عاشوراء میں امن کیسے قائم ہوگا؟

محرم الحرام کے لیے وسیع پیمانے پرماسٹر پلان ترتیب دیاگیا،رینجرزکوہائی الرٹ کیاگیا،ڈبل سواری پرپابندی لگادی گئی،یکم محرم الحرام کواہالیان کراچی وکوئٹہ سے موبائل فون کے استعمال کاحق بھی چھین لیاگیا،وزیرداخلہ نے توموٹرسائیکل چلانے پربھی پابندی عائدفرمادی تھی،وہ توبھلاہوسندھ ہائی کورٹ کاجس نے اس پابندی کومعطل کردیا۔پلان پرعمل درآمدکے طریقے وضع کرنے کاسلسلہ جاری تھاکہ عباس ٹاؤن میں موٹرسائیکل بم بلاسٹ کاواقعہ پیش آیا۔یہ دیکھ کرتوہمارے وزیرداخلہ صاحب کی گویابانچھیںکھل گئیں،انہیں موٹرسائیکل سواری پربابندی لگانے کی قوی دلیل مل گئی تھی،سوسندھ پولیس نے رٹ دائرکردی کہ یوم عاشوراء کے اختتام تک موٹرسائیکل سواری پرپابندی لگادی جائے،اب قرارپایاکہ جہاں مجالس ہوتی ہیں وہاں پانچ سومیٹرتک موٹرسائیکل سواری پرپابندی ہوگی۔ابھی یوم عاشوراء میں کئی دن باقی ہیں،دیکھتے جائیے،اورکیاکیاعالم ظہوروشہودمیں آتاہے۔ہمیں محرم الحرام کی ان تیاریوں کودیکھ کرایک لطیفہ نماواقعہ یادآگیا،جواستادمحترم علامہ ڈاکٹرعتیق الرحمن شہید کی کسی کتاب میں پڑھاتھا،لیجیے،آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
ایک مجذوب ستر پوشی کے تکلفات سے عاری دنیا ومافیھا سے غافل استغراق کے عالم میں پڑا ہوا تھا ۔معتقدین کا جمگھٹا لگنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھے ،جوان ،خواتین ونوعمر سب ہی قسم کے معتقدین کا جم غفیر جمع ہو گیا ، کچھ '' بنیاد پرستوں'' نے ستر پوشی کا مسئلہ اٹھا دیا ۔ چندہ جمع کیا گیا اور ایک خوبصورت سا لنگوٹ بنواکر مجذوب بابا کی ستر پوشی کردی گئی ۔ بابا کے آستانے پر دیگیں اترنے لگیں اور لنگر جاری ہوگیا ، جب کبھی استغراق کے عالم سے باہر آتے توکچھ نوالے ''بابا' کے حلق سے بھی نیچے اتار دئیے جاتے۔ بابا سے زیادہ خدام کو اپنی فکر رہتی اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی مجذوب کی دیکھ بھال کرنے لگے ۔ایک دن کھانا کھاتے ہوئے سالن کے کچھ قطرے لنگوٹ پر گر گئے ، اس روز تو چوہوں کی عید ہوگئی اور لنگوٹ مچھر دانی کا سماں پیش کرنے لگا ۔ معتقدین کو فکر لاحق ہوئی کہ چوہے کہیں حدود سے زیادہ آگے نہ نکل جائیں ۔چنانچہ ان ''دہشت گردوں '' سے نمٹنے کیلئے ایک بلی پالی گئی ۔ بلی کیلئے دودھ درکار تھا ، اس مقصد کیلئے ایک بکری پالی گئی ، بکری کی دیکھ بھال کیلئے ایک گڈریا رکھا گیا اور اس طرح زندگی کی گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں رہی ۔ ایک دن گڈریا کسی کام سے گیا ہوا تھا ،بکری بھوک کے مارے چلانے لگی ،بلی نے بھی دودھ کے انتظار میں میاؤں میاؤں کرکے ایک عجیب سماں برپا کردیا ۔ بابا کے استغراق میں خلل پیدا ہوا اور نیم وا آنکھوں سے اس ''چڑیا گھر '' کو تعجب کے ساتھ دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ لب ہلانے لگے جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں ۔ معتقدین گوش برآواز تھے ، کانوں کو ہونٹوں کے قریب کرکے بات سمجھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ، معلوم ہوا کہ بابا پوچھ رہے ہیں ''یہ سب کیا ہنگامہ ہے ؟'' جواب ملا یہ بکری آپ کے وسیع تر مفاد کیلئے پالی گئی ہے ، اس کا دودھ بلی کو پلایا جاتاہے ۔ پھر لب ہلے ، پوچھا ''بلی کس لئے پالی گئی ہے؟ َ'' جواب ملا چوہوں کو مارنے کیلئے ۔ ''چوہے کہاں سے آئے ۔''جواب ملا آپ کے لنگوٹ کو کاٹ کر سوراخ کردیتے ہیں ۔ بابا نے لنگوٹ کھول کر ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا'' یہ سب مصیبت اس لنگوٹ کی وجہ سے آئی ہے ۔''

