ایوان ریڈلی(افغانستان میں گرفتار)9

اس دوران بھوری بادامی آنکھوں والی عورت مرکزی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ اس نے نوجوان مترجم کی وساطت سے کہا:
” ہم نے نیویارک کے واقعات کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ اتنے بے گناہ لوگوں کی ہلاکت پر ہمیں بہت افسوس ہے۔ مجھے امید ہے کہ امریکہ ہم پر بم پھینکنے سے پہلے دوبارہ سوچے گا۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا، ہم اس سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔“

اس عورت نے جو کچھ کہا، وہ ان سب کے جذبات کی صحیح ترجمانی تھی۔ اس کا خیال بھی صحیح تھا ۔ مگر امریکی اقدام کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے پیمانے کا یہ لوگ صحیح تصور نہیں کر سکتے تھے، جو بعد میں دنیا بھر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ درست ہے کہ اافغانستان کے لوگ ٹی وی پر یہ مناظرا س لئے نہیں دیکھ سکے تھے کیونکہ ان کے ہاں ٹی وی پر پابندی ہے، دنیا کے ان فراموش کردہ علاقوں میں خبریں یا تو زبانی پھیلتی ہیں یا ریڈیو سے نشر ہوتی ہیں۔واقعی یہ لوگ ان بھیانک مناظر کو نہیں دیکھ سکے، جنہیں دیکھ کر ہم زندگی بھر کےلئے جذباتی طور پر مجروح ہو چکے ہیں!

کچھ دیربات چیت کے بعدجس عورت نے اپنے آپ کو بچے جننے کی انتھک اور ناقابل تسخیر مشین کے طور پر پیش کیا تھا، اس نے مجھے کھینچ کر کھڑی کر دیا اور باہر کھانا کھلانے کے لئے لے گئی۔ ان کی فراخدلی اور فیاضی اگرچہ مسلمہ ہے لیکن ان کے پاس ہے کچھ نہیں۔ اس وقت جو کچھ ان کے پاس تھا وہ نہایت خوشدلی سے مجھے اس میں شریک کرنا چاہتی تھیں۔مجھے چاول ، شوربا اور گرم گرم روٹی کھائے کافی عرصہ ہو چکا تھا اور انہیں گرما گرم حالت میں کھانے کا بہت شوق تھا۔ سب عورتیں انگلیوں کے ماہرانہ استعمال سے چاول کھا رہی تھیں، میں نے بھی ان کی تقلید کر کے یہ چیزیں کھائیں۔ کھانے کے بعدمیزبان نے مجھے ایک اُبلا ہوا بھٹہ پکڑا دیا۔ وہ اتنا گرم تھا کہ مجھ سے گر گیا اور میں نے ہلکی سی چیخ ماری ۔ اس پر اس نے قہقہہ لگا دیا اور دوسروں کو متوجہ کر کے کہا:
” مغرب کی عورتیں کتنی نازک ہوتی ہیں....!“

مجھے ان کے احساسات کا ان کے اشاروں سے اندازہ ہوا۔

پھر اس نے بھٹہ ایک پرانے کپڑے میں جھاڑ کر مجھے دوبارہ پکڑا دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ اسے کھانے سے انکار آداب مہمانی کے منافی ہے، اس لئے میں نے ”شوق سے“ کھالیا۔ کھانے کے بعد مجھے گنے کا ایک ٹکڑا دیا گیا۔ میں نے دوسروں کو اسے دانتوں سے چھیل چھیل کر کھاتے دیکھا تاہم یہ دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ وہ اس کا صرف رس چوستی تھیں اور خشک پھوگ زمین پر پھینک رہی تھیں ،جبکہ میں اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ میں ان کی فیاضی اور شفقت سے بہت بہت متاثر ہوئی۔
تھوڑی دیربعد مجھ سے پوچھا کہ کیا میں رات کو یہاں قیام کروں گی؟
میں نے جواب دیا:” نہیں ....ہم واپس جانا چاہتے ہیں۔“

