معراجِ سخن…محمد توفیق احسنؔ برکاتی کا نعتیہ مجموعہ

مولانامفتی محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی ایک جواں سال زود گو نثر نگار،شاعر و ادیب اور محقق عالمِ دین ہیں۔آپ کی ولادت بہنگواں ،اعلاپور ،ضلع اعظم گڑھ کے ایک علم دوست گھرانے میں ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۴ء کوہوئی۔مقامی مدرسہ حنفیہ انوارالعلوم اور جامعہ عربیہ اظہارالعلوم ،جہاں گیرگنج ، فیض آباد میں ابتدائی اور متوسطات کی تعلیم ہوئی ۔اعلا دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اشرفیہ عربی یونی ورسٹی مبارک پور میں داخلہ لیا ۔جہاں سے عا لمیت و فضیلت کے ساتھ تحقیق فی الفقہ کا کورس مکمل کیا ۔فی الحال آپ ممبئی کی مشہور دانش گاہ ’’الجامعۃ الغوثیہ‘‘میں تدریسی خدمات پر مامور ہیں۔آپ کا موے قلم زمانۂ طالبِ علمی ہی سے نثر و نظم دونوں میدانوں میں گل بوٹے کھلا رہا ہے۔ اتنی کم عمری میں آپ نے دنیاے سنیت کو کئی بیش بہا کتب و رسائل کا تحفہ پیش کیا ہے۔لیکن جس انداز سے اس جواں سال قلم کار کی پذیرائی ہونی چاہیے وہ نہ ہوسکی ۔بہ ہر کیف !آپ کاتحقیقی، تصنیفی اور تالیفی سفر تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے ۔مختلف ماہ ناموں اور اخبارات میںآپ کے تحقیقی مقالات اورکتب و رسائل پر تبصرے مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کا اوّلین نعتیہ مجموعہ ’’سخن کی معراج‘‘ سجاہواہے ۔جسے میں نے آج اپنی تبصراتی کاوش کا عنوان بنایا ہے۔

کہتے ہیںشاعری لفظ’شعور‘ سے مشتق ہے،جب شاعر اپنے احساسات، جذبات، خیالات اور افکار و نظریات کے گل ہاے رنگا رنگ کو بحر و وزن کے دھاگوں میں پروتا ہے تو شعر بنتا ہے اور شعری نغمگی،موسیقیت،موزونیت اور برجستگی براہِ راست انسانی قلب و روح کو متاثر کردیتی ہے کیوں کہ ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

شاعری کی جملہ اصناف میں نعت کی اہمیت،عظمت اور رفعت و بلندی اپنی جگہ مسلم و مقدم ہے،نعت شاعری کی سب سے مکرم و معظم،مقدس و متبرک اور محترم و پاکیزہ صنف ہے،نعت اپنی ابتدا اور آغاز سے ہی ختمیِ مرتبت،مفخرِ موجودات،مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف ،مدح و ثنا،شمائل و خصائل اور اوصاف و فضائل کے اظہار و بیان کے لیے مختص و مستعمل ہے۔ حمد آسان اور سہل ہوتی ہے؛جب کہ نعت انتہائی مشکل ترین فن ہے ،وادیِ نعت میں گذرتے وقت نعت شاعر سے جس بات کا بار بار تقاضا کرتی ہے وہ ہے حزم و احتیاط…یہاں منصبِ الوہیت و رسالت اور عبد و معبوٗد کے واضح فرق کو ملحوٗظ رکھنا انتہائی اہم اور ضروٗری ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف بال برابر بھی بڑھا تو شاعرشرک جیسے عظیم گناہ کا مرتکب قراردیاجاسکتا ہے اور دوسری طرف بال برابر بھی کمی ہوئی تو شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا گستاخ و بے ادب قراردیا جاسکتا ہے اور یہ دونوں باتیں شاعر کے لیے نقصان و زیاں کا سبب ہیں؛لہٰذا وادیِ نعت میں زمامِ حزم و احتیاط کو اپنے ہاتھ میں تھام کر سنبھل سنبھل کر چلنا شاعر کی دنیوی و اُخروی نجات اور انعام و اکرام کے لیے از بس ضروری ہے ،بقول توقیق احسنؔ ؎
نعت گوئی سہل نہیں احسنؔ
شرط ہے فکر کو لگام رہے

