دفاعی نمائش اور دہشت گردی کی تازہ لہر

کراچی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2012 پانچ روز بعداپنے شیڈول کے مطابق اتوار 11نومبر کو ختم ہوگئی لیکن کراچی میں جاری آتش و آہن کا خونی کھیل بدستورجاری ہے۔

اس نمائش کے پانچ دنوں کے دوران شہر میں 63 افرادنامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوئے لیکن کسی ایک قاتل کو بھی گرفتا ر نہیں کیا جاسکا۔

میں سوچ رہا ہوں کہ جب دنیا بھر سے اہم وفودکراچی آ رہے تو انہوں نے جدید اسلحہ کی نمائش کے ساتھ اسلحہ کے کھلے عام استعمال کی ہولناک خبریں بھی سنیں ہونگی۔ایسی اطلاعات کی بازگشت میں پرامن اور پرسکون ماحول میں رہنے والے ان غیر ملکی معززین کے دل و دماغ پر کیا کچھ گذرا ہوگا؟ وہ کراچی کے لوگوں کو آتش و آہن کے ماحول میں رہنے پر داد دئیے بغیر بھی نہیں رہ پارہے ہونگے ساتھ ہی ان سے ہمدردی اورکراچی میں قیام کے دوران اپنی جانوں کے تحفظ کی دعائیں بھی مانگ رہے ہونگے۔

ممکن ہے وہ سوچ رہے ہوں کہ شائد اس شہر میں کوئی حکومت یا حکومت کا کنٹرول نہیں ہے؟ ان غیرملکیوں کے ذہن میں یہ بات بھی آئی ہوگی کہ اس شہر کے بارے میں تو متحدہ قومی موومنٹ کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ اس کا شہر ہے اور اس پر اس کا مکمل کنٹرول بھی ہے؟ انہوں نے یہاں آنے سے قبل یا بعد میں یہ بھی تو سنا ہوگا کہ اس شہر پر حکومت کی تین اہم اتحادیوں پیپلزپارٹی، متحدہ اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت ہے۔مجھے اندازہ نہیں کہ ان غیر ملکیوں نے قائد اعظم کے اپنے شہر کی تشویشناک صورتحال پر اور حکمرانوں کے کردار بارے میں کیا تاثر لیا ہوگا؟

دفاعی نمائش کے پانچ روز کے دوران کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب شہر میں گولیاں نہ چلیں اور لاشیں نہ گری ہوں۔پہلے روز یعنی 7نومبر کو گیارہ، دوسرے دن پندرہ ، تیسرے دن نو چوتھے دن سولہ اور پانچویں و آخری روزبارہ افراد ٹارگیٹ کلنگ کے عنوان سے مارے گئے۔

ان پانچ دنوں میں کیا کسی غیر ملکی مہمان نے متحدہ کے وزراءسے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ یہ آپ کے کنٹرول والے شہر میں کیوں اور کیسے ہورہا ہے؟کسی نے بھی اے این پی سے نہیں معلوم کیا ہوگا کہ یہ کون لوگ ہیں جو سرے عام لوگوں کو مارکر چلے جاتے ہیں اور آپ کی حکومت کچھ بھی نہیں کرتی؟کیا کسی نے بھی پیپلز پارٹی کے وزراءسے یہ دریافت نہیں کیا کہ آپ کی حکومت کے ہوتے ہوئے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کیوں نہیں ہے؟آخر آپ لوگ کیوں حکومت کررہے ہیں؟ بھٹو کا فلسفہ تو روٹی کپڑا اور مکان تھا مگر آپ کے دور میں توصرف لوگوں کی جانیں جارہی ہیں؟انہیں تحفظ دینے میں ناکام حکومت روٹی ، کپڑا اور مکان بھلا کیسے دے سکتی ہے؟

دفاعی نمائش ختم ہوگئی لیکن کراچی کے شہریوں کے تحفظ کے لیئے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔

