نعت ادب کی جملہ اصناف میں سب سے
محترم و مکرم ، محبوب و پاکیزہ اور تقدس مآب صنفِ سخن ہے۔ جو اپنی ابتداے
آفرینش سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف ، اخلاق و
کردار اور سیرتِ طیبہ کے اظہار و ابلاغ کا وسیلہ ہے۔ یوں تو نعت کی ابتدا
روزِ میثاق النبیین ہی سے ہوگئی تھی لیکن باضابطہ اس مقدس صنف کا آغاز
بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا ۔ نعتیہ ادب کے جید محققین کا اس
امر پر اتفاق ہے کہ نعت گوئی میں اولیّت کا شرف جناب ابوطالب کو حاصل ہے۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے
اولین نعت گو شاعر کہلائے۔ تاریخِ اسلام میں تین نعت گو اصحابِ رسول حضرت
حسان بن ثابت ، حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہم
’’ شعراے رسول الثقلین ‘‘ کے مہتم بالشان لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ ان
حضرات کے علاوہ دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی مدحتِ سرکار صلی
اللہ علیہ وسلم کے خوب صورت گل بوٹے کھلائے جن کی خوشبوئیں مشامِ جان و
ایمان کو معطر و معنبر کررہی ہیں۔ دراصل ان اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی
زبانِ فیض ترجمان نے وہ کارہاے نمایاں انجام دیے جو بڑے بڑے سحر البیان
فصحا اور خطبا سے ممکن نہ تھا، ان نفوسِ قدسیہ نے انسانی ادب کو نعت جیسی
عظیم المرتبت اور باعظمت صنف سے نہ صرف آشنا کیا بل کہ صاحبِ قرآن کو پیشِ
نظر رکھ کر قرآنی ادب کے ساتھ نعت گوئی کے لیے عقیدت و محبت اور تعظیم و
توقیر کے آداب بھی ظاہر فرمائے۔
صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے بعد اسلام جب رفتہ رفتہ اکنافِ عالم میں
پھیلنا شروع ہوا تو نعت گوئی کے فن میں بھی وسعت ہونے لگی ، عربی سے فارسی
اور فارسی سے اردو میں نعت گوئی کا مقدس سفر جاری رہا۔ ذخیرۂ نعت میں دنیا
کی بیش تر زبانوں میں نعتیہ کلام وافر مقدا ر میں موجود ہیں ، راقم نے اپنے
پی۔ ایچ۔ڈی مقالہ’’ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کاتحقیقی
مطالعہ‘‘ میں ۲۵ سے زائد زبانوں میں نعتیہ کلام بہ طورِ نمونہ پیش کیے ہیں۔
جس سے نعت کی آفاقیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اردو نعت گوئی میں کفایت علی کافیؔ ،امام احمد رضا بریلوی ، امیر مینائی ،
محسن کاکوری، حسن رضابریلوی، وغیرہ نے جو اُجلے نقوش مرتب کیے ہیں ان سے
اربابِ علم و دانش بہ خوبی واقف ہیں۔ عصری ادب کے منظر نامہ پرنعت گوئی اس
قدر مقبول ہے کہ سب سے زیادہ اب اسی صنف پر طبع آزمائی ہورہی ہے۔ اس
اعتبار سے اکیسویں صدی کو نعت گوئی کی صدی قرار دینا غیر مناسب نہ ہوگا۔
گہوارۂ علم و ادب مالیگاؤں کی علمی و ادبی اور مذہبی و سماجی حیثیت کو اک
جہان نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں بڑے بڑے علما، فقہا، حفاظ ، قرا، ادبا اور شعرا
نے جنم لیا اور مختلف میدانوں میں اپنی مخلصانہ خدمات کے ذریعہ شہر عزیز کے
نام کو وقار بخشا ۔ شاعروں اور ادیبوں کے اس شہر میں ادب کی جملہ اصناف پر
مسلسل کام جاری ہے ۔ کئی شعرا نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کو بھی
اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی ،
اوصافِ جمیلہ ، اخلاق و کردار ، سیرتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ سے فضاے بسیط
