فیض آباد : شہر کا شہر ہی آسیب زدہ ہو جیسے

ذرائع ابلاغ میں اکثرو بیشتر خبریں نامکمل معلومات پر منحصر ہوتی ہیں اور ان کی بنیاد پر کئے جانے والا تجزیہ وتبصرہ مفروضات واندازوں کے حصار میں مقید ہوتا ہے اسی لئےقارئین کا ذہن صاف نہیں ہوتا بلکہ وہ کنفیوز ہو جاتے ہیں ۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کالم نگار پہلے یہ طے کرلیتا ہے کہ کس نتیجہ پر پہنچنا ہے اور پھر حقائق کو توڑ مروڈ کر اس تک رسائی کا ذریعہ بناتا ہے۔ صحافت میں یہ رویہ حماقت نہیں بلکہ خیانت کے مترادف ہے۔ ہلال کمیٹی فیض آباد کے کنونیر خلیق احمد خاں صاحب قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے نہایت جانفشانی سے فیض آبادکے حالیہ فسادات پرایک تفصیلی اور مکمل رپورٹ مرتب فرمائی ۔ اس غیر جانداردستاویز نہ صرف پندو نصائح کی لفاظی سے پاک ہے بلکہ غیرضروری شکوہ شکایت سے بھی خالی ہے ۔ سات صفحات کی مختصر سی رپورٹ میں دن بدن رونما ہونے والے حالات اور پھر اس کے ساتھ ملت کے مطالبات کو دوٹوک انداز میں پیش کردیا گیا ہے۔ رپورٹ سے منسلک۲۵ صفحات کاضمیمہ ہے۔جس میں نقصان کا تخمینہ، زخمیوں کے نام، گرفتار شدگان کی تفصیلات ،مجرمین کی نشاندہی ،انتظامیہ کاکردار ، سیاست دانوں کا رویہ اور حکومت کے اقدامات مع شواہد فراہم کئے گئے ہیں ۔

اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے ۔اس بارے میں عام غلط فہمی یہ پائی جاتی تھی کہ یہ سماجوادی پارٹی کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔ مسلمان رائے دہندگان پہلے بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی میں تقسیم ہوجاتے تھے۔اس بار کانگریس نے بھی انہیں ریزوریشن کی مدد سے رجھانے کی بھرپور کوشش کی تھی اس لئے اسے مسلم رائے دہندگان سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر سماجوادی کا ساتھ دیا یہی وجہ ہے کہ اکھلیش یادو واضح اکثریت کے ساتھ وزارت اعلیٰ کے مسند پر براجمان ہو سکے ۔ دور دراز کے لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ مسلمانوں کو یہ احسا س دلانے کیلئے انہوں نے سماجوادی کی حمایت کرکے ایک فاش غلطی کی ہے اور وہ محفوظ ہونے کے بجائے غیر محفوظ ہوگئےہیں حزب اختلاف کی جانب سے وقتاً فوقتاً فسادات برپا کئے جارہےہیں ۔ویسے متھرا کے فساد میں بہوجن سماج پارٹی کے ایک رہنما کا نام بڑے زور و شور کے ساتھ سامنے بھی آیا تھا جس نے اس خیال کو مزید تقویت پہنچائی لیکن فیض آبادکے فساد اس غلط فہمی کو دور کردیا۔

