ڈوبتی ہوئی معیشت اور عام انتخابات

امریکہ میں 6نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اوبامہ کی چار سالہ معاشی کارکردگی اور میٹ رومنی کا چار سالہ معاشی وژن اور پالیسی امریکہ کے 45ویں صدر کے انتخاب میں اہم کردار ادا کرے گی ۔ کسی بھی ملک کے تمام معاملات اور انتظامات میں معیشت سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ چونکہ ملک کے تمام امور کا تعلق معیشت کی صحت سے ہوتا ہے اس لیے کسی بھی سیاستدان کے معاشی ویژن اور پالیسی سے ملک کے دوسرے امور کے بارے میں اس کے ویژن اور پالیسی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ معیشت کا برائے راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اس لیے کسی بھی سیاستدان یا سیاسی پارٹی کی معاشی کارکردگی اور معاشی وژن سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عوام سے کتنی مخلص ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاستدان کا معاشی منشور اور لائحہ عمل عام انتخابات میں اس سیاسی جماعت یا سیاستدان کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ باشعور قومیں سیاستدانوں کی خراب معاشی کارکردگی پر زبردست ردِ عمل کا اظہار کرتی ہیں اور ان کا محاسبہ کرتی ہیں۔ پچھلے سال اٹلی اور یونان کے وزرائے اعظم کو خراب معاشی کارکردگی پر اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاستدان معاشی مسائل اور ان کی پیچیدگیوں سے بالکل ناآشناں ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران صرف رٹی رٹائی باتیں کی جاتی ہیں۔ عوام پر تقریر کا ڈھاک بٹھانے کے لیے کچھ اعداد و شمار کا بھی زکر کر دیا جاتا ہے ۔ یہ تقریریں صرف سیاسی وعددوں اور نعروں تک ہی محدود رہتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے اور سیاستدان اس سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت کی تصویر کشی کرتے ہوئے صومالیہ اور کانگو کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ بہت سے اہم ملکی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل ملز جیسے منافع بخش اداروں کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ غربت اور بے روز گاری میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ 50فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ WFPکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد لوگ روزانہ رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ دوسری طرف ناجائز منافع خوروں کو غریب عوام کا خون چوسنے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

لوڈ شیڈنگ اور گیس کی نافراہمی کی وجہ سے کئی کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بے روز گاری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کئی صنعتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 50فیصد سے زیادہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے۔ زراعت کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ اشیاءکی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ روپیہ کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ حکومت مزید نوٹ چھاپ کر خسارہ پورا کر رہی ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ موجودہ مالی سال میں IMFکو قرضے کی اڑھائی ارب ڈالر کی قسط ادا کرنے کے بعد اس میں مزید کمی واقع ہو گی۔

ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حالات نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ناساز گار ہیں بلکہ ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی موزوں نہیں۔ ہر طرف جمود ہی جمود ہے۔ گویا معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

عالمی بینک کی حالیہ جاری کردہ اکانومک رینکنگ میں پاکستان 185ملکوں کی فہرست میں 107 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان کا کل قرضہ12کھرب سے تجاوز کر گیا ہے۔ مالی سال 2012-13ءمیں ان قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کے لیے جی۔ ڈی۔ پی کا 19فیصد مختص کیا گیا ہے۔ عالمی ادارے پاکستان کو ڈوبتی ہوئی معیشت کے بارے میں مسلسل خبردار کر رہے ہیں۔ IMF نے عالمی معاشی رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ملک میں عام انتخابات کا موسم بھی قریب ہے۔ الیکشن روڈ میپ کا اعلان ہو چکا ہے۔ ان تمام معاشی حالات کے پیش نظر سیاستدان کس منہ سے عوام سے ووٹ کا مطالبہ کریں گے۔ نہ تو ان کے پاس کوئی موثر اور جاندار معاشی وژن ہے نہ کوئی معاشی کارکردگی۔

2007-08ءکی طرح موجودہ مالی سال بھی تین حکومتیں دیکھے گا یعنی موجودہ، نگران اور نئی حکومت۔ 2007 تک معیشت میں جو تھوڑی سی بہتری آئی تھی اسے 2008 کے بعد غیر مستحکم کر دیا گیا جو کہ ابھی تک لڑ کھڑا رہی ہے۔ موجودہ معیشت تو پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اس کے ساتھ ہونے والا سلوک 2013ءمیں سامنے آئے گا۔ ماہرین معاشیات کی رائے میں موجودہ مالی سال میں عام انتخابات کی وجہ سے معیشت کو مزید دھچکہ لگنے کا خدشہ ہے۔ 2012-13ءمیں 3فیصد خسارے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جو کہ ماہرین کے مطابق 8فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

65سالہ تاریخ میں فوجی حکومت اور جمہوری حکومت کی معاشی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو آمر کی معاشی کارکردگی جمہوری حکومت کی کارکردگی سے بہتر نظر آئے گی۔ ایوب کا دور ملکی تاریخ میں خوشحالی اور ترقی کا سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مشرف کے دور حکومت میں بھی معیشت کی حالت کافی بہتر تھی۔

سیاستدانوں کا سب کچھ جمہوریت سے وابستہ ہے لیکن جمہوریت کی مضبوطی کے لیے معیشت کی مضبوطی بہت ضروری ہے۔ اگر حالات اسی طرح جاری رہے تو پاکستان کو بھی یونان جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یونان کو تو یورپی یونین اور IMF نے بچا لیا لیکن پاکستان کو کون بچائے گا۔ پاکستان کو جن اداروں سے امید ہے وہ پہلے ہی پاکستان کو مزید قرضے اور فنڈز دینے سے انکار کر چکے ہیں۔ ملکی معیشت کا براہ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے۔ غیر مستحکم معیشت کی وجہ سے غربت ، بے روز گاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ غربت ، بے روز گاری اور مہنگائی نے تاریخ میں بڑے بڑے انقلاب برپا کیئے ہیں۔ پچھلے سال عرب میں برپا ہونے والے انقلاب کے پیچھے بھی یہ ہی محرک کار فرما تھے۔ تیونس میں بے روز گاری کی وجہ سے ایک نوجوان کی خود سوزی سے شروع ہونے والے احتجاج نے پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی طرح 1879ءمیں فرانس میں آنے والے انقلاب کے پیچھے بھی غربت ، بھوک اور افلاس تھی۔ اگر پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو ان کا حشر بھی یمن، مصر ، تیونس اور فرانس کے حکمرانوں سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔
Haris Abrar
About the Author: Haris Abrar Read More Articles by Haris Abrar: 4 Articles with 5104 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.