہیوں کے پاس سے گزرنے لگی
تھی تو میرا دل خوف سے بلیوں اچھل رہا تھا اور اب جلال آباد پہنچی تو پھر
وہی کیفیت طاری ہو گئی ۔ کیونکہ ہر دوسرا آدمی مجھے طالب دکھائی دے رہا
تھا۔ جلال آباد میں بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود زندگی حیرت انگیز
طور پر نارمل دکھائی دے رہی تھی۔ ٹیکسی سے اتر کر میں اس عورت کے پیچھے
پیچھے چلتی ہوئی مارکیٹ کے ایک کونے میں پہنچ گئی۔
اب میں مارکیٹ کے طور طریقوں سے آگاہی حاصل کر رہی تھی۔ انار، موٹے موٹے
سیبوں اور دیگر پکے ہوئے پھلوں کے سٹالوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے
پھلوں سے کوئی رغبت نہیں جس کی وجہ سے میں ماں سے ہمیشہ جھڑکیاں سنتی رہتی
تھی۔ لیکن یہاں تروتازہ اور خوشبودار پھل مجھے بہت اچھے لگے تھے۔ میں وثوق
سے کہتی ہوں کہ یہاں برطانیہ کی طرح کوئی ”جی ایم“ پھل نہیں ہوتا۔ یہاں کی
ہر چےز قدرتی طریق کار کے مطابق اُگتی ہے اور یہ بھی وثوق سے کہتی ہوں کہ
ایسا پھل یہاں لایا جائے تو ملا عمر اسے ممنوع قرار دے دیں گے۔میں زو ر سے
ہنسنا چاہتی تھی مگر فورا یاد آگیا کہ میں کہاں ہوں یہاں تو خندہ زیر لب
بھی وبال بن سکتا ہے۔
میری پنڈلیوں میں درد ہونا شروع ہو گیا تھا اورخودکو لڑکھڑاتی ہوئی محسوس
کر رہی تھی۔ میں نے اپنی ساتھی خاتون کی طرف دیکھا ۔وہ پوری دلجمعی کے ساتھ
بیٹھی تھی اور اس پر تھکن کے کوئی آثار نہ تھے۔ اتنے میں مجھے اپنے دونوں
رہبر آتے ہوئے دکھائی دیے۔ دل میں تشکر کے جذبات امڈ آئے۔ ان کے پاس کچھ
پھل اور چاول تھے، جو وہ خرید کے لائے تھے۔پھر وہ میرے پاس سے سیدھے آگے
نکل گئے، یعنی انہوں نے مجھے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ مجھے غصہ تو
بہت آیا مگر میں اپناخون پی کر رہ گئی اور منہ بند رکھا۔ پھر میں ان کے
پیچھے پیچھے گوشت کے سٹال کی سمت چل دی جہاں گوشت کم اور مکھیاں زیادہ
تھیں۔ گوشت کی ایک ران لکڑی کے فریم سے لٹک رہی تھی۔ یہ غالباً بھیڑ کے بچے
کی تھی۔
میں نے اردگرد دیکھا توعورتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی اور وہ
سب برقع پوش تھیں۔ مرد ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے کچھ لوگ ایک کونے میں بیٹھے
کافی یا سبز چائے اورنسوار کھارہے تھے اوراسے زمین پر بار بار تھوک رہے تھے
۔
میں سڑک کے کنارے ذرا اونچی سی جگہ پر بیٹھ کر اس اپنی مثال آپ قسم کی
مارکیٹ کا بغور مشاہدہ کرتی رہی۔ تاہم میں اپنے آپ کو بالکل تنہا پا رہی
