ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ
لیا جائے توبلاجھجک ایک ہی جملے میں تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک بہت اچھا
ہے ۔مگر حکومت کیسی ہے اس سوال پر کتابیں لکھی جاسکتی ہے تاہم چاہنے کے
باوجود کوئی ایماندار اور دیانت دار رائٹر اس حکومت کی تعریف میں ایک جملہ
بھی نہیں لکھ سکتا۔معاشرے کی کسی بھی محفل میں اگر حکومت کا ذکر شروع ہوتو
اس کے چاہنے والے خاموش رہنے یا پھر جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔لوگوں
کی اکثریت اس سوال پر طنزاََ مسکراکر خاموش ہوجاتی ہے۔ان کے پاس حکومت کے
بارے میں لب کشائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اس کی وجہ شائد یہ ہو کہ وہ اپنی
زبان سے نازیبا جملے نکالنا نہیں چاہتے۔
حکومت نے اصغر خان کیس کا ابتدائی فیصلہ آنے پر شادیانے بجائے اور ”عبداللہ
کی شادی میں بیگانہ دیوانہ“کی طرح جشن منایا۔ وزیراعظم راجہ پرویز نے فیصلے
پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیاتھا کہ یہ فیصلہ جمہوریت کی فتح ہے اور اس
فیصلے پرعمل درآمد کیا جائے گا۔لیکن ایک ماہ بعد حکومت اس فیصلے کے ان شقوں
پر نظر ثانی کی درخواست لیکر سپریم کورٹ پہنچ گئی جو صدر مملکت کے حوالے سے
تھے درخواست میں صدر کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے حوالے سے فیصلے کی
شقوں کے بارے میں نظر ثانی کی استدا ءکی گئی ہے۔وفاقی حکومت کی درخواست میں
موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور ایک سیاسی جماعت سے
وابستہ ہیںاس لیئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا قانونی اور آئینی حق
رکھتے ہیں۔درخواست میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ
فیصلے میں سپریم کورٹ نے وہ سوال اٹھائے ہیں جو درخواست گذار کی استدا
ءنہیں تھی اور نہ ہی یہ قانونی سوال بنتا ہے۔( مجھے نہیں معلوم یہ اعتراض
توہین عدالت کے زمرے میں آتا یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا)۔
اس تحریر کا مقصد سپریم کورٹ میں کی جانے والی کارروائیوں کو بحث کرنا نہیں
بلکہ حکومت کے رویہ پر بات کرنا ہے۔اس لئے عدالت کے ذکر کو روک کر میں صرف
یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم نے جب سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول
کرنے اور اس پر عمل درآمد کرانے کا اعلان کردیا تھا تو پھر نظر ثانی کی
درخواست کیوں سامنے آگئی؟۔صرف صدر آصف زرداری کے مفاد میں یا جمہوری نظام
کے خلاف؟پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں خصوصاََ وزیراعظم راجہ پرویز کو سوچنا
چاہئے کہ ان کا یہ رویہ ملک اور قوم کے ساتھ جمہوریت کے لیئے نقصان دہ تو
نہیں ہوگا؟صدر کا غیر جانب دارانہ عہدہ ملک کی سیاست میں آلودہ ہوگیا تو اس
کا نقصان کس کو پہنچے گا؟کیا سیاسی آلودگی میں جکڑا ہوا صدر جو آرمی کا چیف
کمانڈر بھی ہوتا ہے جمہوری ملک کے جمہوری تقاضے پورے کرپائے گا؟وہ پھر کس
طرح دیگر جماعتوں کی بات کو اہمیت دے گا اور ان کے مطالبات پر منصفانہ
فیصلے کرے گا؟
سابق صدر پرویز مشرف اور جنرل ضیاءالحق بااختیارصدور ہونے کے باوجود کسی
سیاسی جماعت کے صدارت یا سربراہی قبول نہیں کی تھی تو کیا یہ ان دنوں کی
غلطی تھی ؟
اگر ہم پیپلزپارٹی کے موجودہ دور کا جائزہ لیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس
دور میں پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے رہنماوئں کے مفادات کے حصول کے
علاوہ حکومت نے کچھ بھی تو نہیں کیا؟۔اب اپنے دور کے آخری دنوں میں بھی ان
ہی اہداف کے حصول کے لیئے سرگرم ہوگئی ہے جو پارٹی رہنماﺅں کے مفاد کے لیئے
ضروری ہے۔
نیب کے چیئرمین ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے کہا کہ کرپشن میں اضافہ ہوگیا