دلی طور پر تو میں ٹھہرنا چاہتی تھی ، کیونکہ وہاں” حبسِ دم میں مبتلا کرنے والے لباس“ سے آزادی ملی ہوئی تھی، مگر میرا دل کہہ رہاتھا کہ مجھے یہاں سے جتنی جلدی ممکن ہو، نکل جانا چاہئے۔ میں اب تک بھی اپنے رہبروںسے اس بارے میں بات نہیں کر سکی تھی اور نہ ہی ان کے فیصلے کا انتظار کر سکتی تھی کہ وہ کب تک یہاں سے روانگی مناسب سمجھتے ہیں۔

بہرحال خدا خدا کر کے روانگی کا وقت آگیا۔ ہم چھ افراد ایک تین فٹ اونچے ”راستے“ سے باہر نکل آئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ کوئی ”چور راستہ“تھا ۔ہم پیچھے ہٹ کر ایک پگڈنڈی پر کھڑے ہو گئے اور ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے جو تقریباً چالیس منٹ کے بعد آگئی۔ پتہ نہیں ڈرائیور کو کیسے اندازہ ہوا کہ ہم انتظار میں کھڑے ہیں، یا وہ اتفاقاً ادھر آنکلا تھا۔ جان اور اس کا چچا روڈ پار کر کے کسی واقف کار سے باتیں کرنے لگے ،لیکن اس سے پہلے اس نے میرا کندھا تھپتھپا کر کہا:
”چلیں.... بیٹھ جائیں“

ٹیکسی میں بیٹھ کر کچھ سکون محسوس ہوا۔ میں جلد پاکستان پہنچ جانا چاہتی تھی۔ گاﺅں میں جو کچھ پیش آیا تھا، اس کی وجہ سے میرے اعصاب پر بہت بوجھ پڑا تھا۔ اس لئے میں نے افغانستان میں گھومنے پھرنے کا عرصہ کم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اگرچہ اب میرے پاس مواد میری توقع سے کہیں زیادہ جمع ہو گیا تھا۔ میرے منصوبے کے مطابق جلا ل آباد میں مسکین ہی کو میری انکھوں اور کانوں کاکام دینا تھا اور دو دن کے بعد جب ہم پاکستان جاتے تو وہ ہر سنی اور ہر دیکھی ہوئی بات پاشا کو سناتا اور پاشا مجھے بتاتا،کیونکہ مسکین انگریزی سے ناواقف تھا اورمیں ”گونگی“تھی۔میںپاشا سے سن کر ان خاکوں میں اپنے مشاہدات کی روشنی میں رنگ بھرتی....اور اس طرح ایک جامع فیچر تیار ہو جاتا۔

یہاں اس بات کاذکراہم ہے کہ قارئینِ اخبار کو عام طورپر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ناشتے کی میز پر پڑے ہوئے اخبار میں چھپی ہوئی تازہ ترین خبریں تلاش کےلئے کس کس طرح سے کوشش کی جاتی ہے۔ بسا اوقات ہر سٹوری کے پیچھے ایک سٹوری ہوتی ہے ، جو اخبار میںچھپے ہوئے الفاظ کی بہ نسبت زیادہ سامانِ تفریح فراہم کرتی ہے۔

اس سڑک پر سفر بڑاجان جوکھوں کاکام تھا، ہم مسلسل دھکے کھا رہے تھے ۔کوئی ہچکولا ہمیں ایک طرف دھکیل دیتا اور کوئی دوسری طرف لڑھکا دیتا۔ ان دو میں سے چھوٹی لڑکی نے رونا شروع کر دیا اور دوسری بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی۔ اسے کیسے سونا نصیب ہوا؟.... مجھے کچھ پتہ نہیں۔

طورخم کی طرف بڑھتے ہوئے میں اپنے دیکھے تمام نقوش کو ذہن میں محفوظ کر رہی تھی۔ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میں اس ملک میں کبھی دوبارہ نہیں آسکوں گی۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ بہت اچھے لوگ ہیں اوردرجہ بھلے انسان ہیں، لیکن خود اس ملک میں میرے لئے کچھ کشش نہیںتھی۔

بالآخر ہم طورخم پہنچ گئے تو سورج غروب ہو چکا تھا، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ کتنے بجے کا وقت ہے، کیونکہ میں اپنی گھڑی ہوٹل کے سیف میں چھوڑ گئی تھی۔ میں کوئی بھی قیمتی چیز ساتھ نہیں لے گئی تھی۔ نہ رقم، نہ بُندے ، نہ جیولری اور نہ پاسپورٹ۔

