سہ فریقی مذاکرات ،پاک افغان اعتمادسازی میں سنگ میل

حال ہی میں کابل میں سہ فریقی مذاکرات ختم ہوگئے۔ مذاکرات میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ، قائم مقام ایساف کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نکولس کارٹر اور افغان چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد نے شرکت کی۔یہ مذاکرات پاک افغان سرحد پر دراندازی ، حملوں اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاءکے تناظر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ مذاکرات کی سب سے اہم بات دونوں ممالک کے سرحدی روابط بہتر بنانے کے لئے ’ٹرائی پرٹائٹ بارڈر کوآرڈینیشن میکنیزم ‘ معاہدہ تھا جس پر تینوں فریقین نے دستخط کئے۔مذاکرات میں فریقین نے سرحد کے دونوں اطراف پائیدار کامیابی، امن اور استحکام کے حصول کے لیے تعاون جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے دورے کے دوران صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی۔ افغان صدر کے ترجمان کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں افغانستان میں امن کے عمل، اس ضمن میں مستقبل کے اقدامات اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا جائزہ لیا گیا۔جنرل اشفاق کیانی نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ہر اس کوشش کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام کا قیام ہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دورہ کابل اور سہ فریقی مذاکرات میں شرکت اس حوالے سے بھی خوشگوار ہے کہ یہ غیرملکی افواج کے انخلاءکے بعد دونوں ممالک میں اعتمادسازی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔

کسی بھی ملک کے خارجی و داخلی امور میں مذاکرات کی اہمیت میں انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مذاکرات کسی بھی تصفیہ طلب مسئلے کے پر امن حل کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں کسی قسم کا تعطل کسی بھی خطرے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے اور فریقین ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی انفرادی یا اجتماعی سطح پر مذاکرات کی نفی کرے تو معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف نجانے خدشات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں کچھ ایسے عناصر بھی آمڈ آتے ہیں جو اس صورتحال کافائدہ اٹھا کر اپنے مقاصدپورے کرتے ہیں اور حالات کو اپنے ہی رخ پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بداعتمادی کی اس فضا میں افواہ سازی کی فیکٹریوں کو بھی اپنے گل کھلانے کا خوب موقع ملتا ہے ۔ میڈیا بھی اس صورتحال میں اپنے اندازے اور قیاس آرائیوں کے تیر چھوڑ کو فضا کو مزید پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح حالات ایسا خطرناک رخ اختیار کرلیتے ہیںکہ ایک ذراسی چنگاڑی لاکھوں کروڑوں زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ مگر تباہی و بربادی اور لاکھوں انسانی جانوں کے زیاں کے بعد فریقین مذاکرات کی میز پر ہی میں پناہ لیتے ہیں ۔ آج کے جدید دور جب بہت سے ممالک ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، طرح طرح کے خطرناک ہتھیار پھن پھلائے کھڑے ہیں اور جب میڈیا اور انٹرنیٹ کی فراوانی اور بہتات ہوچکی ہے، ان حالات میں اس سے پہلے کہ کوئی قوت معاملات کو الجھا کر اپنے مقاصد حاصل کرلے ، مذاکرات کا رخ اختیار کرنا ایک صائب آپشن ہوگا۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جنگ 71ءکے بعد دونوں ممالک کئی مرتبہ جنگ کے دہانے پر پہنچے۔ خاص طور پر اس کے میڈیا کی شیطانیوں نے اس کی قیادت کو پاکستان کے خلاف خوب بڑھکایا مگر پاکستانی افواج کی تیاری اور عزم کے ساتھ ساتھ اس کی خطے میں امن کے قیام کی خواہش نے بھارت کو جنوبی ایشیاءمیں ایک خطرناک جنگ بڑھکانے کے مکروہ فعل سے باز رکھا ہوا ہے۔ اب نئے عالمی منظر نامے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے بہت سے دور ہوچکے ہیں جس سے دونوں ممالک کے باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ۔

دوسری جانب مغرب میں اپنے ہمسایہ ملک افغانستان جس کے ساتھ ہمارے صدیوں سے سیاسی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان جس نے افغانستان کی ترقی اور بہبود میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بلکہ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، پاکستان کے اس احسان کا بدلہ افغان حکومت نے اپنے معاندانہ رویوں سے دیا ہے۔ کرزئی حکومت جو عملی طور پر خود کابل تک محدود ہے، نے پاکستان کو مورودِ الزام ٹھہرانے کا موقع کبھی ضائع نہیں کیا۔ اس نے ہمیشہ پاکستان پر دراندازی اور مداخلت کے الزامات لگائے۔ حالانکہ متعدد دہشت گرد وقتا فوقتا پاکستانی علاقوں اور چیک پوسٹوں کو نشانہ بنانے کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان نے جب ان حملوں پر کابل سے احتجاج کیا تو افغان حکومت نے کبھی مثبت اقدامات کا یقین نہیں دلایا بلکہ الٹا پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ دونوں اسلامی ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی یہ نوعیت کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ دہشت گرد اب بھی دونوں ممالک کو اپنی مذموم سرگرمیوں کا تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔ کبھی پشاور میں دھماکہ ہوجاتا ہے تو کبھی کابل کے گلی کوچے خود کش حملوں سے لرز اٹھتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے تصفیہ طلب امور حل کریں اور دہشت گردوں کو مشترکہ دشمن گردانتے ہوئے ان کے خلاف مل کر کارروائی کریں۔ کابل اگر پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کرتا رہے گا تو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا عالم برقرار رہے گا۔ اس سلسلے میں کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات واقعی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ جو سرحدی علاقوں میں عسکری اور انٹیلی جنس رابطوں پر تعاون بڑھانے کے ساتھ ساتھ بداعتمادی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ایساف کی جانب سے 2014ءتک افغانستان میں مشن ختم کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے لہٰذا انہیں جاری رہنا چاہئے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی کابل کو یہ یقینی دہائی کہ پاکستان ہر اس کوشش کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام کا قیام ہے ، افغان حکومت کی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے کافی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کرزئی حکومت بھی جنرل کیانی کی اس سوچ کا مثبت جواب دے ۔ مثبت سوچ ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ اور دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرسکتی ہے لہٰذا اچھے مستقبل کے لئے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63146 views Columnist/Journalist.. View More