انسانی صحت کے ساتھ جعل سازی، احتساب کون کرے گا

گزشتہ دنوں محکمہ صحت نے صحا فیوں کے علا ج معالجے کیلئے سہولیات اور رعایت دینے کا اعلان کیا ان سہولیات کی زیادہ تفصیلات تو سامنے نہ آسکیں لیکن کچھ صحافتی تنظیموں کی طرف سے محکمہ صحت کے اس اقدام پر خوشی کے اظہار کے بیانا ت سامنے آئے ۔اس معاملے میں تفصیلات ملنے پر ہی کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن یہاں محکمہ صحت کے متعلقہ ایک اہم مسئلہ کو سامنے لانا بھی ضروری ہے۔

پاکستان میں موجود اس وقت نام نہاد جمہوری نظام حکومت میں یوں تو کوئی بھی سرکاری محکمہ درست انداز میں کام کرے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور احتساب بیورو کا کوئی حال نہیں ۔اعلیٰ عدلیہ کو چھوڑ کر کسی سے بہتری کی امید نہیں لیکن اب ہر معاملے میں چیف جسٹس نوٹس لین ایسا بھی ممکن نہیں۔ لیکن ا س سب کے باوجود اگر کوئی احتساب کرنے والا محکمہ یا حکومتی ایجنسی یہ سمجھتی ہے کہ وہ حلال رزق کھاتے ہیں اور اپنے پیشے سے وفاداری کرتے ہیں تو ان کیلئے عرض کرتا چلوں کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میں جعلی ادویات صرف موت ہی نہیں بانٹ رہی بلکہ غریبوں کے خون پسینے کی کمائی کا بھی صفایا کر رہی ہیں لیکن محکمہ جات ،حکومتی ذمہ داران یا انسانی حقوق کی ہی دعویدار این جی اوز اہم ترین مسئلے سے منہ چھپائے بیٹھی ہیں تو محکمہ صحت کے موجودہ وزیر دوسری وزارتوں کے معاملات میں ٹانگ اڑائے رکھنے کے ماہر ہیں لیکن اپنی وزارت کی ذمہ داریوں کا ان کو نہ احساس ہے نہ ہی خدا خوفی ۔

گزشتہ کچھ عرصے سے اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہوں کہ معلوم کر سکوں کہ آخر یہ جعلی ادویات سرعام مارکیٹ میں کس طرح آ جاتی ہیں اور جعلی میڈیکل ا سٹورز کس طرح بھرے بازار موت بانٹ رہے ہیں ۔تفصیلات اکھٹے کرتے ہوئے علم ہوا کہ آج کل انٹرنیٹ نے جہاں دنیا کے ہر میدان میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے اسی انٹرنیٹ نے جعلی ادویات کو مارکیٹ میں لانے میں بھی مدد فراہم کی ہے ۔میرے نزدیک اب تک اس سب کاروبارکا اصل محرک ومجرم ''ڈرگ انسپکٹر ز'' اور ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسران ٹھہرے ہیں جو انٹرنیٹ پر سے ادویات کی معلومات لے کر ان کی کاپی منگوا لیتے ہیں ٹیسٹ کے طور پر میڈیکل اسٹورز پر چھوڑ دیتے ہیں جب ایک مریض گھنٹوں لائنوں میں کھڑے ہونے کے بعد ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ادایات کی پرچی لے کر میڈیکل اسٹو ر پر پہنچتا ہے تو اسٹور والے اصل دوا کی غیرموجودگی ظاہر کر کہاس کے متبادل کے طور پر جعلی ادویہ جو قدرے اصل دوا سے سستی ہوتی ہے میڈیکل اسٹو ر والے کے مطمین کرنے پر راضی خوشی لے جاتے ہیں پھر ہونا وہی ہے جو جعلی چیزوں کے استعمال کرنے سے ہوتا ہے اصل مرض تو اپنی جگہ لیکن یہ جعلی مواد پینے سے مزید بیماریاں کمزور جسم کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں اس کے بعد جو ہوتا ہے اس سے آپ سب بہتر سمجھ سکتے ہیں لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کیسے اور کیونکر یہ ''ڈرگ انسپکٹر ز''جن کی ذمہ داری حفظان صحت کویقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہے اور ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسران جو صحت کے حوالے سے حکومتی ضلعی سربراہ ہوتے ہیں یہی ذمہ دار لوگ عوام کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔زیادہ تر ''ڈرگ انسپکٹر ز''جعلی ادویات کو میڈیکل اسٹور مالکان کے ساتھ اپنا حصہ خود جعلی ادویات مہیا کر کہ بھی اور میڈیکل اسٹور مالکان کی جعلی ادویات پر بھی ان سے حصہ لیتے ہیں اور ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسران تک بھی حصہ پہنچاتے ہیں ۔اسی طرح آزاد کشمیر کے تمام شہروں میں جعلی میڈیکل اسٹورز کی بھی بھر مار ہے جہاں پر صرف جعلی ادویات ہی نہیں جعلی ڈاکٹرز کی بھی بھرمار ہے لیکن اس سب جعل سازی کے پیچھے اصل جعل ساز ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسران اور ''ڈرگ انسپکٹر ز'' ہی ہیں جو تمام چیزوں سے واقفیت رکھتے ہوئے بھی یا تو آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں یا بھاری معاوضہ جات لے کر خاموش۔صحت کے ساتھ جعل سازی کے مختلف طریقہ جات کوتفصیل سے تحریر کرنے کیلئے کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔

اس جعل سازی کو روکنے کیلئے ذمہ داران کو چاہیے کہ تمام تر اضلاع میں موجود ''ڈرگ انسپکٹر ز'' اور ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسران کو کچھ عرصہ کیلئے معطل کر دیا جائے اور ان کی جگہ ایسے غیر جانبدار کمیشن سے تحقیقات کروائی جائے جو خود سفاررش اور میرٹ کی پامالی کر کہ یہاں تک نہ آئے ہوں ۔یہ لوگ انکوائیری کریں ان کی رپورٹ کے مطابق معطل شدگان کو یا تو نوکری سے فارغ کر کہجیل بھیج دیا جائے یا اگر کہیں غلطی سے بچ جائیں تو بھال کر دیا جائے۔ میرے ان الزامات پر اگر کسی بھی ڈرگ انسپکٹر یا ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسر کو اپنی بہتر کارکردگی کی بناءپر اعتراض ہے اور یقین ہے کہ وہ بے گناہ ہے تو وہ سامنے آ کر اعتراض درج کروا کر اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں چیکنگ کروا سکتا ہے تب دودھ کا دودھ پانی کا پانی سامنے آجائے گا ۔اسی طرح اگر کوئی میڈیکل اسٹور والا یا کوئی اور ذ مہ دار خدا ترسی کی بناءپر جعلی ادویات کی جعل سازی اور اس کا طریقہ کار رسامنے لانا چاہتا ہے تو اس کیلئے بھی دروازے کھلے ہیں ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66226 views Columnist/Writer.. View More