تھی۔ گرمی سے دم گھٹنا شروع ہوا اور میں ہوا اندر کھینچنے کیلئے مسلسل منہ
کھول رہی تھی جبکہ میرے رہبر مارکیٹ کا چکر لگا رہے تھے اور اپنے پرانے
دوستوں کے ساتھ مل کر چربی چبا رہے تھے اور سٹال والوں سے خرید و فروخت بھی
کررہے تھے۔بالآخر وہ واپس آگئے ، اس وقت میں شدید غصے میں تھی اور میرا
چہرہ تمتما رہاتھا۔لیکن برقعے کی وجہ سے انہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم
نے واپسی کےلئے ایک رکشہ کریہ پرلیا۔ ہم کئی بازاروں میں گھومتے پھرتے رہے۔
بازاروں میں دواﺅں اور گاڑیوں کے مستعمل پرزوں کی دکانوں کی بہتات تھی ۔
بعدازاں ہمارایہ قافلہ دو ٹیکسیاں ایک پیلی اور ایک سفید، لے کر جلال آباد
سے چار میل مشرق کی جانب نکل گیا۔ اب ہم ”کاما“ نام کے ایک گاﺅں میں جا رہے
تھے ۔یہ ایک چھوٹی اور انتہائی غیر نمایاں جگہ تھی ،مگر آگے چل کر میری
زندگی پر نہایت اہم اثرات مرتب کرنے والی تھی۔
افغانستان میں کھیت سرسبزوشاداب تھے۔غلے اور کماد کی فصلیں لہلہا رہی تھیں۔
طور خم بارڈر کے قریب ہم نے جو فصلیں دیکھی تھیں، یہ ان کی نسبت زیادہ
صحتمند تھیں۔ایک جگہ گاڑیوں سے اترنے کے بعداب ہم ایک کھیت میں بنی ہوئی
تنگ اور پر پیچ پگڈنڈی پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے چل رہے تھے، جبکہ میں سب
سے پیچھے چل رہی تھی۔ میرے لئے برقعے کی تنگ جالی سے ادھر ادھر دیکھنا ممکن
نہ تھا۔ میں صرف آگے چلنے والوں کی ایڑیوں کو دیکھتی ہوئی تنگ راہ پر چل
رہی تھی۔کسی اور جانب دیکھتی تو پاﺅں اور الٹا پڑ جاتا اور ٹخنے میں مو چ آ
جاتی تو میرا سارا کھیل بگڑ جاتا۔مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ”اُسامہ بن
لادن“کے بیس (BASE)کیمپوں میں سے کئی ایک اس خطے میں ہیں۔ لیکن فی الحال
میرا سارادھیان ان ٹیڑھے میڑھے راستوں پر تول تول کر پاﺅں رکھنے کی طرف
تھا.... اس کے کیمپوں کے بارے میں کیسے سوچتی؟ میں زیادہ تانک جھانک اس لئے
بھی نہیں کر نا چاہتی تھی کہ میں کہیں دیکھنے والوں کی نظر میں مشکوک نہ
قرار پا جاﺅں۔ یہ بات یقینی تھی کہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب شخص یہاں سے
چند میل دور موجود ہے،اگر وہ اس وقت چند فٹ ہی دور ہوتا، میں تب بھی اسکا
نوٹس نہ لے سکتی تھی۔
یہ سوچتے سوچتے ہم پیدل چلنے والوں کے لئے بنے ہوئے ایک تنگ پل کے قریب
پہنچ گئے جوندی کے اوپر کمان کی طرح معلق تھا۔ اسے پار کرتے ہی مٹی کی کچی
اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں والے گھروندوں پر مشتمل ایک افغان بستی تھی....
