کشمیری قوم درویش کے اس جملے پر
پورا اترتی ہے کہ دولت مقبولیت شہرت دولت اور بادشاہت کسی بھی وقت اور کبھی
بھی بخارات کی شکل میں ہواؤں میں گم ہوجاتی ہے مگر محکوم قوم کے خون دل
دماغ اور سوچ و افکار سے کبھی محو نہیں ہوتی۔ سات دہائیاں ہونے کو ہیں۔ اس
طویل عرصہ میں کشمیریوں کی دو تین نسلیں عالم بالا کو کوچ کرگئیں مگر
کشمیری نہ تو حق خود ارادیت سے دستبردار ہوئے ہیں اورنہ ہی انہوں نے انڈین
فورسز کی مسلط کردہ شام غریباں میں رحم کی اپیلیں دائر کیں۔شام غریباں میں
تو حق سچ کی خاطر گردن کٹوانی پڑتی ہے۔ دنیا کی 10 ہزار سالہ تاریخ میں
کوئی سپرپاور اور بڑی جمہوریت تادیر کسی قوم کے جذبہ حریت کو ختم نہ کرسکی۔
بھارت کی سات لاکھ سپیشل فورسز نے کشت و قتال سے لیکر کالے قوانین تک اور
ایک لاکھ کشمیریوں کو پھڑکانے سے لیکر ٹارچر سیلوں میں حریت پسندوں پر نازی
مظالم کی بھرمار لاٹھی گولی اور سرکار کے آزمودہ نسخے آزمائے مگر وہ 7 سال
کے کم سن کشمیری مجاہد کے دل میں حق خود ارادیت کی جلنے والی شمع اور آزادی
کی دہکتی ہوئی چنگاری کو بجھانے میں ناکام ہوئے۔ نوخیز اور کم سن بچے
ٹینکوں توپوں اور اسرائیل کی بنی ہوئی جدید ترین سٹین گن سے مسلح فوجیوں کا
جذبہ آزادی سے لبریز ہاتھوں میں سنگ اٹھائے دیدہ دلیری سے مقابلہ کررہے ہیں۔
انڈین فوج نے ایک ایسی وحشیانہ پالیسی مرتب کی ہے کہ دل سفاکیت سے ڈوبنے
لگتا ہے۔ حریت پسندوں کو اب یا تو جعلی پولیس مقابلوں میں مروادیا جاتا ہے
یا پھر بدنام زمانہ جیلوں میں پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی
ایشن کے صدر نے عدالتی حکم پر اودہم پورہ جیل میں ان مظلوم و معصوم کشمیری
قیدیوں سے جیل میں انکی حالت زار دیکھنے کی خاطر ملاقات کی۔ قیدیوں نے
بتایا کہ مسلمان جوانوں کو بانماز جماعت کی اجازت نہیں ہے۔ اگر آمریت زدہ
مسلمان قرآن پاک پڑھ رہا ہو تو اللہ کی مقدس کتاب کو چھین کر اسکی تکذیب کا
کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ قرآن اور نماز کی جگہ ان سیاہ بختوں سے
تشدد کے زور پر ہندوانہ نعرے لگوائے جاتے ہیں۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اور
ہیومین رائیٹس نے تو میڈیا کے سامنے بگ ڈیموکریسی کا کچہ چھٹا کھول دیا۔
ہیومن رائٹس کے بھارتی ماہرین نے قیدیوں پر بے رحمانہ تشدد کا اعتراف کیا
اور بھارتی سرکار سے پر سوز اپیل کی کہ کے ساتھ بہیمانہ سلوک بند کیا جائے۔
ریڈ کراس کمیٹی نے سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن کا مطالبہ کیا تاکہ جیلوں
میں تشدد کا خاتمہ یقینی ہو۔ سرینگر کی سنٹرل جیل کی بارک نمبر6 کے کشمیری
قیدی عزیز اپنی داستان الم سنائی کہ مجھے خزاں کی یخ بستہ رات کو بیرک سے
نکال کر درجن بھر فوجی سنگدلانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ مجھے کہا گیا کہ فلاں
فلاں فلاں بم دھماکوں اوردہشت گردانہ وارداتوں کو اپنے سر تھوپ لوں میری
نفی پر مجھے شرمناک تشدد کے طویل پل صراط پر لٹکایا جاتا رہا۔ میں اس وقت
لرز کر رہ گیا جب فوجی جلادوں کے سرغنے نے بتایا کہ وہ کل میری دونوں بہنوں
کو اسی بارک میں اندر کردیگا۔ برطانوی چینل فور کو جموں جیل میں ناکردہ
گناہوں کی شب ظلمت میں پابندسلاسل ادھیڑ عمر شخص نے اپنی درد ناک کتھا
سنائی میں۔میں وحشت انگیزتشدد کا اس لئے شکار بنا کہ میں نے اپنے اوپرتھوپے
گئے الزام کی صحت سے انکار کردیا کہ میں isi کا ایجنٹ ہوں میرے جواب پر
ٹوکے کے ایک وار نے مجھے عمر بھر کی خاطر بازو سے محروم کردیا۔ آزادی کشمیر
اور الحاق پاکستان کے سرفروشوں پر وحشت و بربریت کی تاریخ 68 سالوں پر محیط
ہے اور یہ تاریخ کشمیری مجاہدین ضعیف العمرماؤں بہنوں شیر خواربچوں اور
بوڑھوں کے کافوری خون سے لکھی ہوئی ہے جسکا ایک ایک حرف اپنے اندر درد و
الم ،شجاعت و استقامت کی ہزاروں داستانیں سموئے ہوئے ہے۔سفاکیت کی
