آدمی کام کرے تو اس کا جسم تھکتا
ہے لیکن اگر کسی دن وہ سارا دن آرام ہی کرے تب بھی تھکتا ہے۔ عجیب منطق
نہیں کہ محنت کی کمی کی وجہ سے بھی انسان تھک جاتا ہے کام کے بعد تھکنا
لازمی ہے اور آرام کے بعد جسمانی توانائی بحال کرکے دوبارہ کام کرنے کیلئے
تیار ہونا عین فطری ہے لیکن اگر کوئی دائمی تھکن کا شکار ہونے لگے اور آپ
میں سے کوئی مسلسل تھکا ہوا رہنے لگے تو سوچئے کہ کہاں غلطی ہورہی ہے؟
اس مضمون میں 6 ایسے عوامل زیربحث لائے جارہے ہیں جو ہماری توانائی کو زائل
کردیتے ہیں۔ وجہ معلوم کرنے کی کوشش شروع کریں یقیناً کامیابی ہوگی۔
مسلسل آرام اور پھر بھی تھکن:کچھ افرادکے ذمہ جسمانی مشقت والے کام نہیں
لگائے جاتے یا ان کا کیریئر ایسا ہی ہوتا ہے کہ انہیں کرسی پر براجمان ہوکر
دفتری امور نبھانے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے کیریئر میں ورزش ناپید ہوتی ہے جبکہ
وہ ذہنی مشق کرتے ہیں دماغی کام کرتے ہیں لیکن جسمانی طور پر غیرمتحرک رہنے
کی وجہ سے کاہلی‘ غنودگی اور سستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ دفتر آنے
سے پہلے صبح کی سیر اور چہل قدمی کرلیا کریں تو قدرے فعال رہ سکتے ہیں مگر
وہ تو اسی صورت میں ممکن ہوگا جب وہ رات کو وقت پر سولیں‘ صبح جلد بیدار
ہوجائیں اور اپنے طرز زندگی میں کچھ تبدیلی لاکر صبح کی سیر کو معمول
بنالیں یعنی ا س عام سی ورزش کے ذریعہ بھی آپ تھکن کو شکست دے سکتے ہیں۔
عموماً ہوتا یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے رات کو بھی بھرپور نیند نہیں لی
جاسکتی اور اس طرح مقررہ وقت پر دفتر پہنچنے کی جلدی میںصبح کے کام
افراتفری میں انجام دیئے جاتے ہیں ایسے میں روزانہ چہل قدمی کی روٹین سیٹ
نہیں ہوتی۔
بار بار آنکھ کھل جانا:اکثر لوگ سوتے ضرور ہیں مگر ان کی آنکھ بار بار
کھلتی ہے اور وہ مکمل حواسوں میں ہوتے ہیں۔ کوئی بات یاد آجائے کوئی فکر
لاحق ہوجائے ذرا سی کھٹ پٹ ہو آنکھ کھل جاتی ہے۔ دراصل یہ ایک کمزوری ہے
جسے طب میں Obstructive Sleep Apnea (OSA) کہا جاتا ہے۔ یہ شکایت درمیانی
عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے اور دائمی تھکن میں مبتلا افراد میں پائی گئی
ہے۔
خراٹوں کے باعث جاگ جانا:اگر رات کو خراٹوں سے آنکھ کھل جائے تو اس کی اہم
وجہ یہ ہے کہ سوتے میں سانس کی نالی بند ہونے سے سانس رکنے لگتی ہے اس وقت
آدمی گھبرا کر آنکھ کھول دیتا ہے ذرا سا گہرا سانس لیا اور پھر فوراً ہی
آنکھ لگ جاتی ہے۔سوتے میں آپ کی سانس20سے 40 سیکنڈ تک بند رہتی ہے۔ اگلے دن
یہ یاد بھی نہیں رہتا تاہم نیند کی مطلوبہ مقدار پوری نہیں ہوتی۔
نیند کے دوران جسم میں آکسیجن کی کمی کے باعث دل کی دھڑکن کی رفتار بھی کم
ہوکر متاثر ہوتی ہے اور دل کا دورہ بھی پڑسکتا ہے۔ OSAکا تعلق امراض قلب
اور بلند فشار خون سے ہے اگر آپ کو اب تک اس کمزوری کا احساس نہیں ہوا تو
اپنے ساتھی یا قریب سونے والے کسی فرد سے مدد لیجئے اور اس سے کہیے کہ سوتے
وقت میں آپ کی حرکات و سکنات کو نوٹ کرلے مثلاً آپ ٹھیک وقت پر بھی سوگئے
ہیں لیکن بیدار ہونے پر محسوس ہوتا ہے کہ سربھاری ہورہا ہے درد بھی ہے اور