میں نے سوچ رکھاتھا کہ اگر مجھے طالبان پکڑ لیں تو زیادہ امکان ہے کہ وہ مجھے پھانسی دے دیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے اس کارروائی سے پہلے میری داستان سن لی تو میں یہی کہو ں گی کہ میراپاسپورٹ اسلام آباد ایمبیسی میں ویزا کےلئے دی گئی درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔

اچانک جان نے مجھے سڑک کی جانب ایک ہونے کی ہدایت کی اور پھر میرے کندھے کو تھپتھپا کر دبی آواز میں کہا: ”بیٹھ جائیں....“

میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اپنی ساتھی عورت اور اس کی دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی۔ ہم نے پنجوں کے بل خود کو متوازن کرکے اپنے نچلے حصے کو ایڑیوں پر ٹکایا ہوا تھا ، یعنی چاروں دو شیزائیں ایک قطار میں بیٹھی تھیں۔ کوئی آدھی گھنٹے کے بعد دونوں گائیڈ واپس آئے ان کے چہروں پر سختی نمایاں تھی اوروہ خاموش تھے۔ ہم کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے اس عورت سے کچھ کہا ۔ پھرہمارایہ قافلہ واپس مڑکر ایک ہوٹل کی طرف چل پڑا۔وہاں لوگ آ جا رہے تھے اور مشتعل نظر آرہے تھے۔ مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں اندھیرے میں، اپنے برقعے کی جالی میں سے اپنی نظر ٹکانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم چھ افراد قالین سے مزین ایک کمرے میں داخل ہوئے، مگر اس میں کھڑکی تھی، نہ پنکھا اور نہ ہی روشندان۔

میں نے جان سے کہا: ”دیکھو.... تمہارے لئے یہی بہتر ہوگا کہ مجھے بتاﺅ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ یہ میرا منصوبہ اور میرا اپنا کام ہے۔ اگر تم نے مجھ سے روپے لینے ہیں تو تمہیں میرا کچھ احترام کرنا ہوگا۔ اب اسے یہ بات بتاﺅ !“ ساتھ ہی میں نے مسکین کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔

جان نے میری گفتگو اسے پہنچا دی اورپھر واپس پلٹ کرمجھ سے کہا:” اپنی آواز دھیمی رکھو.... ورنہ لوگ تم پر شک کرنے لگیں گے.... یہاں مسئلہ کھڑا ہو چکا ہے.... پاکستان نے سرحد بند کر دی ہے.... اب کوئی پتہ نہیں کہ یہ دوبارہ کب کھلے گی؟.... اگرچہ ہمارے پاس کاغذاتِ سفر موجود ہیں،لیکن ہم یہاں سے گزر نہیں سکتے.... چنانچہ ہمیں کوئی متبادل راہ اختیار کرنا پڑے گا.... کل ہم اس راستے پر چلیں گے جس پر سمگلر سفر کرتے ہیں اور سہ پہر تک پاکستان پہنچ جائیں گے....رات ٹھہرنے کے لیے ہم نے اس ہوٹل کا ایک کمرہ بک کروایا ہے۔“

یہ سب کچھ سن کرمیں غم اور غصے سے لرزنے لگی۔ میں اپنی سلامتی کے لئے بھی فکر مند تھی اور دوسروں کے لئے بھی۔ میں خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑبڑائی:
”میں اب ایسا کیوں سن رہی ہو؟.... تم نے اس خطرے سے پہلے کیوں نہیں آگاہ کردیاتھا؟.... مجھے یہ سب منظور نہیں.... ہمیں یہاں سے ہی الگ الگ راہ لے لینی چاہئے.... یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر طالبان اس وقت ہمارے تعاقب میں نہیں تو صبح ضرور ہمیں آ کر پکڑلیں گے.... گاﺅں کے کسی آدمی نے ہماری مخبری کر دی ہو گی۔“

میراجوب سن کرجان پریشان ہو گیا، کیونکہ اسے دکھائی دے رہا تھا کہ میں برہم ہو چکی ہوں۔ وہ بولا: ”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاﺅں کا کوئی آدمی ہم سے دغا بازی نہیں کرے گا۔ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہئے ۔ آپ رات کے ان لمحات میں اکیلی کہیں بھی نہیںجا سکتیں.... اور نہ ہی دن کو کہیں جا سکتی ہیں۔“