میں نور ِ یقین بکھیرنے کاکام انجام دیا اور دے رہے ہیں ان میں ایک نمایاں
نام قاری تابشؔ مالیگانوی کا بھی ہے۔
محترم قاری تابشؔ صاحب مالیگاؤں کے مشہور و معروف ، خوش الحان ، کہنہ مشق
اور بزرگ و محترم شاعر ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۹۱۹ء کو مالیگاؤں کے ایک علمی
گھرانے میں ہوئی ۔ صرف جماعت چہارم تک تعلیم حاصل کی ۔ دینی تعلیم کا حصول
کرتے ہوئے فن تجوید و قراء ت میں وہ کمال حاصل کیا کہ شہر کے خوش الحان قرا
میںشمار کیے جاتے ہیں۔ فنِ شعر گوئی میں مشہور شاعر وقار حیدری کی شاگردی
اختیار کی ۔ طبیعت مناسب اور موزوں تھی استاذِ محترم کی تربیت نے مزید کندن
بنادیا۔مشاعروں اورشعری نشستو ں میں آپ اپنے مخصوص لب و لہجے اور دل آویز
ترنم سے محفل پر ایک روحانی سماں باندھ دیتے ہیں جو قلب و روح کو متاثر
کرنے کے ساتھ کیف و سرور سے ہم کنار کرتے ہیں۔ عمر کی جس منزل سے آپ
گذررہے ہیں اس میں آواز کے زیر و بم میں ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے ، لیکن
آپ کی غنائیت، نغمگی اور پاٹ دار لب و لہجہ اب بھی جوان اور ترو تازہ نظر
آتا ہے جو آپ کی شخصیت کا اضافی اور توصیفی پہلوہے۔
یوں تو تابشؔ صاحب نے شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کے کام یاب جوہر
دکھائے ہیں ، آپ کی فکر رسا نے غزلیہ و بہاریہ شاعری کی لہلہاتی فصل بھی
اگائی ہے ۔ لیکن آپ نے نعت گوئی جیسی مقدس و محترم صنف کو بالخصوص بڑے
پیمانے پر برتا ہے اور شہرو بیرونِ شہر یہی آپ کا شناخت نامہ بھی ہے ۔ صنف
نعت گوئی پر آپ کی نظر گہری ہے، اس فن کی نزاکتوں اور باریکیوں سے آپ
بہرہ ور ہیں۔ آپ نے اس فن کو بہ حسن وخوبی نبھایاہے۔ آپ نے نعتیں لکھیں
اور خوب لکھیں ۔ غرض یہ کہ نعت گوئی سے آپ کا لگاو اظہر من الشمس ہے ۔ آپ
کے فرزند محترم صالح صاحب بھی اسی وصف سے متصف کہلاتے ہیں۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کا مجموعۂ نعت’’ متاعِ تابش‘‘ سجا ہے
اور جس نے مجھے اپنی گرفت میں لیا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ مجھ جیسا ادب
کا ادنا اور کم فہم طالب علم موصوف کے فکر وفن کی تہہ داریت کو کیسے کھول
سکتا ہے ۔ بہ ہر کیف! سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی کے
حوالے سے کچھ خامہ فرسائی کی جرأت کررہاہوں ۔
نعت گوئی کا سب سے بڑا محرّک عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ہمارے شعرا
نے اسی جذبۂ خیر کے اظہار و ابلاغ کے لیے نعت گوئی کو بہ طورِ وسیلہ
استعمال کیا، لیکن جاننا چاہیے کہ نعت ادب کی سب سے نازک اور مشکل ترین صنف
ہے اس میں زبان وبیان، افکار و موضوعات ، خیالات و احساسات اور لفظیات کے
انتخاب میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ یہاں شاعر بے ساختہ تیشۂ قلم
چلاتے ہوئے وارداتِ قلبی کو زیبِ قرطاس نہیں کرسکتابل کہ نعت گوئی میں اس
کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ وہ کسی خیال کو فنی پیکر دینے سے پہلے نپے تُلے
الفاظ میں حُسنِ خطاب اور حُسنِ بیان کے ساتھ اسے سوبار احتیاط کی چھلنی
میں چھان لے ۔ نعت گوئی میں افراط و تفریط اور بے جاخیال آرائیوں کی چنداں
گنجایش نہیں ، نعت حقیقتاً ’’اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کاکام نہیں