نعت گوئی کسبی نہیں بل کہ وہبی ہے ؛کہ یہ خالص اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور رسولِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوٗد و عطا سے حاصل ہوتی ہے۔نعت قلم بند کرنے میں طبیعت کی موزونی ہی سب کچھ نہیں ہے؛بل کہ یہاں علم و فضل کے ساتھ ساتھ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ضروری ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا توفیق احسنؔ برکاتی کے اندر یہ چیزیں بہ درجۂ اتم موجود ہیں۔ احسنؔ برکاتی صاحب موزوں طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عالم و فاضل اور دانا و بینا ہیںاور امام عشق و محبت اعلا حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے مسلکِ عشق و محبت کے داعی و مبلغ ہونے کے سبب عشق و محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی آپ کے نہاں خانۂ دل میں موجزن ہے ۔ آپ کے اوّلین نعتیہ مجموعۂ کلام’’سخن کی معراج‘‘کے مطالعہ و تجزیہ سے یہ روشن ہوتا ہے کہ آپ نے نعت گوئی کے جملہ لوازمات کو صحیح طور پر تتے ہوئے کامیابی وکامرانی سے نعتیہ کلام قلم بند کیا ہے ،ذیل میں چند مثالیں نشانِ خاطر فرمائیں ؎
دھیرے دھیرے ان سے دل کا رابطہ ہوجائے گا
جب دُروٗدوں کا زباں پر سلسلہ ہوجائے گا
رب نے ان کو بخش دی ہیں علم کی تابانیاں
آج بھی حقانیت کو کھولتا قرآن ہے
شان ان کی کیا لکھے کوئی بھلا ، ممکن نہیں
ان کی رفعت دیکھ لو قرآن کے پاروں میں ہے
ہے نمونہ عالمِ انسانیت کے رو بروٗ
بچپنا ہو ، یا بڑھاپا ، یا جوانی آپ کی
بالیقیں ختم الرسل ہیں آپ ہی میرے نبی
آج بھی اعلان کرتی ہے نبوت آپ کی

طبیعت کی موزونی،علم و فضل اور زورِ عشق و محبتِ رسول(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) جیسے عناصر نے مل کر احسنؔ صاحب کے کلام کو دلِ گداختہ عاشق کا کلام بنا دیا ہے ۔جس میں آمد آمد ہے۔ جذبات کاا لتہاب ہے۔ خیالات کی سچائی ہے۔ نظریات کی صداقت ہے۔ اور تعظیم و ادبِ رسول (ﷺ) کا پاس ولحاظ ہے ؎
شانِ محبوبی سکھانے کی غرَض ہے مومنو!
کس طرح دربار محشر کا سجا ہے دیکھ لو
زہے نصیب پسینہ نبی کا مِل جائے
جو مشک و گل سے بھی اعلا دکھائی دیتا ہے
ان کے بازار میں جب سے سودا ہوا
میری ہستی بڑی قیمتی ہوگئی
اپنے مولاسے جو سرکار کا در مانگتے ہیں
وہ تو جنت میں یقینا کوئی گھر مانگتے ہیں
بخشا انھیں کو علم سب ، پھر بھی دیا اُمّی لقب
یہ بھی ہے اک شانِ عطا ، میرے نبی پیارے نبی
منگتوں کو خود کہتے ہیں ’’آ‘‘ ہرگز نہیں کہتے وہ ’’لا‘‘
دربار ہے عالی ترا ، میرے نبی پیارے نبی
تیرے فرمان کو مانتے ہیں شجر ، اور پڑھتے ہیں مٹھی میں کلمہ حجر
پورا قرآن اخلاق ہے آپ کا ، معجزہ یہ جہاں کو بتا تے رہے

