1947سے 2012تک۔ ہنوز پاکستان سے
الحاق کی منتظر۔
ابھی تک کسی پاکستانی حکمراں نے ریاست جونا گڑھ کو پاکستان میں شامل کرنے
کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی سوائے بیان بازی کے۔ جونا گڑھ اسٹیٹ کے موجودہ
نواب،نواب جہانگیر خان جی اب تک پرُ امید۔ مگر حکومتیں ہر دور میں سوئی
رہیں ۔
حکومتی سطح پر اس معاملے کو جموں و کشمیر کی طرح بین الاقوامی سطح پر اجاگر
کئے جانے کی ضرورت ہے۔
جونا اسٹیٹ کی کئی سو سالہ سنہری تاریخ خوشحالی اور امن و امان کا منہ
بولتی تصویر پیش کرتی ہے۔
9 نومبر 1947کو بھارت کی فوجوں نے زبر دستی ریاست جونا گڑھ پر قبضہ کرلیا
اوراپنی فوجیں ریاست جونا گڑھ میں اتار دیں اس وقت ریاست جونا گڑھ کے نواب
،نواب محمد بہادر خان تھے جو کہ اپنے خاندان کے ساتھ بانی پاکستان قائدِ
اعظم محمد علی جناح کے ملنے اور پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے
پاکستان آئے ہوئے تھے ۔بھارت کے اس غاصبانہ قبضے کے باعث واپس اپنی ریاست
میں نہ جا سکے ۔اور ان کے خاندان کے افراد نے پاکستان کی محبت میں اپنے
آبائی وطن کو ترک کر کے پاکستان میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی اور
اپنے وطن کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی خواہش پر پاکستان میں رہ بس گئی
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ریاست جونا گڑھ کے20) (
بیس لاکھ افراد رہائش پزیر ہیں اس امید میں کہ کبھی بھارت ریاست جونا گڑھ
سے اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کرے تو یہ پاکستان کی محبت سے سرشار افراد اپنی
ریاست میں واپس جا کر جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ بنائیں جو کہ ان کا
دیرینہ مطالبہ بھی ہے اور ان کا حق بھی۔
ریاست کی زمین اورنواب کے محلات پر قبضہ کے بعد محلات سیل کر دیئے گئے جس
کے باعث محلات تباہی اور بربادی کی منہ بولتی داستان دنیا کے سامنے گزشتہ
66سالوں سے سنا رہے ہیں ۔اس ضمن میں نواب ریاست آف جونا گڑھ نے اپنا مقدمہ
یونائیٹڈ نیشنز آرگنائیزیشن میں بھی دائر کیا مگر ابھی تک ہنوز مقدمے کا
فیصلہ نہیں آیا ۔یاد رہے کہ1947 میںآزادی کے وقت ریاست جونا گڑھ کی آبادی
مسلم اکثریت پر مشتمل تھی جس کی بنیاد پر یہ ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق
کی متمنی تھی جو کہ فطرت کے بھی عین مطابق تھا کیونکہ پاکستان دو قومی
نظرئے کی بنیاد پر ہی وجود میں آیا تھا اور اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ جو
مسلم اکثریت والے علاقے ہونگے وہ تمام کے تمام پاکستان میں شامل کئے جائیں
گے اور جو ہندو اکثریتی علاقے ہونگے انہیں بھارت میں ضم کیا جائے گا اب جو
ہندو اکثریتی علاقے تھے انہیں تو بھارت نے اپنے ساتھ شامل کرلیا اور جو
مسلم اکثریتءعلاقے تھے ان میں سے کئی غاصبانہ طور پر بھارت نے اپنے ساتھ
شامل کرلئے حالانکہ ان اکثریتی علاقوں کے عوام اور نوابین پاکستان کے ساتھ