‘‘ سے عبارت ہے۔ یہ فن انھیں خوش نصیب افراد کو حاصل ہوتا ہے جن پر فضلِ
خداوندی اور عنایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی موسلادھار بارش ہوتی ہے۔
قاری تابشؔ صاحب کے کلام کے مطالعہ کے بعد یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے
فنِ نعت کی تمام تر قیود و آداب کی پاس داری کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی
کارگاہِ فکر میں اشعار کو ڈھالا ہے۔موصوف کی بیش تر نعتیں غزلیہ فارم اور
ٹیکنک میں ہیں۔ آپ کے نعتیہ کلام کے مطالعہ کے بعد یہ احساس دل پر منعکس
ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی شاعری کو شاعری براے شاعری نہیں بل کہ شاعری براے
بندگی سے آراستہ و مزین کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے۔
نعتیہ شعری کائنات کے دیگر نعت گوشعرا کی طرح تابش ؔ صاحب کی نعتیہ شاعری
کا محرک بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبۂ نیک ہی ہے۔ کہاجاتاہے
کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں شاعر کی فکر و نظر جتنی مخلصانہ
اور والہانہ ہوگی اس کے کلام میں اُتنا ہی زیادہ تاثیر کا جوہر جلوہ گر
ہوکر قاری و سامع کو اپنی گرفت میں لے گا۔ تابشؔ صاحب کے کلام میں عشقِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دل کش تابشیں ہیں وہ متاثر کن ہیں جن کے
پُرخلوص ہونے سے ناقد کو انکارممکن نہیں۔عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم میں والہانہ مگر محتاط وارفتگی، اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ کی آفاقیت
و ہمہ گیریت اور اسلام کے تفوق و برتری کا یقینِ کامل تابشؔ صاحب کے کلام
کے خصوصی عناصر ہیں۔ تابشؔ صاحب نے اپنے کلام کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ، خود شناسی، خدا شناسی اور عرفانِ نفس کے شانہ بہ شانہ معاشرے
میں سرایت کردہ، مغربی افکار و نظریات، بد اعمالیوں اور سیرتِ طیبہ سے دوری
کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کرکے ان کے اصلاح کی طرف توجہ مرکوز
رکھی ہے ؎
حکیمِ دوجہاں کو چھوڑ کر غیروں کی حکمت سے
مریضِ قعرِ ذلت کا مداوا ہو نہیں سکتا
ان کی بتلائی ہوئی راہ سے ہٹ کر مت چل
سرخ کانٹے ہیں کہیں اور کہیں ہیں دلدل
ان کی ہر بات کو مضبوطی سے پکڑے رہنا
چھوٹ جائے نہ یہ رسی کہیں کھل جائے نہ بل
آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ انسانیت کا کاررواں اپنا علمی
وفکری سفر صحیح سمت گامزن کرنے کے لیے جب تک سیرتِ طیبہ اور حضور انور صلی
اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سنتوں کا عامل نہیں بنے گا کامیابی اس کے قدم
نہیں چوم سکتی ؎
منزلیں بڑھ کے خود اس کا قدم لینے لگیں
جس نے جانی قدر و قیمت آپ کے پیغام کی
درسِ محبوبِ خدا بھول گئے بھول گئے
ورنہ بن جاتے ہر اک دور کی قسمت ہم لوگ
تابشؔ صاحب نے اپنی نعت گوئی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
اسوۂ حسنہ ، سیرتِ طیبہ، رحمتِ عامہ، شانِ کریمی و رحیمی، جود و عطا،
شفاعتِ کبریٰ، مساوات و اخوت ، صبر ورضا، ایثار و قربانی، شانِ مسیحائی،
ولادتِ باسعادت ، فصاحت و بلاغت ، اخلاق و کردار، قیادت و ہدایت اور عظمت و
رفعت کی آفاقیت کا بیان شاعرانہ نزاکتوں اور ادیبانہ مہارتوں کے ساتھ کیا