جس کا نام ”کاما“ بتا یا گیا۔
اتنے میں گاﺅں کی ایک گلی سے ایک عورت تقریباً دوڑتی ہوئی نکلی اور سب کو
چومنے اور گلے لگا کر ملنے لگی۔اس نے مجھے بھی اسی گرمجوشی سے چوما اور
مجھے اپنے ساتھ چمٹایا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ اسے ہماری آمد کا صحیح
اندازا کیسے ہوگیا ؟ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نے مجھے کیا سمجھا؟ لیکن وہ
ایسے ملی جیسے میںاس کی کوئی گمشدہ رشتہ دار ہوں۔ ہمارے ساتھ والی دونوں
ننھی لڑکیاں وسیع صحن میں کھڑے بچوں کے ہجوم میں جا شامل ہوئیں اور مل کر
کھیلنے لگیں۔
صحن کی ایک دیوار کے ساتھ ایک چھپر بناہوا تھا، جس کے نیچے کھانے پکانے کا
سامان چولہے ،دیگچے اور توے وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ دوسری جانب پانی کا
نلکا(ہینڈپمپ) تھا جس میں سے لیور ہلا کر پانی اوپر کھینچا جاتا تھا۔ اس کے
پاس کچھ ٹیڑھے میڑھے برتن گاگریں اور مٹکے پڑے تھے۔
میری ہمراہی عورت مجھے ایک بڑے کمرے میں لے گئی، جس میں افغانوں کا روایتی
قالین بچھا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد بچھونوں اور تکیوں کی قطاریں لگی
تھیں۔ اس نے ایک طرف رکھے ہوئے خوبصورت گدے کی طرف اشارہ کرکے مجھے بیٹھنے
کیلئے کہا۔ میں بے حد تھکی ماندہ تھی، میں نے برقع اٹھایا اور گدے پر بیٹھی
تو اونگھ آ گئی۔ یہاں سونا مجھے خود بھی آدابِ مجلس کے خلاف محسوس ہو رہا
تھا مگر گرمی میں طویل سفر کیا تھا اور دو دن آرام کی نیند نہ سو سکی تھی،
چنانچہ میںموقع ملتے ہی سو گئی۔ جب نیند غالب آگئی تو بمشکل ایک گھنٹہ گزرا
ہوگا کہ ایک نوجوان میرے پاس گھٹنوں جھکا ہوا، مجھے جگا رہا تھا۔ میں خو ف
سے ٹھنڈی پڑ گئی کیونکہ وہ مجھ سے انگلش میں بات کر رہا تھا۔میں نے جلدی سے
برقع چہرے پر لیا اور اٹھ بیٹھی ۔ ابھی تک میں خاموش ہی تھی۔ اس نے مجھے
تسلی دیتے ہوئے کہا:
”خیر ہے، خیر ہے.... میں جانتا ہوں کہ تم کون ہو.... یہ مجھے جان نے بتادیا
ہے .... میرے خیال میں تم نے یہاں تک پہنچ کر ایک باہمت عورت ہونے کا مظاہر
ہ کیا ہے.... آﺅ باتیں کرتے ہیں۔“
تاہم میں خاموش رہی اور سوچتی رہی کہ پتہ نہیں اسے جان نے اور کیا کیا
بتایا ہوگا؟ پھر اتنے میں جان اندر آگیا اور بولا:
”میں نے انہیں بتادیا ہے کہ یہاں تمہارے بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں
ہے۔“
مجھے اس پر شدید دھچکا لگا، میں ابھی تک گھبرائی ہوئی تھی کہ میرے گونگی
بہری ہونے کا پردہ توچاک ہو چکا ہے۔ میں نے برقع ہٹایا، سر پر سے سکارف بھی
کھینچ لی اور غضبناک نگاہوں سے مسکین کو دیکھا۔
”پلیز ناراض نہ ہوں، آپ بالکل محفوظ ہیں اور آپ کی آمد راز ہی رہے گی۔“
وہ پر شفقت آواز میں گفتگو کر رہا تھا۔ یہ ایک لمبا ، پتلا سا آدمی تھا،
عمر تقریباً 25سال کی ہوگی۔ اتنے میں اس کا چچااور میرا دوسرا رہبر بھی
کمرے میں آگیا۔نوجوان نے مجھ سے کہا:
”مجھے بتاﺅ.... تم یہاں کیوں آئی ہو؟.... کیا جانتی ہو کہ یہ تمہارے لئے