فیض آباد اور بھدرسا کے منصوبہ بند فسادمیں ۲۴ اکتوبر کو جو لوگ جائے حادثہ پر بنفسِ نفیس موجود تھے ان میں سے ایک بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رکنِ اسمبلی للو سنگھ تھے ۔ للو سنگھ کی موجودگی کسی حیرت کا سبب اس لئے نہیں ہے کہ بی جے پی سیاست کا سارا دارومدار ہی فرقہ واریت پر ہے ۔ایسے میں فسادیوں کی سرپرستی کرنا بی جے پی کی مجبوری بھی ہے اس لئے کہ اکثر فسادی ذہن کے لوگ بی جے پی کے حامی ہوتے ہیں۔ اگر ایسے مواقع پر بی جے پی کے رہنما میدان میں اترنے سے گریز کریں تو اس بات کا امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ کوئی اور ان کو اپنا بنا کر لے اڑے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی کے ریاستی صدر اور رکنِ پارلیمان نرمل کھتری بھی وہاں موجود تھے ۔ نرمل کو بجا طور پرمسلمانوں سے شکایت ہے کہ انہوں نےکانگریس کو ملائم سنگھ کے ساتھ سودے بازی کے موقع سے محروم کردیا ۔مگر سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی پون پانڈے اور ان کے ہمراہ گریش کمار پانڈے کی موجودگی ہے ۔ پون پانڈے وہ شخص ہے جس کو بڑے ارمانوں سے مسلمانوں نےکامیاب کیا اور اس سے بڑی توقعات وابستہ کیں لیکن افسوس کہ جن پہ تکیہ کیا گیاتھاانہیں پتوں نے آگ بجھانے کے بجائے شعلوں کو ہوا دی اوراس طرح مال و اسباب کے ساتھ سماجوادی پارٹی پر مسلمانوں کا اعتماد بھی جل کر خاک ہو گیا ۔

گریش پانڈے جو ڈمپل پانڈے کے نام سے مشہور ہے آئندہ قومی انتخاب سماجوادی کے ٹکٹ پر لڑنے کا خواہشمند ہے ۔ شاید اسےیہ لگتا ہو کہ ایوانِ پارلیمان میں رونق افروز ہونے کیلئے مسلمانوں اور یادووں کے ووٹ کافی نہیں ہیں اس لئے اپنی برادری کے براہمنوں کو ہمنوا بنانا ضروری ہے ۔ ڈمپل کی یہ حماقت اسے نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم کا مصداق بنا دے گی ۔ جیسے ہی بی جے پی کا امیدوار جئے شری رام کا نعرہ لگائے گا براہمن دوڑ کر اس کی شرن میں پہنچ جائیں گے اور مسلمان بھی ٹھینگا دکھادیں گے ایسے میں فیض آباد کا اگلا رکنِ پارلیمان جو بھی ہوکم از کم سماجوادی ڈمپل نہیں ہوگا ۔ ایسی نازک صورتحال میں سیاسی رہنماؤں کو اپنے گھرکے اندر رہنے کے بجائے عوام کے درمیان آنا چاہئے بشرطیکہ وہ فساد کی آگ بجھا نے والے شریف لوگ ہوں لیکن ہندوستان کی سیاست میں ایسے لوگ خال خال ہی پائے جاتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدان تو جلتی پر تیل ڈال کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے قائل ہیں ۔ فیض آباد فساد کے چشم دید گواہوں کے مطابق ان سیاسی رہنماؤں نے انتظامیہ کے کام میں دخل اندازی کی انہیں فسادروکنے کیلئے قوت کے استعمال میں مانع ہوئے اور وہی نریندرمودی ومایا کندنانی کا کردار ادا کیا ۔

فیض آباد فساد کی بنیادی ذمہ داری درگا پوجا سمیتی کے سر جاتی اور اس تنظیم کے اکثر ارکان براہمن اور کشتری ان میں کسی کا تعلق پسماندہ ذاتوں سے نہیں ہے ۔ اس تنظیم نے منصوبہ بند طریقہ پر یہ فساد کروایا ۔ اس مکروہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں براہمن نوجوان پیش پیش تھے مثلاً امیش دبے عرف سمی ّ نے رکاب گنج میں فساد کی ابتدا کی۔یہ شخص اس قدر پرجوش تھا کہ فساد کی آگ میں خود جھلس گیا اور فی الحال اپنے گھر میں زیرِ علاج ہے ۔اس کے علاوہ حیدر گنج کا گووند گپتاعرف منٹو وویکا نند وپل اور براہمن سماج یوا سبھا کا جنرل سکریٹری رتیش پانڈے جو درگا پوجا کے جلوس میں اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بلا روک ٹوک پیغام رسانی کا کام کر رہا تھا ۔اس کے علاوہ پورا قلندر کا رہنے والا چندر بھان پانڈے بھی فساد بھڑکانے میں سرگرم تھا ۔ ان سب براہمن نوجوانوں کو سماجوادی رہنماؤں کا تحٖفظ حاصل ہے اور جب تک یہ قرار واقعی سزا نہیں پاتے جاتی مظلومین کے ساتھ انصاف بھی نہیں ہوگا اور مستقبل کے فسادات پر قابو پانابھی نا ممکن ہوگا ۔ان فسادیوں کی مدد کیلئے آریس ایس نے اپنا دستِ تعاون دراز کیا اور بیکاپور علاقے کے اپنے سرسنگھ چالک(سربراہ) نیرج جیسوال کو روانہ کیا اس کے ساتھ آر یس ایس کے مختلف کارکنا ن مثلاً انل سنگھ ،منگل سنگھ،سداشیو موریہ،بدھ ساگر موریہ،ارجن موریہ،اکھلیش سنگھ ، دیپک گپتااور ستیش جیسوال بھی اس کے ہمراہ تھے۔ ان تمام بدمعاشوں کو مقامی رکن پارلیما ن نرمل کھتری کی حمایت حاصل ہے جن پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
امن کا جو پیغام سنانے والا ہے
گلیوں گلیوں آگ لگانے والا ہے