نئے انتخابات ہونے والے ہیںتاہم مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت میں رہ کربھی لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوجانے والی متحدہ قومی موومنٹ،عوامی نیشنل پارٹی اور خود پیپلز پارٹی دوبارہ عوام کے سامنے کس منہ سے جائے گی؟متحدہ کے رہنماءبابر غوری کی بیٹی سے گذشتہ دنوں کا ر چھینی جاچکی ہے اوراے این پی کے بشیر جان پر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے جبکہ دونوں جماعتوں کے متعدد رہنماءو سینکڑوں کارکن اور عام افراد نامعلوم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں اس کے باوجود حکومت کا ساتھ دیا جارہا ہے، آخر کیوں؟عوام اور خود ان جماعتوں کے کارکن یہ سوچنے پر حق بجانب ہیں کہ اگر حکومت میں رہنا اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا ہی اصل مقصد ہے تو پھر آنے والے انتخابات میں کسی دوسری جماعت کو ووٹ دیکر کیوں نہ دیکھ لیا جائے؟ ۔متحدہ کئی ایشوز پر متعدد مرتبہ احتجاج اور حکومت سے علیحدگی کی لیئے ایلٹی میٹم بھی دیتی رہی لیکن اس کے باوجود کیا متحدہ کے مطالبات تسلیم کیئے جارہے ہیں یا کیئے گئے ہیں؟جب مسلسل حکومت اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے باوجود متحدہ ،اس کے کارکنوں اور اس کے حمایتوں کو کچھ نہیں مل رہا تو پھر حکومت میں رہنے کا کیا جواز ہے ؟ متحدہ وہ جماعت ہے جس نے آمر جنرل پرویز مشرف کا بھی نو سال تک ساتھ دیا اور اب جمہوریت کے استحکام کے لیئے حکومت میں رہنے کی وجہ بیان کرتی ہے؟نو سال آمر کے ساتھ رہنے کے بعد اچانک جمہوریت کی عاشق ہونے والی متحدہ کو کہیں دوبارہ کسی آمر سے محبت ہوگئی تو کیا ہوگا؟یہ بھی ہوکتا ہے کہ جمہوریت سے عشق کے نام پر موجودہ آمر یت سے بدتر جمہوریت کے معشوق سے ہی چمٹی رہے تو پھر آنے والے دنوں میں ایسا کیا ہوگا جو اس پونے پانچ سال کے دور ان اب تک نہیں ہوا ؟ممکن ہے وہ کسی نئے نعرہ کا سہارہ لیکرآنے والے دنوں میں دوبارہ کسی نئے آمر کا ساتھ دینا شروع کردے ۔اسی طرح اے این پی ہزاروں شکوے شکایتوں کے باوجود وفاق میں پیپلز پارٹی کا حصہ بنی ہوئی ہے ماسوائے علامتی احتجاج کے وہ کوئی اور قدم حکومت کے خلاف نہیں اٹھاتی یا جمہوری حق ادا نہیں کرتی ۔۔آخر کیوں؟مذکورہ دونوں جماعتوں کی ایسی کیا مجبوریاں ہیں یا ایسے کون سے فوائد ہیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا آخری وقت تک ساتھ نہیں چھوڑ ا؟اس بات کی وضاحت مذکورہ جماعتوں کے غیرت مند اور حق پرست رہنماﺅں کو ابھی نہیں تو انتخابات کی مہم کے دوران دینا ہوگا۔ان سوالات کے اطمینان بخش جوابات تک ان کی مستقبل میں کامیابی مشکوک رہے گی۔

انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے” قائداعظم کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان “کے نعرے کے ساتھ ہی طالبان بھی کھل کر سامنے آگئے اور ان طالبان کا یہ بیان ہی شہریوں کے سمجھنے کے لیئے کافی تھا کہ وہ متحدہ سے بدلہ لیں گے ۔کراچی کے لوگ ان دونوں بیانات کے بعد سے ہی خوفزدہ رہنے لگے تھے انہیں ڈر تھا کہ آنے والے دنوں میں شہر میں خون ریزی کے واقعات بڑھ جائیں گے ۔ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے وہ شہریوں کے خدشات کے مطابق ہی نہیں تو اور کیا ہے؟

