قرآن پاک کی سورة البقرہ آیت
نمبر 161میں اللہ تعالیٰ کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”بیشک وہ جنہوں نے
کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی
“۔
جس کی تشریح کچھ اس طرح بنتی ہے کہ مومن تو کافروں پر لعنت کریں گے ہی کافر
بھی روز قیامت باہم ایک دوسرے پر لعنت کریں گے ۔ اس آیت میں ان پر لعنت
فرمائی گئی جو کفر پر مرے ا س سے معلوم ہوا کہ جس کی موت کفر پر معلوم ہو
اس پر لعنت کرنی جائز ہے ۔کافر رہنے والوں پر اللہ ،فرشتوںاور انسانوں کی
طرف سے لعنت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف کی طرف سے متعدد آیات میں یہودیوں
کی مسلمانوں کا واضح دشمن بتایا گیا ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کے احکامات
بھی دیے گئے ہیں۔پوری دنیا میں دیکھ لیں ہر جگہ یہودی لابی اور یہودی مسلم
قوم اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف عمل ہیں۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مطابق اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جارحیت
جاری ہے، آج کئے جانے والے فضائی حملوں میں مزید 13 فلسطینی شہید ہوگئے،یوں
6 روز میں جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 90 ہوگئی ہے۔ آج صبح کے حملے میں
نیشنل سیکیورٹی کی عمارت کو ایک بار پھر نشانہ بنایا گیا، حملوں میں اس کے
علاوہ بھی کئی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ اسی دوران اسرائیلی جارحیت کے خلاف
کئی ملکوں میں عوامی سطح پر مظاہرے جاری ہیں۔ اسرائیل کو جارحیت سے روکنے
کیلئے، مصر کوششیں کررہا ہے۔ میڈیا کے مطابق اسرائیل نے بھی مذاکرات کیلئے
وفد قاہرہ بھیجا ہے۔ ادھر صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کے
سیکریٹری جنرل بان کی مون آج قاہرہ پہنچیں گے۔ انہوں نے فریقین سے فوری جنگ
بندی کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کی کوششوں کا حصہ بننے
کیلئے قاہرہ جا رہے ہیں۔ مصر کے صدر محمد مرسی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی غزہ
میں زمینی کارروائی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور نہ تو مصر اور نہ ہی
باقی دنیا اسے قبول کرے گی۔ادھر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون
نے غزہ میں فریقین سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ
جنگ بندی کی کوششوں کا حصہ بننے کے لیے قاہرہ جا رہے ہیں۔
اسرائیل مشرق وسطی کی ایک صیہونی ریاست ہے جو سرزمین فلسطین پر قبضہ کرکے
بنائی گئی۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک اسرائیل کو ملک تسلیم نہیں
کرتے۔
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں
سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو
سکتا تھا۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں
سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے
کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا۔ اس وقت تک
فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6
فیصد زمین کے مالک تھے۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ
فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست
اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین
الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک
مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے۔ 29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے 13 کے
مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے۔
فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی
مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے۔
اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں 14 مئی 1948 کو 4
بجے بعد دوپہر اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو ”یہودی ریاست اسرائیل” کا اعلان
کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست
بنالی۔رفتہ رفتہ اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم بڑھنا
شروع ہو گئے۔اب حالات یہ ہیں کہ پوری دنیاکے انگریزوں کا جھکاﺅ اسی یہودی
لابی کی طرف ہے اور اس کی وجہ سے فلسطین کے مسلمان ان کی سازشوں اور مظالم
میں جکڑتے چلے گئے۔ فلسطینی عوام اور فلسطینی مسلمانوں کے پاس اسلحہ کی
سپورٹ برائے نام ہے اور ان کا معاشی اور اقتصادی سسٹم تقریباً تباہ ہو چکا
ہے۔زیادہ لوگوں کا کاروبار ختم اور نوجوانوں کی ملازمت نہ ہونے کے
برابرہے۔پوری دنیا کے مسلمانو ں کی اکژیت امریکہ اور برطانیہ کے دباﺅ کے
تحت فلسطین اور فلسطینی مسلمانوں کی مدد سے بھی گریز کرتے ہیں،مسلمانوں کی
اتحاد میں کمی کا سراسر فائدہ اسرائیلیوں اور یہودیوں کو ہور ہاہے۔اسلام
ایک ایسا مکمل دین ہے جو امن و آشتی کا درس دیتا ہے اور یہ انسانوں کے لئے
بنایا گیا نظام ہے جس میںہر کسی کو آزادانہ زندگی بسر کرنے کا حق حاصل
ہے۔ہم مسلمان بدقسمتی سے اپنے دین سے نہ صرف دور ہیں بلکہ نیشنل اور
انٹرنیشنل لیول پر بے اتفاقی کا شکار ہیں۔
فلسطینیوں پر اس وقت بہت ہی خطرناک وقت ہے اور ہم تمام پاکستانی عوام جس
میں ہماری حکومت اور حزب اختلاف شامل ہے ان کو فلسطین کی ہر ممکن مدد اور
انٹرنیشنل لیول پر ان کے لئے احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیئے۔ہم چھوٹی چھوٹی
بات پر سٹرکوں پر نکل آتے ہیں اور اس وقت بھی ہمیں ضرور نکلنا چاہیئے کہ
وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہم سب کو اپنی نمازوں میں بھی فلسطین اور فلسطینی عوام
کے لئے دعاگو ہونا چاہیئے کیونکہ یہ وقت کی پکار ہے۔اللہ تمام دنیا کے
مسلمانوں پر رحم کرے اور ان میں اتحاد پیدا فرمائے تاکہ کفار دنیا کے کسی
بھی مسلمان کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکیں۔آمین |