میں نے فوراً جواب دیا:”یہ بڑا خوفناک دور ہے.... گاﺅں کا کوئی بھی شخص حکومت کی نظر میں جچنے کے لئے طالبان کو اطلاع دے سکتا ہے.... اگر وہ ہمیں تلاش کررہے ہوئے تو وہ دو مردوں، دو عورتوں اور دو بچوں کو یکجا، تلاش کر رہے ہوں گے.... اسی لیے تو کہتی ہوں کہ ہمیں ضرور منتشر ہو جانا چاہئے اور اس فیملی کو چھوڑ دینا چاہئے.... اس طرح ہم محفوظ ہو جائیں گے۔“

وہ پھر مسکین کی طرف متوجہ ہوااور اس کے بعدوہ دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔ مجھے کسی کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر غائب رہے۔ میں انتظار کے سوا کیا کر سکتی تھی؟ انہوں نے میری باتیں ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے اڑا دیں۔ بلکہ مجھے نظر انداز کر نا شروع کر دیا۔ میں ایک کونے میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی اور برقعے کو عبا کے ٹوپ کی طرح سر پر لے لیا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ”ہیرو“ کچھ پینے کی چیزیں لیے واپس آ گئے ۔ میں نے کھانے سے انکار کر دیا۔ مجھے بیت الخلاءجانے کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی، دن بھر نہ جا سکی تھی۔ میں نے جان سے پوچھاکہ مجھے اس کیلئے کہاں جانا ہوگا؟اس نے مجھے باہر لے جاکر سڑک کے پار اندھیری سی جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے تو وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ پھر خیال آیا کہ اس کا مطلب نیچے کھائی میں اتر کر اندھیرے میں پیشاب کرنے سے ہوگا۔لیکن میں نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔افغانستان میں سانپوں،بچھوﺅں اور دیگر زہریلے کیڑوں کی بہتات ہے۔ میں ایسا کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہتی تھی۔

میں تیزی سے واپس جا رہی تھی ۔ جان نے سرگوشی کے سے انداز میں مجھے آہستہ چلنے اور اس کے پیچھے پیچھے آنے کےلئے کہا۔ میں اکثر بھول جاتی تھی کہ مجھے ایک ”افغان“ عورت کی چال ڈھال اختیار کر نی چاہئے۔ واپس آکر میں ایک کونے میں ڈھیر ہو گئی۔ مچھر میرے ہاتھوں پر مسلسل کاٹے جا رہے تھے، کیونکہ وہ ڈھکے ہوئے نہ تھے۔ رات بہت آہستہ آہستہ گزر رہی تھی، میں سونے کی کوشش کرتی رہی مگر ماحول کی کراہت اور خوف نے مجھے جگائے رکھا۔ میں سوچتی رہی کہ میرے دفتر کا ہر فرد کام پر مزے سے آتا ہوگا اور پھر ڈیوٹی پوری کرکے گھر چلا جاتا ہوگا ۔پتہ نہیں کسی کو میرے اس مختصر سفرِ افغانستان سے کوئی دلچسپی ہوگی یا نہیں؟

پھر میں اگلے ہفتے کے پروگرام کے بارے میں سوچنے لگی۔ میں نے قندھار جانے کا تہیہ کر رکھا تھا ۔
اس وقت جنگ کا آغاز ہو چکا ہوگا اور مجھے بے شمار کاپیاں لکھنی ہوا کریں گی۔ میرے ذہن میں کئی خیالات کلبلا رہے تھے اور میں گرمی اور پسینے میں ڈوبی خود کلامی کر رہی تھی۔ پتہ نہیں ان لوگوں نے اس جگہ کو ہوٹل کا نام کیوں دے رکھا تھا، جس میں نہ روم سروس تھی ، نہ غسل خانہ تھا اور نہ بیت الخلاءبنانے کا تکلف کیا گیا تھا۔