آپ بھی شایدمجھ سے اتفاق کریں کہ فرقہ واریت کا لنگوٹ پاکستانی مجذوب کو اس طرح پہنا دیا گیا کہ اودھ کے نوابوں اور رانیوں کی رسوم ورواج کو قانونی شکل دے دی گئی ۔ عاشورہ پر دْلدل وماتمی جلوس کا سڑکوں اور گلیوں سے گزارنا انتہائی ضروری ہے ، لہذا سال بھر میٹنگیں چلتی ہیں کہ یہ تمام رسوم ورواج امن سے سرانجام پاجائیں ۔حکومت پاکستان ایک محرم کے بعد دوسرے محرم کی تیاری میں لگ جاتی ہے ، ایسا معلوم ہوتاہے کہ پاکستان بنا ہی اسی مقصد کیلئے تھا اور یہی دوقومی نظریہ کی بنیاد ہے ، اگر محرم میں ایک مخصوص فرقے کی رسوم ورواج ادانہ ہوسکیں تو پاکستان اقوام عالم کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا ، جدید ٹیکنا لوجی اور ایٹمی توانائی کے حصول سے ہم محروم رہ جائیں گے ۔ سرکاری اور نجی اداروں اور افراد کے ذریعے جس قدر اخراجات اس فرقہ وارانہ لنگوٹ کے تحفظ پر خرچ کئے جاتے ہیں اگر ان کا تخمینہ لگایا جائے تو کروڑوں نہیں اربوں کے حساب سے ہوگا اور اگر ایک منصوبہ بندی کے تحت یہی رقم قومی اور ملکی مفادات کیلئے صرف کی جائے تو چند سالوں کے اندر طب وصحت ، مواصلات و تعلیم اور غربت جیسے مسائل کو نہایت خوش اسلوبی سے حل کرکے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتاہے ، مسئلہ صرف لنگوٹ اتارکر پھینکنے کا ہے ۔

تاریخ شاہدہے کہ مسلمانوں میں اگرکوئی چیزنقطہ اتحادبن سکتی ہے تووہ دین اسلام ہے۔تمام مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت،حضوراکرم ۖ کی ختم نبوت،انبیائے کرام کی معصومیت اورصحابہ کرام ،اہل بیت عظام ،ازواج مطہرات کی عقیدت ومحبت اوران کے نقش عمل کونشان منزل بناناہے۔بالخصوص آخرالذکرچیزیعنی صحابہ کرام ،اہل بیت عظام ،ازواج مطہرات کی عقیدت ومحبت مسلمانوں کے لیے اس حوالے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ شخصیات وحی ونبوت اورہمارے درمیان ایک رابطہ پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ وہ گواہ ہیں جن کی گواہی پردین اسلام کی عمارت قائم ہے۔ان کومجروح کرنادرحقیقت دین اسلام کی عمارت کوڈھانے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ مصرنے اس بات کواپنے آئین کاحصہ بنادیاہے۔یہ آوازیں مسجدنبویۖ وحرم کعبہ سے بلندہوتی رہتی ہیں۔صحابہ کرام کی غلامی ہی وہ نکتہ ہے جس پراسلام دشمن قوتوں اوراسلام پسندوں میں افتراق ہے،گویاصحابہ ہی وجہ امتیازہیں۔اگرامت مسلمہ اس بات پرآجائے کہ تمام اصحاب واولادوازواج پیغمبر ۖ ہمارے ماتھے کاجھومراورسروں کاتاج ہیں،توافتراق وانتشارکی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔کیوں کہ دوسرے امورمیں امت الحمدللہ متفق ومتحدہے،جیساکہ شاعرمشرق علامہ محمداقباک نے فرمایاہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبیۖدین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

حاصل یہ کہ امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا راستہ یہی ہے کہ سب اس قدرمشترک پر اکٹھے ہو جائیںکہ تمام اصحاب واولادوازواج پیغمبر ۖ ہمارے ماتھے کاجھومراورسروں کاتاج ہیں۔کیامحرم الحرام کے لیے ماسٹرپلان ترتیب دینے والے اس جانب بھی توجہ دیناپسندفرمائیں گے؟
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308049 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More