اقبال کا تصور جمہوریت اور پاکستان کے جمہوری مداری

سب سے پہلے تو ہمیں حضرت علامہ اقبال کا احسان مند ہونا چاہیے کہ جن کے تصور کو جناح نے تعبیر دی اور جس کی تکمیل کے لیے اہلِ وطن کسی اور اقبال یا جناح کی راہ دیکھ رہے ہیں۔مگر انتظار ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔کاش اس دھرتی پہ اک اور اقبال آئے۔ کہ اقبال اک ایسی ہستی تھی کہ ہے جس کا تصور ثریا سے بلند۔۔۔۔۔جو خاکی ہے مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند۔۔۔۔جو زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔۔اک ولولہ تازہ دیا دلوں کو جس نے۔۔۔۔۔لاہور سے تا خاکِ بخارا و ثمر قند۔اقبال۔جو رکھتا ہے جوہرِ ادراک۔۔۔۔۔۔جو منطق میں ہے بہت چالاک ۔ جس نے کیا ستاروں کا جگر چاک ۔۔۔۔ جو عشق نبیﷺ میں ہے نمناک۔اقبال۔۔۔۔۔ اک مغنی تھا کہ دل تڑپا گیا۔۔۔۔اک رہبر تھا کہ راہ دکھلا گیا ۔۔۔اک مسیحا تھا کہ روحیں جِلا گیا ۔الغرض اقبال ہی وہ ہستی تھی جس نے ہند کے مسلمانوں میں جوشِ آزادی پیدا کیا ، در حقیقت پاکستان کا بانی اقبال ہی ہے۔یہی وہ ہستی تھی کہ جس نے اپنی شاعری کو نسخہ کیمیا بنا کر مسلمانوں کے علاج کے لئے پیش کیا ۔ کسی شعر سے فلسفہ کی خوشبو، کسی سے نورِ ایماں کی چمک اور کسی سے حب الوطنی کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔

اقبال نے جب اک علیحدہ ریاست کا تصور دیا تھا تو انہوں نے اس ریاست کے لئے نظام کے خدو خال کو بھی واضح کیا تھا ۔ وہ مغربی جمہوریت کے زبردست مخالف تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو اسلامی جمہوری نظام سے دور رکھ کر مغربی جمہوری نظام میں پھنسایا جا رہا ہے۔ان کے نزدیک مغربی جمہوریت سرمایا دارانہ جمہوریت اور تجارتی سیاست ہے جس کا مقصد عوام کا خون نچوڑنا اور اپنی تجوریا ں بھرنا ہے۔وہ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
اے کہ تجھ کھا گیا سرمایا دار حیلہ گر
شاخِ آھو پر رہی صدیوں تلک تیری بارات
دست دولت آفریں کو مدد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰت
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایا دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

آپ وطن عزیر نہ مسلط جمہوریت کو ہی دیکھ لیں جو فقط اور فقط سرمایا داروں ، جاگیرداروں ، سر داروں کے گھر کی لونڈی ہے۔اور یہ سب سرمایا دار ، جاگیر دار اور سردار غریب عوام کو دلفریب نعروں کا جھانسا دیکر اور ان کا خون چوس چوس کر اس مقام تک پہنچے ہیں ۔کبھی غربت ختم کرنے کے نعرے لگاتے ہیں اور کبھی اسلامی نظام کے نفاذ کے۔ مگر جیسے ہی اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے سب نعرے بھول کر اپنی خوشحالی میں لگ جاتے ہیں ۔ پینسٹھ برس سے یہی تماشا جاری ہے ۔ اگر کبھی عوام اٹھنے کی کوشش کریں تو یہ جمہوری جادوگر اور مداری عوام کو نئے خواب دکھا کر سلا دیتے ہیں ۔ اقبال انکی اس جادو گری کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں
آ بتاوں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اسکو حکمراں کی ساحری

علامہ اقبال مغرب کے اس جمہوری نظام کو چنگیزیت سے ہی تعبیر کرتے ہیں
تو نے دیکھا نہیں کیا مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
پھر فرماتے ہیں
گریز از طرزِ جمہوری،غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خرفکر انسانے نمی آید

اب وطن عزیز میں ہی دیکھ لیں ۔ چھوٹی سی چھوٹی پوسٹ کے لئے بھی تعلیم یافتہ ہوتا شرط ہے مگر اس ملک کے جمہوری نظام میں کسی رکن پارلیمنٹ کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ۔ یعنی جاہل افراد قانون سازی کریں گے اور انتہائی تعلیم یافتہ افسران کو کنٹرول کریں کے اور ان پر احکام چلائیں گے۔اور پھر یہ کیسی جمہوریت ہے جو نسل در نسل اپنے ہی خاندان میں پروان چڑھائی جا رہی ہے۔میں کسی ایک پارٹی کی بات نہیں کر رہا۔ سب کا یہی حال ہے۔اور یہ سب آپس میں ایک ہی ہیں ۔ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ داریاں ہیں ا ور سب کا ایک ہی ایجنڈا ہے۔عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے والد ایک پارٹی سے اور بیٹا دوسری پارٹی سے ٹکٹ لے لیتا ہے۔ کچھ بھی ہو سیٹ تو گھر میں ہی رہتی ہے ۔عوام کو بےوقوف بنانے کے لئے اسمبلیوں میں بظاہر لڑتے ہیں مگر اندر سے ایک ہیں ۔ اقبال فرماتے ہیں
گرمئی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایا داروں کی ہے جنگِ زرگری

پھر یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں جمہور شرکت ہی نہ کر سکیں ۔کیا عوام کا کام صرف ووٹ ڈالنا ہی ہے۔جس جس انتخابی نظام میں کوئی غریب آدمی الیکشن ہی نہ لڑ سکے وہ کہاں کا جمہوری ہے؟ کیا کسی غریب آدمی کی پاس کروڑوں روپیہ فالتو ہے الیکشن لڑنے کے لئے؟ کیونکہ یہ تو ہے ہی پیسے کی گیم۔بلکہ بہترین سرمایا کاری ۔ پیسہ لگاو پیسہ کماو۔ کیونکہ کوئی پاگل ہی ہو گا جو اتنا پیساہ لگا کر ایمانداری کرے۔ریفرنس کے طور پر پچھلے پینسٹھ برس کے تاریخ پہ نگاہ ڈال کر دیکھ لیں ۔ کیا الیکشن کمیشن اندھا ہے؟ جو اس کو جمہوری مداری نظر نہیں آتے۔جو جمہوریت کو ایک بہترین انتقام بنا چکے اور یہ انتقام عوام سے لیا جا رہا ہے۔

عوام سے بھی گذارش ہے کہ اقبال کے پیغام کو سمجھیں اور جمہوری مداریوں سے نجات کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور اقبال و جناح کے پاکستان کی تکمیل کریں جس میں آپ اور آپکی نسلیں پر سکون اور خوشحال زندگی گزار سکیں ۔
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 30689 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More