صبح تقریباً پانچ بجے کا وقت تھا ،جب ہم حرکت میں آگئے اور باہر نکل کر ایک اور ٹیکسی میں سوار ہوگئے۔چندلمحوں بعد یہ ٹیکسی کوہ ہندوکش کے ساتھ ساتھ دوڑ رہی تھی۔ یہاں سڑکیں نہیں بلکہ پرانے لگے ہوئے روٹ تھے۔ ڈرائیور اس وقت تک چلاتا رہا جب تک اس کی سیلون کار چلتی رہی، پھر ہم اترکر ایسی جگہ پہنچے جہاں سے ایک پتھریلا پہاڑی درہّ دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں رہبر نماز پڑھنے چلے گئے۔ میں نے ہمراہی عورت کو اشارہ کرکے سمجھایا کہ مجھے بیت الخلاءجانے کی ضرورت ہو رہی ہے۔ چوبیس گھنٹے میں نے خود پر کافی جبر کیا تھا، اب مجھے اپنا پیٹ پھٹتا محسوس ہورہا تھا۔ اس نے چٹانوں کی طرف اشارہ کیا اور میں وہاں جا کر قضائے حاجت کےلئے بیٹھ گئی۔

اسی دوران میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو ایک شوٹ کرتا ہوا ستارہ نظر آیا۔ میں نے دوبارہ ستارے کو دیکھا اور اس کے بخارات میں تبدیل ہونے کا انتظار کرنے لگی، لیکن یہ غائب نہ ہوا۔ میں نے برقعے کا سامنے والا حصہ اٹھا کر ما تھے پر رکھا اور ستار ے کو پھر غور سے دیکھنے لگی۔

”اُف میرے خدایا! یہ تو بدبخت سیٹلائٹ (مصنوعی سیارہ) ہے جو کیمرے کی آنکھ کی طرح نیچے حیاتِ دنیا کی تصویریں سمیٹ رہا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں یہ فوجی سےٹلائٹ ہے یا کمرشل؟ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، یہ یقیناً کسی قسم کا سیٹلائٹ تھا، نہ کہ ستارہ....

میں نے اپنا چہرہ پھر برقعے سے ڈھانپا، کھڑی ہو کر پیچھے مڑی اور منہ کے رُخ سیدھی اس عورت کی طرف چل پڑی۔

چند منٹ بعد میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ہم پیدل ہی تنگ درّے کی چڑھائی چڑھ رہے تھے اور میں نے جو پلاسٹک کے بوٹ پہنے ہوئے تھے انہوں نے میرے پاﺅں کی جلد کو اپنے نوکدار دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ میری دائیں ایڑی پر پڑا ہوا آبلہ پھٹنے کی وجہ سے دردکی شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

مجھے یقین تھا کہ اس چڑھائی کی تکلیفوں سے میں اکیلی ہی دوچار نہیں ہوئی بلکہ اس روٹ کو اختیار کرنے والا ہر فردہی کسی شکوہ شکایت کے بغیر خاموشی سے صعوبتیں جھیل رہا ہے۔ پاکستان کی یہ ”سوراخ دار“ سرحد چودہ سو میل لمبی ہے اور اس میں تقریبا چار سو غیر قانونی راستے ہیں۔

جب سورج کی کرنیں پھوٹیں تو میں نے دیکھا کہ ہندوکش کے سلسلہ کوہ کے شاندار ڈھلوانوں پر پھرتیلے قبائیلیوں کی کئی ٹولیاں نمودار ہو رہی ہیں جو بڑی آسانی س بارڈر پر ادھر سے ادھر آ جا رہی ہیں۔ لوگ کھڑی چٹانوں پر بھی ہرنوں کی سی پھرتی سے چڑھ رہے ہیں۔ انہیں اوپر سے ہم جیسے لوگ پست ہمت اور بزدل لگ رہے ہونگے۔

جب ہم ”دوربابا“نامی علاقے میں پہنچے تو بہت سے لوگوں کو گھومتے ہوئے پایا۔ مرد زیادہ تھے اور عورتیں کم.... اونٹ گاڑیاں اور گدھا گاڑیاں.... سمگل شدہ مال و اسباب اور انسانوں کو سرحدپار پہنچانے کےلئے قطاروں میں کھڑی تھیں۔ میں نے مہاجرین کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن صرف چند ایک ہی دکھائی دے سکے۔ میں سوچ رہی تھی کہ چند روز پہلے طورخم پر جو لاکھوں مہاجرین جمع تھے، ان کا کیا بنا؟