المناکیوں پر اہل ترس غیر متعصب ہندو دانشور صحافی اور یورپین میڈیا دہل
گیا۔معروف مصنف فضل احمد صدیقی کی کتاب> خوننابہ کشمیر< اور سول ملٹری گزٹ
لاہور میں ریڈ کراس کے ترجمان کا ایک ہی جملہ قیامت صغری کی حقیقت کو طشت
ازبام کرتا ہے۔میں نے ایک وسیع علاقے میں انسانی گوشت کے ٹکڑے کچلی ہوئی
پسلیاں اور سر کٹے دھڑ دیکھے۔انسانی جسم ٹینکوں کے کوہ ہمالیہ تلے دبے ہوئے
تھے۔کشمیریوں اور جموں کے باسیوں پر روا رکھے جانیوالے مظالم اتنے لرزہ خیز
اور انسانیت سوز ہیں کہ ظلم و بربریت کی پوری تاریخ میں نظیر ملنا مشکل ہے۔
بربریت اوردرندگی کے عریاں ناچ میں ہلاکو اور چنگیزہیج نظر اتے ہیں۔ ظلم و
استبداد کی ہولناکی پر ہندو تڑپ اٹھے۔کشمیر ٹائمز جے کے ریڈی نے اپنی اہ
فغاں یوں لکھی جو ملٹری گزٹ لاہور میں بھی محفوظ ہے۔ میں جموں کے جس ہوٹل
میں پناہ گزین تھا اسکی لابی سے میں نے جموں کی47 بستیوں کو انسانوں سمیت
راکھ ہوتے دیکھا۔ہندو مورخ پریم ناتھ نے اپنی شہادت و بیان میں لکھا کہ سکھ
ڈوگرے اور ہندو کشمیریوں کا صفایا کرنے میںمشغول تھے قتل و غارت کا یہ
سلسلہ صرف جموں تک محدود نہ تھا بلکہ ریاست کے ہر سرے پر مسلمانوں کا خون
بہہ رہا تھا۔ اکتوبر47 تا مارچ48 تک جموں کے شہری اور دیہی علاقوں میں 5
لاکھ کشمیریوں کو چن چن کر ہلاک کیا گیا۔ جموں کی مجموعی آبادی پانچ لاکھ
میں سے2.5 لاکھ عورتیں بچے اور بزرگ شامل تھے بچے کھچے کشمیری بے سرو
سامانی کے عالم میں علاقہ چھوڑ گئے۔برطانوی اخبار سٹیٹسمین کے اڈیٹرstephen
اپنی کتابHORNED MOON میں رقمطراز ہیں۔1948 کی خزاں تک5.5 لاکھ آبادی والہ
حسین اور جنت نظیرعلاقہ بنجر بن گیا۔دو لاکھ امریت ذدہ اہل کشمیر کا قتل
ہوا باقی کو وہاں سے ہانک دیاگیا۔ شہرہ آفاق انگلش مصنفalester lamb اپنی
معرکتہ الارا کتابcrises in kashmir میں اسکے رنج و الم اور روح پرور
سانحات کا درد کچھ یوں ہے۔جموں میں ہندووں کے مسلح دستے اور فوجی گھس ائے
اور قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والہ سلسلہ شروع ہوگیا۔مسلمانوں کی
ڈھائی لاکھ آبادی کو بیدردی سے موت کے سمندر نے نگل لیا۔لندن ٹائمز
نے17اکتوبر1948 میں لیڈنگ سرخی جمائی۔ڈوگرہ فورس اور انڈین فوجیوں نے
ملکر237000 مسلمانوں کا خون کردیا۔ قیام پاکستان سے لیکر سری نگر جموں اور
تہاڑ جیلوں میں حریت پسندوں پرروا رکھے جانیوالے لرزہ براندام مظالم سے یہ
حقیقت الم نشرح ہوچکی ہے کہ بھارتی قیادت نہ تو ایک لاکھ کشمیریوں کا خون
بہانے چھ دہائیوں سے جاری فوجی ظلمت کے باوجود کشمیریوں کے دل مسخر کرنے
میں کلی طور پر ناکام ہوئی بلکہ نہ ہی اٹوٹ انگ میں تحریک آزادی کے کاروان
کو روکنے میں کامیاب رہی۔پاکستان اوربھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر تین
جنگیں ہوچکیں۔ تنازعہ کشمیر کی کوکھ سے دونوں کو ایٹمی قوت کا ایوارڈ
ملا۔بھارت جنوبی ایشیا کا چوہدری بننا چاہتا ہے۔پاک بھارت کشیدگی نے ایٹمی
جنگ کے خطرات و خدشات کو مہمیز دے رکھی ہے۔ دونوں ملک ہرسال کھربوں کا جنگی
سازوسامان امپورٹ کرتے ہیں جس نے فریقین کی35 تا40٪ آبادی سے روٹی کے
دونوالے چھین لئے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔کیا یہ جمہوری سچ
نہیں کہ بھارت نے کشمیر پرغیر آئینی تسلط قائم کررکھا ہے؟ کیا unoنے اہل
کشمیرکے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے روئے ارض کی بگ ڈیموکریسی کو رائے
شماری کروانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور نہیں کی۔
جس ریاست پر 10لاکھ فوجیوں کا راج ہو جہاں فوجی عفت مااب نوجوان لڑکیوں کی
عصمت دری کی جاتی ہو جہاں ہزاروں بستیوں کو خش و خاک بنایا گیا ہو بھلا
ایسے کسی ملک کوin world big democracy کا ایوارڈدینا درست ہوگا؟ کیا عالمی
سطح پر متنازعہ قرار دیا جانیوالہ علاقہ اٹوٹ انگ کہلائے گا یا پھر شہہ رگ۔ |