تبصرہ:لطیف جعفری(نمایندہ
شامنامہ )
مالیگاؤں کی سرزمین نہ صرف سیاسی اور سماجی لحاظ سے اہم ترین ہے بل کہ
مذہبی اور ادبی سرگرمیوں کے لیے بھی محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ یہاں کئی نامور
عالمِ دین و ادیب،مورّخ اور شاعر پیدا ہوئے اور ہیں؛جن کی شہرت کا چرچا
مالیگاوں ہی نہیں اردو دنیا میں دیکھا اور سُنا جاتا ہے۔ اسی سر زمین سے
ایک ایسے فن کار نے آنکھ کھولی ہے جسے ہم اور آپ محمد حُسین مُشاہدؔ رضوی
کے نام سے جانتے ہیں۔ جس نے میدانِ شعر و سخن میں اپنی تمام تر صلاحیتیں
اپنے نعتیہ دیوان’’لمعاتِ بخشش‘‘ میں صرف کردی ہیں۔ اس نعتیہ دیوان میں حمد
و مناجات و دعا،نعتیہ نغمات،سلام،مناقب و قصاید،قطعات اور آزاد منظومات
شامل ہیں۔
نعت بہ اعتبارِ مجموعی ادب کی جملہ اصنافِ سخن میں سب سے مکرم و محترم صنفِ
سخن کا درجہ رکھتی ہے۔کیوں کہ نعت کاواحد مستقل موضوع نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ کریم ہے۔اس لیے نعت گوئی میں بھی ایسے ہی
موضوعات،جذبات و احساسات و خیالات کو بیان کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو
عقیدت و شریعت کے اصولوں کا حق ادا کرسکے۔ اور اس نعتیہ دیوان کا مطالعہ
کرنے کے بعد یہی اظہار کیا جائے گا کہ مُشاہدؔ رضوی نے اپنی علمی شخصیت کا
گہرا نقش چھو ڑا ہے۔ ’’لمعاتِ بخشش‘‘کے اشعار میں بھی بہ قول غلام جابر شمس
مصباحی
’’سچائی ہے… صداقت ہے… شیرینی ہے… حلاوت ہے… صفائی ہے…نظافت ہے… پاکیزگی
ہے… طہارت ہے … ادب ہے … احترام ہے… تعظیم ہے… توقیر ہے… وارفتگی ہے…
شیفتگی ہے… شگفتگی ہے… شادابگی ہے… عشق کی چمک ہے… محبت کی دمک ہے… خلوص کی
مہک ہے… شعروں میں زندگی ہے… شاعری میں بندگی ہے… کیف آگیں پیکریت ہے…
استعارہ سازی ہے…صنائع کے نجوم درخشاں ہیں… بدائع کے مہر و ماہ روشن ہیں…
محاورات کا ادیبانہ استعمال ہے … ہندی بھاشاکی آمیزش ہے …فارسیت کا رچاو
ہے…‘‘
اردو شعر و ادب سے وابستہ نئی نسل کی اٹھان کا جائزہ لیں تو عمومی سطح پر
یہی دکھائی پڑتا ہے کہ مشقِ سخن کا آغاز غزل سے ہوتا ہے۔ لیکن مُشاہدؔ
رضوی کے سلسلے میں جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو مُشاہدؔ رضوی کی ایک الگ شناخت
دکھائی دیتی ہے ۔ جیساکہ موصوف نے ’’سرنوشت‘‘ میں کہا ہے کہ :
’’راقم کی پرورش حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذکرِ جمیل
کے نور و نکہت سے معمور پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے۔ علاوہ جن تنظیموں کے
زیرِ اہتمام نعت خوانی کی پاکیزہ محفل آراستہ ہوا کرتی تھی،اور مقامی و
بیرونی شعرا کی نعت کا مطالعہ کرنے اور سننے سے ایک عجیب طرح کا لطف و سرور
حاصل ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ جب گھریلو ماحول کی وجہ سے مذہبی کتب و رسائل کے
مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا ہوا،اور یہیں سے میرے اندر بھی نعت خوانی کا جذبہ
بیدار ہوا ،اور جب مزید شعور حاصل ہوا تو نعت گوئی کا شوق پروان چڑھنا شروع
ہوا۔اور اسی ذوق و شوق کا نتیجہ رہا کہ پہلی نعت قلم بند کی جس کا مطلع یوں
ہے ؎
ہے بہتر وظیفہ ثنائے محمد ﷺ
خدا خود ہے مدحت سرائے محمد ﷺ‘‘
(سر نوشت :لمعاتِ بخشش ص ۹/۱۰/۱۱تلخیص)
اور یہیں سے قلم میں اور ا س اظہار میں کوئی تردد نہیں کہ نعت کے اس دیوان
میں رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے عقیدت و محبت کا اظہار ٹوٹ
کر کیا گیا ہے۔ اور حد درجہ احتیاط کے ساتھ اور کہیں بھی غلو کا شائبہ نہیں
ہے۔ مزید چیدہ چیدہ اشعار ملاحظہ کیجیے :
زمیں پر ہی نہیں چرچا تو ان کا آسماں تک ہے
اسی عالم پہ کیا موقوف ہے ہر اک جہاں تک ہے
الگ یہ بات چشمِ دوستاں میں ہم کھٹکتے ہیں
مگر مدح و ثنا آقا کی بزمِ دشمناں تک ہے
خدایا! رحم فرما کب تک اس کی دید کو ترسوں
یہ دوری ختم کر طیبہ سے جو ہندوستاں تک ہے
طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں ہے اُمّت
اندوہ سے نڈھال ہے سرکارِ مدینہ
مطلب کے لیے دین کی خدمت کا تماشا
اخلاص کا زوال ہے سرکارِ مدینہ
غرض ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کی نعتوں میں مضمون آفرینی،الفاظ کا رکھ
رکھاو،شاعرانہ حُسن،سوزو گداز،ادب و احترام کامکمل طور پر اہتما م دکھائی
دیتا ہے۔مُشاہدؔ رضوی نے بہر حال کم عمری میں نعت گوئی جیسی صنف پر جتنی
توجہ و محنت صرف کی ہے قابلِ تحسین ہے۔اور ہمیں یقین ہے مزید تو جہ و محنت
و مطالعہ کا سلسلہ جاری رہا تو نعت گو شعرا میں اپنی شناخت بنانے میں
کامیاب ہوں گے۔
(ڈیلی شامنامہ،مالیگاوں،ج ۲۴،ش ۴۲مورخہ ۷؍ اکتوبر۲۰۱۰ء مطابق ۲۸؍ شوال
المکرم۱۴۳۱ھ ،بروز جمعرات ص ۶) |