کتنا خطرناک ہو سکتا ہے....؟“
میں تقریباً آٹھ گھنٹوں کے بعد، کسی تحفظ کے بغیر بولنے لگی اور مجھے اپنا
یہ کہنا اچھا لگ رہا تھا کہ.... ”میں ایک برطانوی صحافی ہوںاور افغانستان
میں رہنے والے آپ جیسے لوگوں کے بارے میں ایک سٹوری لکھنا چاہتی ہوں۔ میں
آپ کی امیدوں ،خدشات اور خواہشات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہوں اور یہ بھی
جاننا چاہتی ہوں کہ گیارہ ستمبر کو جو واقعہ ہوا ہے اس کے بارے میں آپ کی
کیا سوچ ہے؟میں امریکہ کے متوقع حملے کے بارے میں آپ کے تاثرات معلوم کرنا
چاہتی ہوں۔“
نووارد نوجوان نے بتایا کہ” گیارہ ستمبر کے ”سانحے“ پر یہاں کے ہر فرد کو
شدید دکھ ہوا ہے۔ معلوم نہیں ایسا کیوں ہوا ہے؟ “
اس اثنا میں ، میں نے اوپر دیکھا تو کمرے میں تقریباً پینتیس افراد خاموشی
کے ساتھ جمع ہو چکے تھے۔ نوجوان نے میری کہی ہوئی باتیں ان کے سامنے
دہرائیں۔ ایک چھوٹی سی لڑکی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مجھ پر دستی پنکھا جھلانے
لگی۔میں اس گاﺅں، ”کاما“ کے لوگوں کے حالات سے بہت متاثر ہوئی۔ یہ بے چارے
کتنے ہمدرد اور فراخدل و ملنسار تھے۔ ان سے جو باتیں ہوئیں اور ان کے جو
جذبات معلوم ہوئے ان سے پتہ چلا کہ وہ امریکہ کی ممکنہ کارروائی سے خوفزدہ
نہیں ہیں، تاہم وہ پرامن نتائج کے لئے دعا کر رہے تھے اور اپنی آزادی کے
تحفظ کی خاطر لڑائی کےلئے پھر بھی تیار تھے۔
”کاما“ کی عورتیں مضبوط، پرجوش اور حوصلہ مند تھیں۔ ایک عورت نے مجھ سے
پوچھا کہ میرے کتنے بچے ہیں؟
میںنے کہا: ”ایک بچی ہے!“
یہ سن کر اُس نے شرارت آمیز انداز میں اپنے خوبصورت ہاتھ کولہوﺅں پر رکھتے
ہوئے کہا:
”صرف ایک؟“....پھر بولی....” ہا!.... تم انگریز اور امریکی عورتیں صرف ایک
ایک اور دو دو بچے جنتی ہو۔ میں پندرہ بچوں کو جنم دے سکتی ہوں۔جب تم اپنے
سپاہی لڑکوں کو لڑائی میں بھیج بھیج کر ختم کر بیٹھو گی، ہمارے بچوں کی
تعداد کتنی ہی بڑھ چکی ہو گی۔ ہمارے بچے بندوقیں پکڑے ہوتے ہیں۔ یہ زبردست
لڑاکے ہوتے ہیں اور لڑتے لڑتے مرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا ایک حصہ
ہے۔ اگر مجھے لڑائی لڑنا پڑی تو میں خود بھی لڑوں گی اور وہ بھی ، جو سامنے
کھڑی ہے۔“....اس نے اپنی انگلی سے سامنے کھڑی ایک بڑھیا کی طرف اشارہ کیا،
جس کے منہ میں دانت نہیں تھے، مگر اس کی مسکراہٹ دلیری اور عقلمندی کی
غمازی کر رہی تھی۔
مجھے بتایا گیا کہ یہ بڑھیا تقریباً سو سال کی ہے اور اس نے کئی جنگیں
دیکھی ہوئی ہیں۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے بلند آواز میں کچھ کہا، جس پر
سب ہنس پڑیں۔ میرے خیال میں اس نے یہی کہا ہوگا کہ وہ امریکی سپاہیوں کا
مقابلہ کرے گی اور کوئی بھی افغانوں پر فتح نہیں پا سکتا۔ اس پر مجھے ایک
مشہور کہاوت یاد آئی:
”ایک افغانی کو ہر کوئی کرائے پر لے سکتا ہے مگر اس کا مالک نہیں بن سکتا۔“
جاری ہے |