شاید! ان میں سے چند ایک جنوب میں کوئٹہ کی طر ف چلے گئے ہوں ؟

میں نے ایک بار پھر جان کے کندھے کو تھپتھپایا اور اسے ساتھ لے کر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر ایک د ل آویز مسکراہٹ اُبھری۔ میں اسے ایک روز پہلے کے کھردرے روےے پر تقریباً معاف کر چکی تھی۔ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
”ایون! تم اب محفوظ ہو گئی ہو، چاہو تو برقع اٹھا سکتی ہو.... تاہم چہرے کو چھپائے رکھنا.... اگر کوئی تصویریں بنانا چاہوتو وہ بھی بنا سکتی ہو.... کل رات کی پریشانیوں پر مجھے افسوس ہے .... تمہیں گرمی نے بہت ستایا تھا ....اب ہم پاکستانی بارڈر تک بیس منٹ سے بھی کم وقت میں پہنچ جائینگے.... تمہیں اب سواری کےلئے گدھا ملے گا۔“

اس پر میں نے اطمینان کا گہرا سانس لیا، کیونکہ ان جوتوں میں تو میرے لئے ایک اور قدم اٹھانا بھی ناممکن ہو گیاتھا۔ یہ جوتے مجھے ایک دن پہلے دئیے گئے تھے۔ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھی رہی اور برقع اٹھایا تو میرے چہرے کو ٹھنڈی ہوا نصیب ہوئی۔

میری ہمراہی عورت، ذرا فاصلے پر اپنی چھوٹی بیٹی کوساتھ لیے بیٹھی تھی۔ میں نے اس کی تصویر لینے کےلئے اشارہ کیا تو وہ راضی ہو گئی۔ اس ماں بیٹی کا بڑا خوبصورت فوٹو بنا۔ پھر مڑ کر میں نے”دوربابا“ کی پہاڑیوں میں پھیلی ہوئی تاجروں، سمگلروں، مہاجرین اور قبائیلیوں کی بدنظمی کے مناظر محفوظ کرلئے۔

جان مجھے ایک گدھے کی طرف لے گیا۔ میں ایک قدرے بلند جگہ پر کھڑی ہو کر اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئی۔ اس دوران ایک پائنچہ اٹھنے کی وجہ سے میرا ٹخنہ ننگا ہو گیا،مگر شکر ہے کہ جرابوں کی وجہ سے ڈھکا رہ گیا۔ میں نے اپنے کپڑے اور برقع درست کیااوراپنے آپ کوسنبھالنے کی کوشش کی۔لیکن کمبخت گدھے نے اچانک ہی آگے کی طرف جست لگا دی جیسے وہ بجلی کا کوندا ہو....اور میرے منہ سے بے ساختہ انگریزی کی ایک گالی نکل گئی۔

دو دن میں یہ پہلی بار ایک بازاری لفظ میری زبان پر آیا تھا۔ چونکہ یہ پشتو کا لفظ نہ تھا ،اس لئے بہت سے لوگوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا ، اگرچہ وہ سمجھ نہیں سکے تھے کہ میں نے یہ کیا کہا ہے، لیکن اصل میں جس چیز سے چونکے تھے، وہ ایک برقع پوش عورت کا ”شور“ تھا۔افغان عورتیں اونچی آواز میں نہیں بولتیں۔ان سے ہمیشہ خاموشی اور مسکینی کی توقع کی جاتی ہے۔

کچھ لوگ میرے منہ سے شور نکلنے سے پہلے ہی میری طرف متوجہ تھے ،شید انہیں میری چال ڈھال مشکوک لگ رہی تھی۔ بہرحال گدھے کی اس حرکت کے بعدجب میرا حوصلہ کچھ بڑھا تو میں اُس کی لگام پکڑنے کے لیے آگے کو جھکی۔بس عین اُسی لمحے.... میرا کیمرہ پوری طرح دکھائی دے گیا....اوربالکل قریب ہی کھڑے ایک افغان سپاہی نے فوراً شور مچاتے ہوئے.... مجھے گدھے سے اترنے کا حکم دیا۔