مگر” حکومت معہ اہل و عیال “ اہل و عیال کو آپ اتحادی بھی کہہ سکتے ہیں ”سب کچھ ٹھیک ہے“کہ مزے لے رہی ہے۔ایسی حکومت اور ان کے اتحادیوں کو عوام کو بے وقوف بنانے والی فیملی کا نام نہیں تو کیا نام دیا جائے گا؟

سوال یہ ہے کہ قائدآعظم کا یا طالبان کا پاکستان کانعرہ؟کیوں لگایا گیا ؟اس نعر ے کے تحت متحدہ نے ریفرنڈم کا اعلان کیا ہوا ہے مجھے نہیں معلوم کہ الطاف حسین نے آمرجنرل ضیاءالحق کے ریفرنڈم کی طرز پر تقریباََ اسی طرح کے ملتے جلتے طرز کے سوال کا انتخاب کیوں کیا؟

19دسمبر 1984کو جنرل ضیاءالحق نے اپنے دور کو طول دینے کے لیئے ریفرنڈم کرایا تھا اس ریفرنڈم میں سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ ملک میں سنتِ رسول ﷺ کے مطابق اسلامی نظام چاہتے ہیں یا نہیں؟بحیثیت مسلمان کون ہوگا جو اسلامی نظام کی مخالفت کرے گا؟سو وہ ہی نتائج برآمد ہوئے جو ضیاءالحق چاہتے تھے اور اس طرح وہ ملک کے پانچ سال کے لیئے صدر بن گئے ۔اسی طرح الطاف حسین کے سوال پر کون ہوگا جو قائد اعظم کے پاکستان کی مخالفت کرے گا؟ایسی صورت میں کہ طالبان پہلے ہی متنازعہ بنے ہوئے ہیں لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ اصلی طالبان کون ہیں اور جعلی کون؟ اسلامی نظام کے مطابق جہاد کون کررہا ہے؟اور مفاد پرستی کے تحت اسلامی شعائر کامذاق اڑانے کا باعث کون بن رہا ہے؟ ایسی صورت میں لوگ قائد اعظم کے پاکستان کے لیئے ہی ووٹ دیں گے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ووٹرز نے اسلامی نظام کی مخالفت کردی ہے یا انہوں نے اعتدال پسند ، سیکولر اور لبرل پاکستان کی حمایت کی ہے ۔اس لیئے واضع نتائج حاصل کرنے کے لیئے بہتر ہوتا کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین واضع سوال کرتے کہ آپ ملک کو نقصان پہنچانے والے طالبان کا پاکستان چاہتے ہیں یا قائد اعظم محمد علی جناح کا اسلامی جمہوریہ پاکستان؟پھر جو بھی نتائج نکلتے وہ کسی بھی بد گمانی سے پاک اور سب کو قابل قبول ہوتے۔

مجھے نہیں معلوم کہ کراچی میں قتل و غارت گری کے تازہ سلسلے میں کون سے عناصر ملوث ہیں الطاف حسین کے بیان کردہ طالبان یا نامعلوم دہشت گرد؟ میں تو صرف یہ ہی کہ سکتا ہوں کہ جو بھی دھڑلے سے کھلےعام معصوم انسانوں کی جان لے رہے ہیں وہ انسانوں کے روپ میں شیطان ہیں۔ان شیاطین سے جان چھڑانے کے لیئے پورے ملک کے لوگوں کو جان کی پرواہ کیئے بغیر سامنے آنا پڑے گا اور خوف کے بادلوں کو بھگانا پڑےگا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165948 views I'm Journalist. .. View More