ہے ، میں کرپشن کے خلاف لڑوں گالیکن استعفٰی نہیں دونگا۔اپوزیشن اور حکومت
کی متفقہ رائے سے تقرر کئے جانے والے نیب کے چیئرمین کے ان جملوں سے بھی
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے ،اس کی کارکردگی کااہداف کیا
ہے اور وہ کیا چاہتی ہے؟۔
جس حکومت کے دور میں کرپشن میں اضافہ ہوجائے اور کرپشن کے خاتمہ کے لیئے
موجود نیب کے افسران کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے انہیں ڈرا یا دھمکایا
جائے اس حکومت کو کل کے بجائے آج ہی ختم ہوجانا چاہئے۔
حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے قوم اس بات پر بے فکر ہے کہ حکومت ان کے لیئے
یا ملک کے لیئے کوئی قابلِ تعریف اقدامات کرے گی۔ قوم کو خدشہ ہے کہ اگر یہ
کسی طرح دوبارہ اقتدار میں آگئی تو پھر کیا ہوگا؟
اس حکومت کی خاص بات یہ ہے کہ جس کسی نے ایمانداری کا مظاہرہ کیا اس کی اس
نے چھٹی کردی اور جو قوم سے جھوٹ بولتا رہا یا قوم کو دھوکہ دیتا رہا اس کو
عدالت کے حکم کے باوجود کسی بھی طرح سر پر بٹھائے رکھا اور قوم سے کھیلنے
کا موقع دیا جاتا رہا۔
ایسے افراد میں اے آر ملک کا نام سر فہرست ہے بلکہ اگر ان کا نام نہیں بھی
لیا جائے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ جھوٹا ،بے ایمان اور بد دیانت کسے کہا
جارہا ہے۔قوم کی بدقسمتی ہے کہ تقریباََ 17کروڑ آبادی والے ملک کا کوئی ایک
وفاقی وزیر ایسا بھی ہے جسے اس کی عرفیت سے مشہوری مل رہی ہے۔وزیر موصوف
بہت ہمت اور حوصلے والے وزیر ہیں انہیں جب پہلی بار سندہ کے سابق وزیر
داخلہ ذولفقار مرزا نے جھوٹے کا لقب دیا تھا اور ان کے بارے میں بتایا تھا
کہ” وہ کیلا کھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ہے سیب کھارہا ہوں“۔ اس وقت لوگوں نے اس
بیان کو سیاسی مذاق سمجھا لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے جب انہیں جھوٹا ، بد
دیانت اور بے ایمان ڈکلئیر کیا گیا تب لوگوں کو اطمینان ہوا کہ ذوالفیقار
مرزا ایک سچاانسان ہے۔
حال ہی میں اے آر ملک نے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی
جو ہماری عدلیہ کے حکم سے ناکام ہوگئی اس اقدام پر ہر سطح پر تنقید کی گئی
جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے رہنماءاور وفاقی وزیر خورشید شاہ کو وضاحت
کرنی پڑی کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا حکومت کا اس فیصلے سے تعلق نہیں
تھا۔مجھے اندازہ نہیں کہ اپنی ذاتی خواہشات کے عوام دشمن فیصلے پر اے آر
ملک کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی جائے گی یا کی گئی؟ہاں البتہ مجھے اس
بات کا یقین ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا بھی نہیں ہوگا کہ موبائیل فون کی
بندش اور پھر موٹر سائیکل چلانے کے مضحکہ خیز اور عوام دشمن فیصلے کیوں
کیئے گئے؟ یہ یقین مجھے اس لیئے ہے کہ وہ اے آر ملک ہے کوئی فصیح بخاری
نہیں ، وہ ملک کی طاقت ور سول شخصیت کا خاص دوست ہے اور شائد جن کے خاص راز
ان کے پاس ہیں ایسے راز جس کے افشاءہونے سے نہ صرف ملک میں بلکہ پیپلز
پارٹی میں بھی ہلچل مچ جائے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس قسم کے راز ہیں آنے
والا وقت اس سے پردہ ضرور اٹھائے گا کیونکہ وقت کسی کا دوست نہیں ہوتا ۔
بہرحال موجودہ حالات میں جب عدلیہ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا
، عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات کے فیصلے پر کس طرح عمل درآمد کیا جائے
گااور کیا ان اتخابات کا انعقاد اپنے وقت پر ہوسکے گا ؟ سوچنے اور سمجھنے
کی بات یہ ہے۔
لیکن اگر خوش قسمتی سے یہ انتخابات ہوگئے تو امکان ہے کہ عدلیہ کی نگرانی
کے باعث منصفانہ اور شفاف ہی ہونگے۔ |