میں اس سپاہی کی شخصی وجاہت کو کبھی نہ بھول پاﺅں گی۔ اس لئے نہیں کہ وہ مجھے گرفتار کرنے والا تھا ، بلکہ اس لئے کہ زمرّد کی طرح کی ایسی سبز آنکھیں میں نے پہلی بار دیکھی تھیں۔ میری یہ بات خواہ کتنی ہی عجیب و غریب لگے، میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ، میں اس کے پُرجلال خدوخال سے لمحہ بھر کےلئے مسحور کررہ گئی....اورمیراکیمرہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کرزمین پر جا گرا۔

اس سپاہی نے مجھ سے گدھا چھین لیا اور مجھے کیمرہ اُٹھانے کا حکم دیا۔ میں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اس نے جھپٹا مار کر وہ بھی مجھ سے لے لیا۔پھر اس نے گدھے کے مالک سے بھی سختی سے کچھ پوچھا، جس نے جواباً میرے ایک رہبر کی طرف اشارہ کیا۔ سپاہی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا، اس کے پاس گیا، چند سوال پوچھے اور اپنے اُلٹے ہاتھ سے اس کے چہرے پرتھپڑوں کی بارش کر دی۔

جان اپنے ساتھی کے دفاع کےلئے آگے بڑھا اور اسکی صفائی میں کچھ کہا، مگر سپاہی نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے اس کو مارنے اور ڈانٹنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر بہت سے لوگ، جن کی تعداد دو سوسے کچھ زیادہ ہوگی، اکٹھے ہو گئے اور ماجرا پوچھنے لگے۔اس دوران میں پیچھے ہٹتے ہٹتے کافی دور چلی گئی۔ میں چند منٹوں کے لئے حالات پر غور کرتی رہی، پھر سوچا کہ میں تیزی سے سرحدپارکرجاؤں، کیونکہ طالبان کواس وقت زیادہ غرض میرے رہبروں سے ہے۔میں دوسروں کے پیچھے لگ کر نکل جاﺅں گی ،کیونکہ میں نے برقع اوڑھا ہوا تھا اور اب تک نظروں سے اوجھل رہی تھی۔

مگر ایسا کرنامیرے لئے ممکن نہ تھا۔میں اپنے دو گائیڈوں کو یوں پیچھے چھوڑ کر کےسے جا سکتی تھی؟میری ہمراہی عورت اپنی لڑکی سمیت خاموشی سے غائب ہو چکی تھی۔

میں ہجوم میں سے راہ بناتی ہوئی، سپاہی کے پاس گئی اور اپنا کیمرہ واپس مانگا ۔

سبز آنکھوں والا سپاہی شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ دراصل مجھے بھول چکا تھا اور میں جو زبان اُس کے سامنے بول رہی تھی وہ اس کے لیے عجیب عجیب و غریب تھی۔ اسی دوران مزید طالبان بھی آچکے تھے اور سب مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ انگریز عورت کہاں سے آئی ہے؟

چندلمحوں بعد سرخ بالوں والے ایک طالب سپاہی نے مجھے کیمرے سمیت پکڑ کر کار میں جا بٹھایا۔یوںمیں نے خود گرفتاری دیدی.... کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے بے گناہ رہبر پکڑے جائیں اور میں صفائی کے ساتھ بچ نکلوں۔

اب جیسے ہی وہ کار مجھے پاکستانی سرحد کے قریب سے لے کر روانہ ہوئی تو میں ٹھٹھر کر رہ گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مفلوج ہو چکی ہوں ۔ میں آئندہ کے لئے کوئی کارگر لائحہ عمل سوچ رہی تھی وراپنے دل کی دھڑکنیں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں۔

اتنے میں نیم خود کار گن کی فائرنگ ہوئی اور فضا میں اچانک ارتعاش پید ہو گیا، اس کے ساتھ میرے خیال کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔ ہماری کار ایک کانوائے کا حصہ بن گئی جس کی قیادت ایک بس میں بھرے ہوئے نوجوان فوجی کر رہے تھے اور وہ فاتحانہ انداز میں چیخ رہے تھے:
”امریکی جاسوس ، امریکی جاسوس“
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 154761 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More