الحاق چاہتے تھے اسی طرح ریاست جونا گڑھ بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کی
قرارداد منظور کرکے اس وقت بھی ملکہ الزبتھ اور لارڈ ماوئنٹ بیٹن کے پاس
بھیج چکے تھے اور لارڈ ماوئنٹ بیٹن اور ملکہ کے جوابی خطوط کی نقول بھی
موجودہ نواب جہانگیر خان جی کے پاس موجود ہے ۔مگر ہوا اس کے برعکس بھارت نے
کئی مسلم اکثریتی علاقوں کو بزور بازو غاصبانہ طور پر اپنے ساتھ شامل کرلیا
جس کی دو مثالیں مقبوضہ جموں و کشمیر اور ریاست جونا گڑھ ہیں ریاست جونا
گڑھ تقریباََ 4600 مربعہ میل پر مشتمل ہے جونا گڑھ کی کئی سو سالہ تاریخ ہے
اور اس طویل تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ریاست کی خوشحالی اور امن و امان کا
منظر نمایاں ہوتا ہے ,ریاست جونا گڑھ کے پہلے نواب بہادر خان جنہیں اس وقت
کے ہندوستان کے بادشاہ شاہ محمد شاہ نے شیر خان کے خطاب سے بھی نوازا 1748
سے 1758 .تک سریر آرائے سلطنت رہے اس کے بعد جو نوابین گزرے ان پر بھی ایک
نظر ڈالتے ہیں ۔
نواب محمد بہادر خان(1748 A.D To 1758 A.D)
نواب محمد مہابت خان(1758 A.D To 1774 A.D)
نواب محمد حامد خان(1774 A.D To 1811 A.D)
نواب محمد بہادر خان دوئم (1811 A.D To 1840 A.D)
نواب محمد حامد خان دوئم(1840 A.D To 1851 A.D)
نواب سر محمد مہابت خان دوئم(1851 A.D To 1881 A.D)
نواب سر محمد بہادر خان سوئم(1882 A.D To 1892 A.D)
نواب سر محمد رسول خان بابی(1892 A.D To 1911 A.D)
مسٹر ایچ ڈی رینڈل ایڈمنسٹریٹڑ آف جونا گڑھ(1911 A.D To 1920 A.D)
کرنل نواب محمد مہابت خان جی(1920 A.D To 1959 A.D)
کرنل نواب محمد دلاور خان جی سابق گورنر سند ھ(1976)(1977) (1959 A.D To
1989 A.D)
نواب محمد جہانگیر خان جی(1990 A.D )سے اب تک
ولی عہد نواب زادہ علی مرتضیٰ خان جی
1748سے لے کر 2012تک کئی نسلیں نوابین کی جونا گڑھ اسٹیٹ کی حکمران رہیں
آزادی ہند اور آزادی پاکستان کے بعد بھارت کے9 نومبر1947میںغاصبانے قبضے کے
بعد کا دور بھی نوابین کی تین نسلوں پر محیط ہوچکا ہے ۔مگر آزادی کا اب تک
کوئی امکان نہیں پاکستان کی کسی بھی حکومت نے ریاست جونا گڑھ کی آزادی کے
لئے بیان بازیاں تو بہت کیں مگر کسی بھی حکومت نے ریاست کی آزادی اور
پاکستان سے الحاق کی کوئی بہت زیادہ سنجیدہ کوششیں نہیں کی جس کی وجہ سے
ریاست پر آج تک بھارت قابض ہے۔آج بھی اگر پاکستان حکومت چاہے تو اس معاملے
کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے اور پاکستان کے اندر ریاست جونا
گڑھ کی ایک عبوری جلا وطن حکومت قائم کر کے یونائیٹڈ نیشنز میں بھر پور
طریقے سے مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔
جونا گڑھ اسٹیٹ کی بحالی کے لئے جونا گڑھ سے تعلق رکھنے والی کئی
جماتیںنواب جہانگیر خان جی کی قیادت میں ہر سال ۹ نومبر کو یومِ سیاہ مناتی
ہیں اور اقوامِ عالم کو اپنی تباہی اور بربادی کے قصے سناتی ہیں اس امید پر
کہ کبھی تو انہیں بھی آزادی نصیب ہو گی اور وہ بھی پاکستان میں الحاق کے
بعد اپنے وطن واپس جاسکیں گے۔ |