لگتا ہے جیسے رات بھر جاگے ہی ہیں تو دراصل یہی دائمی تھکن کا سبب ہے۔
اگر سانس لینے کاطریقہ درست نہیں تو…:غلط طرز تنفس نیند میں خلل کی اہم وجہ
ہے اور دائمی تھکن کی شکایت اس سبب بھی پیدا ہوتی ہے اگر آپ ہائپر وینٹی
نیشن کا شکار ہیں تو اس کی علامتوں پر غور کریں۔ اس مرض کے شکار افراد کم
گہرا اور تیز سانس لیتے ہیں۔ اس انداز سے خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی
سطح کم ہوجاتی ہے۔ اگر ہم جلدی جلدی سانس لے کر کم ہوا جسم میں داخل کریں
گے تو مطلوبہ مقدار میں آکسیجن دستیاب ہونا تو درکنار انگلیوں میں ارتعاش‘
سنسناہٹ اور ہتھیلیوں کے ٹھنڈے پڑنے کی ذیلی شکایتیں بھی لاحق ہوجائیں گی۔
سانس لینے کی یہ رفتار جسے بیش ہواداری کہتے ہیں ممکن ہے خون کی کمی‘
ذیابیطس‘ بلڈپریشر لو یا ہائی اور گردوں کے افعال درست نہ ہونے کی بنا سے
ہورہا ہو۔ ممکن تو یہ بھی ہے کہ آپ ذہنی تناؤ اور دباؤ کا شکار ہورہے ہوں
کیونکہ دباؤ کی کیفیت طاری ہونے پر گردن اور پیٹ کے عضلات اکڑ جاتے ہیں جب
پیٹ اکڑا ہو تو وہ آزادانہ حرکت نہیں کرسکے گا پھر ایسی صورت میں آپ تیزی
سے سانس لیتے ہیں تحقیق بتاتی ہے کہ کوشش کی جائے کہ سانس لینے میں آپ کے
عضلات میں سختی نہ ہو۔
صحیح طرز تنفس:آئیے! صحیح طرز تنفس کیلئے ایک مشق کرتے ہیں۔ ایک جانب سکون
سے بیٹھئے‘ ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھئے اور سانس لیتے وقت اپنے ہاتھ کی
حرکت پر غور کیجئے۔ آپ نے سانس لیا اگر آپ کا ہاتھ اوپر کو نہیں اٹھتا تو
آپ تیز اور کم گہرا سانس لے رہے ہیں اور اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ آپ
ہائپر وینٹی لیشن کا شکار ہیں۔سانس لینے کا صحیح طریقہ ڈاکٹر سے بھی پوچھا
جاسکتا ہے لیکن ابتدائی طور پر آپ اتنا تو کرسکتے ہیں کہ منہ بند کرکے صرف
ناک سے سانس لیجئے۔ ناک کا راستہ مختصر اور تنگ ہوتا ہے اور فطری طور پر
گہرا سانس لینا پڑتا ہے اس طرح آپ صحیح انداز سے سانس لے سکیں گے اور آپ کی
توانائی بھی تادیر بحال رہے گی۔
ہروقت کا اضمحلال بیمار کردیتا ہے:ذہنی دباؤ اور مسائل کی کوئی نوعیت ہو
ذہن اوردماغ تو جسم ہی کا حصہ ہوتا ہے وہ کیسے ڈیپریشن سے محفوظ رہ سکتا
ہے؟ اگر مزاج دو ہفتہ مسلسل افسردہ رہے تو اچھے بھلے آدمی کی صحت گرنا شروع
ہوجاتی ہے۔ بظاہر ہم اسے تھکن کہتے ہیں دراصل یہ مایوسی کی علامت ہے اور ہم
اپنا اعتماد کھونے لگتے ہیں۔ اسی طرح نیند بھی متاثرہوتی ہے۔ بھوک بھی نہیں
لگتی یا کم لگتی ہے۔ زندگی سے بے رغبتی بڑھتی ہے‘ ذہنی دباؤ میں کمی کیلئے
مذہبی رسوخ کا سہارا لیجئے ‘کبھی خود اپنا علاج نہ کیجئے یہ زندگی سے
کھیلنے کی عادت ناقابل تلافی نقصان بھی بن سکتی ہے۔اضمحلال میں کچھ افراد
ہروقت سوتے رہنا پسند کرتے ہیں یعنی ایک انتہا بے خوابی ہے تو دوسری وقتاً
فوقتاً اونگھتے رہنا دونوں صورتیں قابل علاج ہیں۔ سماجی بہبود کے کاموں
میںمصروف ہوجائیے جب آپ محسوس کریں گے کہ اجنبی لوگوںکو آپ کی ضرورت محسوس
ہونے لگی ہے اور کام پر لوگ آپ کا انتظار کرنے لگے ہیں تو آپ ہی آپ زندگی
میں کشش لوٹ آئے گی۔ آپ کی توجہ تھکن کے احساس سے ہٹ کر مختلف کاموںمیں بٹ
جائے گی تو آپ چنگے بھلے ہوجائیں گے۔ |