نرمل کھتری اوپر سے کانگریسی اور اندر سے زعفرانی ہے۔وہ ؁۱۹۸۸ سے رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم رہا ہے اور شیلا نیاس میں شریک تھا ۔ ؁۱۹۸۹ اسے سی پی آئی کے مترا سین نے ایودھیا ہی میں شکست دے دی اور اس کا سیاسی مستقبل تاریک کر دیا لیکن گزشتہ انتخاب میں یہ بدمعاش اسی مترا سین کو ہرا کر رکن پارلیمان بن گیا ۔ اب اسے ؁۲۰۱۴ میں ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں دوبارہ کامیابی کی فکر ستا رہی ہے اور اسی لئے وہ اپنی ہی برادری کے زیرنگین چلائی جانے والی درگا سمیتی کے توسط سے فسادات کی آگ پھیلا کرابھی سے اپنی ساکھ بڑھا رہا ہے۔ براہمنوں کی کوتاہ اندیشی نے پہلے کانگریس کی لٹیا ڈبوئی ۔جب وہ جہاز غرقاب ہونے لگا تو یہ لوگ کود کر بی جے پی میں چلے گئے ۔ جب بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے امکانات مفقود ہوگئے تو یہ بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ ہو لئے اور جب بہن جی کو عوام نے دھتکار دیا تو اب یہ ہاتھی سے کود سائیکل پر آگئے ۔ براہمن سماج اقتدار کے لالچ میں اپنی وفاداریاں بدلتارہتا ہے لیکن جس کسی کے ساتھ جاتا ہے بہت جلد اس کا بیڑہ پار ہوجاتا ہے ۔ آج کل سماجوادی پارٹی براہمنوں کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہے براہمن سماج کا خصوصی اجتماع منعقد کیا جارہا ہے لیکن اگر ملائم سنگھ یادو نے اس طوطا چشمی برادری کے چکر میں مسلمانوں کو ناراض کر دیا تو وہ جووزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اس کا تولد سےقبل اسقاط ہو جائیگا ۔

فیض آباد میں فساد کے دوسرے دن انتظامیہ نے حسبِ عادت سب سے پہلے مظلوم مسلمانوں کو گرفتار کرنے کی غلیظ حرکت کو دوہرایا اور ابتدا میں جن دس لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سے ۶ مسلمان تھے۔ ان کے علاوہ گرفتار شدہ چار ہندو نوجوانوں میں فسادیوں کا کوئی سرغنہ شامل نہیں تھا لیکن آگے چل کر یہ خوش آئند بات ہوئی کہ تصویروں اور ویڈیو کی بنیاد پر ۸۰ فسادیوں کی شناخت کرکے ان میں سے ۶۷ کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ۔ اب تک۵۴ فسادیوں پولس کی حراست میں آچکے ہیں اور بقیہ کی تلاش جاری ہے ۔ردولی میں جن ۲۰ فسادیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ان میں بی جے پی کے رکنِ اسمبلی رامچندر یادو اور اشوک کشودھن کا نام بھی شامل ہے ۔ پورا قلندر پولس تھانے کے پولس افسر نے ان ۴۰ فسادیوں کے خلاف شکایت درج کرنے سے انکار کردیا جن کے خلاف مسلمان نام بنام نام شکایت درج کروانا چاہتے تھے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ فساد کے فوراً بعد بہت سارے فسادی گرفتار ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر انتظامیہ سیاسی دباؤ کے تحت مقدمہ کمزور کردیتا ہے اور عدالت ان ظالموں کو رہا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس سےفسادی بلاخوف پھر فسادات میں ملوث ہو جاتے ہیں اگر فسادیوں کو قرار واقعی سزا ملے تو نہ صرف وہ خود بلکہ دوسرے بھی اس سے عبرت پکڑیں گے اور فسادات کی روک تھام ہو سکے گی۔