احسنؔ صاحب کی فکر پاکیزہ اور اندازِ بیان دل نشیٖن ہے۔ آپ کے اشعار میں طرزِ ادا کابانکپن،ندرتِ بیان،شوکتِ الفاظ،خیال آفرینی،صنائعِ لفظی،صنائعِ معنوی،تلمیحات و تلمیعات، محاورات کااستعمال ،شاعرانہ پیکر تراشی،ترکیب سازی اور دیگر شعری و فنّی محاسن کی جلوہ گری ہے ؎
جلوۂ روے منور کی ضیا پاشی ہے
آسماں پر جو چمکتے ہیں سبھی کاہکشاں
ان کی مدحت کا عرفان ہے مان لو
سب سے بہتر جو یہ نغمگی ہوگئی
کہ جس کی قسمتِ عالی پہ پھول ہیں نازاں
نبی کے شہر کا ادنا سا خار ہوتا ہے
شبِ خموشِ لحد کا اندھیرا چھٹ جائے
چلو! حضور کی زلفِ دوتا کی بات کریں
ان کی جلوت ، ان کی خلوت اور حُسنِ جاں فزا
نور والے رُخ کی نکہت دیکھ گل زاروں میں ہے
ڈوب کر ان کی محبت میں جو محوِ خواب ہو
بالیقیں اس کو رُخِ زیبا نظر آجائے گا
میرے گل کا پسینہ جو ہم کو ملے
وہ مہکتا ہے مُشکِ ختن کی طرح
ظلمتِ شب کسی لمحہ نہ دکھائی دے گی
پاس آجائے اگر ان کی عنایت کا چراغ
نعت گوئی تو یقینا ہے سخن کی معراج
دل مچلتا ہے تو ہوتی ہے سخن کی معراج
آپ سے حُسنِ عقیدت کا یہی ہے اعجاز
دشمنِ دین بھی اب خونِ جگر مانگتے ہیں

احسنؔ صاحب نے کوثر وتسنیٖم سے دھلی ہوئی زبان کے حامل اس دبستانِ ادب سے اکتسابِ فیض کیا ہے،جس کا طرۂ امتیاز ہی محبت و الفتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تعظیم و ادبِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے۔ دبستانِ بریلی کے اکابر نعت گو حضرات کے کلامِ بلاغت نظام کے مطالعہ و مشاہدہ نے آپ کے کلام کوخیالات کی بے راہ روی،تصنع و بناوٹ،مبالغہ ،غلو واغراق اور شرعی خامیوں سے منزہ و مبرہ رکھا ہے؛احسنؔ کہتے ہیں ؎
احسنؔ رضا کی شاعری پیشِ نظر رکھو
ذی شان ہوگی مان لو مدحت حضور کی
تجھ کو احسنؔ یہ سبق میرے رضا خاں سے مِلا
کیا کہیں اس سے بھی اچھا کوئی شاعر دیکھا
اور احسنؔ یوں دُعا گو بھی ہیں کہ ؎
پیارے احسنؔ کو مِلے عشقِ رضا کا صدقہ
کوئی نہ کہہ دے ترا عشق ثمر بار نہیں
نبی سے عشق والفت کا سلیقہ ہم کو آجائے
ہماری زندگی میں جذبۂ احمد رضا کردے
ہم کو احسنؔ مِلے عشقِ احمدرضا ، خوش رہیں ہم سے ہر دم حبیبِ خدا
ان کی مدح و ثنا میں زبان و قلم ، تادِ مرگ ہر پل چلاتے رہیں

غرضے کہ احسنؔ صاحب کا مجموعۂ نعت’’سخن کی معراج‘‘واقعی معراجِ سخن ہے جو آپ کو میدانِ محشر مین ان شآء اللہ تعالیٰ معراج بخشے گا۔ احسنؔ صاحب کاکلام اس قابل ہے کہ اسے حرزِ جاں بنایا جائے۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل احسنؔ صاحب کے کلام کو قبولیتِ عامہ کا شرف بخشے اور موصوف کے لیے توشۂ آخرت اور سامانِ نجات بنائے ۔(آمین بجاہِ الحبیب الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)
(۱۳؍ ربیع النور ۱۴۲۹ھ بروز سنیچر،مشمولہ:سخن کی معراج:توفیق احسنؔ برکاتی،ممبئی،ص۵/۱۱)
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646761 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More