انتظامیہ کے جانبدارانہ رویہ کو گونج ریاستی حکومت کے ایوان تک پہنچی تو وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے ایماء پر پرنسپل سکریٹری(داخلہ) آر ایم شریواستو اور ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل پولس اے سی شرما نے انسپکٹر جنرل (خفیہ) او پی سنگھ کے ہمراہ فساد کےاگلے دن فیض آباد کا دورہ کیا۔ ڈی جی پی نے اعتراف کیا کہ تشدد بھڑکنے کی وجہ ضلع انتظامیہ کی کوتاہی تھی ۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو فسادیوں پر پانی کی تیز بوچھار، ربر کی گولیاں اور آنسو گیس چھوڑ کر منتشر کرنے کے احکامات دئیے گئے تھے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔شراب کی دوکانیں بند کرنے کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی اسی لئے جلوس میں شریک لوگ نشے میں دھت پائے گئے ۔ڈی جی پی نے خاطی افسران کے خلاف جو کارروائی کا یقین دلایا تھا اس کےتحت چار یادو افسران کو معطل کرکے ان کا تبادکہ کر دیا گیا جن میں ایس پی رام جی یادو ، اے ڈی ایم سری کانت یادو ، سٹی مجسٹریٹ تلک دھاری یادو اور کوتوال بھولر یادو شامل ہیں ۔ان کے علاوہ ڈی ایم دیپک اگروال،ایس ایس پی رامجیت شرما اورسی او راجیش کمار اپنا عہدہ بچانے میں کامیاب ہوگئے حالانکہ ان پر بھی الزامات لگائے گئے تھے۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی بھی یادو افسر کی جگہ کو دوسرے یادو افسر سے پر نہیں کیا گیا ۔ ویسے معطلی اور تبادلہ کوئی بہت سخت سزا نہیں جو ان افسران کو آگے چل کراپنی ذمہ داری کو ادا کرنے پر مجبور کر سکے بلکہ فسادیوں کی مانند ان کو بھی سزا دی جانی چاہئے تاکہ دوسرے افسران اس سبق حاصل کریں۔

وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو قابلِ ستائش ہوتے اگر وہ ان اقدامات کو بروقت اٹھاتے اس لئے کہ اس صورت میں یہ فساد ہی رونما ہی نہیں ہوتا لیکن ان کی جانب سے ناقابلِ معافی تاخیر ہوئی ۔ کسی بیدار رہنما کی یہ پہچان نہیں ہے کہ وہ آ گ لگنے کا انتظار کرے اور پھر پانی لے کر دوڑے ۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آگ اچانک حادثاتی طور پر لگ جاتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہوتا لیکن فیض آباد کے سلسلے میں یہ بات درست نہیں ہے ۔وزیر اعلیٰ کو تین ماہ کا طویل عرصہ میسر آیا تھا جس میں ایک طرف فسادی اپنی تیاری کرتے رہے لیکن وزیر اعلیٰ چین کی نیند سوتے رہے ۔فیض آباد میں فرقہ وارا نہ فضا کوخراب کرنے کی غرض سے ۲۳ جولائی کو شہر کے باہر مرزہ پور گاؤں میں مسجد کے قریب ایک غیر قانونی مندر تعمیر کیا گیا۔ انتظامیہ نے وہاں بابری مسجد کی کہانی دوہراتے ہوئے غیرقانونی تعمیر پر روک لگانے کے بجائے مسجد کو مقفل کردیا ۔ ۱۴ ستمبر کو مسلم علماء اور سادھو سنتوں نے اس مسئلہ کے حل کی خاطر انتطامیہ کو مشترکہ میمورنڈم دیا تاکہ فرقہ وارانہ صورتحال کو بگڑنے سے بچایا جاسکے لیکن ہنوز اس پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔

۲۱ ستمبر کی رات کو دیوکالی مندر سے تین مورتیاں چوری ہو گئیں ۔ان کی حفاظت مندر کے پجاری کی ذمہ داری تھی اس لئے پولس کو چاہئے تھا کہ ان سے تفتیش کرتی لیکن وہ خاموش تماشائی بنا رہی اور ہندو فرقہ پرستوں کو اس کی آڑ میں عوامی سطح پر نفرت و عناد پھیلانے کا موقع دیا ۔ اس دوران یوپی بنے گا گجرات اور ایودھیا سے ہوگی شروعات جیسے اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے ۔ گورکھ پور سے بی جے پی رکنِ پارلیمان یوگی ادیتیہ ناتھ نے فیض آباد کا دورہ کرکے عوام کو مشتعل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ۲۴ اکتوبر کو درگا کے جلوس پر حملہ کی افواہ اڑا کر فساد شروع کردیا گیا اور جسے نہایت منظم انداز میں آس پاس کے علاقے میں پھیلا یا گیا ۔ انتظامیہ کے افسران جائے واردات پر موجود تھے لیکن وہ ظلم و آتشزنی کو روکنے کے بجائے اور فسادیوں کی بلاواسطہ کا ہمنوائی کررہے تھے ۔جس کے نتیجہ میں خوف ہراس پھیلا اور فساد کے شعلوں نے فیض آباد اور اس کے گردونواح کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایسا ماحول بنا کہ بقول شاعر ؎
اجنبی خوف فضاؤں میں بسا ہو جیسے
شہر کا شہرہی آسیب زدہ ہو جیسے

تین ماہ کا عرصہ کوئی کم نہیں ہوتا اور اگر اکھلیش ناتجربہ کار تب بھی وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے اس لئے کہ اس طرح کے نازک مسائل میں سماجوادی پارٹی کے قومی صدر ملائم سنگھ کو براہِ راست مداخلت کرنی چاہئے اور حالات کو قابو سے باہر جانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے ملائم سنگھ یا تو مسلمانوں کے حوالے سے یہ سوچ کر بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے حالانکہ اگر وہ ایسا سوچتے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ۔ مسلم رائے دہندگان اپنے ساتھ دغا کرنے والے کو سزا دینے کی خاطر اپنے دشمن کا بھلا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔اگرملائم سنگھ کو وزیر اعظم بن جانے کی فکر نے اپنے رائے دہندگان سے غافل کردیا ہے تو آئندہ انتخاب میں اتر پردیش کے مسلمان ان کو خوابِ غفلت سے بیدار کردیں گے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔ اس صورتحال کا فائدہ نہ صرف بی جے پی اور کانگریس کو بلکہ بہوجن سماج پارٹی کو بھی ہوگا ۔

ریاستی حکومت اگر اب بھی ہوش کے ناخن لیتی ہے اور اپنی اصلاح کی جانب مائل ہونا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ فیض آباد کے مسلمانوں کی جانب سے پیش کردہ میمورنڈم پر سنجیدگی سے توجہ دے ۔ جن لوگوں کا نقصان ہوا ان کی بھرپائی فوراً ہو اور اس کیلئے فسادیوں سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کے درمیان جو ناجائز تعلق قائم ہو گیا ہے اس کو توڑا جائے ۔ ان وجوہات کا پتہ لگانے کیلئے جو فساد کا سبب بنے تھے سی بی آئی کے ذریعہ جانچ کروائی جائے ۔ اس غیر جانبدارانہ جانچ پڑتال کے نتیجہ میں جو لوگ ملزم پائے جائیں ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے ۔یہی انصاف کا تقاضہ ہے اور کامیابی کی ضمانت بھی ہے ۔ ورنہ ایس پی کے حوالے سے اترپردیش کے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی یہ شعر کرتا ہے ؎
ہم حقیقت سمجھ رہے تھے جسے
رفتہ رفتہ سراب بنتا گیا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449592 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.