ہے۔ آپ نے سیدھی سادی اردو میں متاثر کن شعر کہے ہیں ۔ زبان و بیان کی
سادگی میں آپ نے الفاظ و معنی کی حرمت کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ لفظیات کے
انتخاب میں محتاط رہ کر اپنا مافی الضمیر ادا کیا ہے۔ سلیقہ مندانہ پیرایۂ
اسلوب میں سلاست و روانی، شگفتگی و برجستگی ، پختگی و شیفتگی، تشبیہات و
استعارات ،علامات و تلمیحات اور دیگر فنی محاسن کو ادیبانہ اور عالمانہ
چابک دستی سے استعمال کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے ، چند اشعار نشانِ
خاطر ہوں ؎
دل کتنے خورشید ہوئے ہیں ، ذرے بھی ناہید ہوئے ہیں
فیضِ پرتوِ نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم
جس سے غیروں کی بھی دیکھی نہ گئی تشنہ لبی
اس قدر درد بھری جود و سخا کس کی ہے؟
اب بھی دنیا گوش بر آواز ہے
تھے عجب معجز بیاں میرے نبی
دیکھیے تاثیرِ خطباتِ خطیبِ دوجہاں
گوش بر آواز ہیں محراب و منبر آج بھی
ایک لمحہ بھی جو حضرت کی حضوری میں رہا
ننگِ انساں بھی یقینا فخرِ انساں ہوگیا
بے جان کو جاں بخش دی پتھر کو زباں دی
انداز تو دیکھے کوئی اس چارہ گری کا
جواب ایسی کریمی کا دو عالم میں نہیں ملتا
کہ جس کے در پہ آکر دشمنوں نے بھی اماں پائی
جو ظلم قدسیوں سے بھی دیکھا نہ جاسکا
وہ ظلم اور آپ کا صبر و قرار لکھ
کچھ بن سکی نہ بارشِ رحمت کے سامنے
بجھتی گئی ہر آتشِ برق و شرار لکھ
تابشؔ صاحب نے بحور کے انتخاب میں بڑی مشاقی دکھائی ہے۔ آپ کی ردیفیں دل
کش ، زمینیں جدت و ندرت کی آئینہ دار اور بحریں انتہائی مترنم اور نغمگی و
موسیقیت سے معمور ہیں ، آپ کے کلام میں سوز بھی ہے ساز بھی ، جب آپ کا
خوش الحان لب و لہجہ اپنے مخصوص ترنم میں نعتیں گنگناتا ہے تو سننے والے
کیف آگیں جذبات سے سرشار ہونے لگتے ہیں۔ بزرگوں سے میں نے سنا ہے کہ
مشاعروں میں تابشؔ صاحب کا طوطی بولتا تھالوگ آپ کو سننے کے لیے گھنٹوں
بیٹھے رہا کرتے تھے ، جناب تابشؔ نے اپنے اس وصف کو رؤف و کریم آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کے کرم سے تعبیر کیا ہے ؎
اہلِ محفل کی زباں پر ہے جو تابشؔ تابشؔ
یہ انھیں کا ہے کرم ان کی عنایت اے دوست
تابشؔ صاحب کی شاعری کے خصوصی اوصاف میںایک ہی لفظ کو شعر میں بار بار
استعمال کرنے کے باوجود تکرارِ لفظی کے عیب کا نہ پایا جانا بھی ہے، آپ کے
کلام میں کئی ایسے اشعار موجود ہیں جن میں ایک ہی لفظ کو آپ نے ایسی فن
کارانہ مہارت سے استعمال کیا ہے کہ تکرار کے نقص کی بجاے پیرایۂ بیان کا
حُسن ، نغمگی اور دل کشی قاری و سامع کو متاثر کرتی ہے اور دل سے واہ وا!
کی داد نکلتی ہے ؎
حسرت کو ئی حسرت ہے تو ہے حسرتِ دیدار
ارمانوں میں ارمان ہے ارمانِ مدینہ
یہ کرم کس کا عطا کس کی ہے کس کا فیض ہے
جوشکستہ دل بھی رشکِ طورِ سینا ہوگیا
وہ سکونِ بے سکوں ہے وہ قرارِ بے قرار
وہ نبی کا دردِ الفت ہے جو درما ں ہوگیا
ادھر آؤ جنت کی جنت تو دیکھو
کھلا سب کی خاطر ہے بابِ مدینہ
تابشؔ مجھے تو ان کی شفاعت پہ ناز ہے
یہ ناز ہے و ہ ناز جسے بار بار لکھ
اسی طرح تابشؔ صاحب کے خامۂ گل رنگ نے نت نئی ترکیباتِ لفظی کا نگارخانہ
بھی اپنے کلام میں سجایا ہے ، دولفظی، سہ لفظی اور چہار لفظی تراکیب کے
استعمال سے بلاغت کا کام لیا ہے اوروسیع مفہوم کا اظہار ان تراکیب سے کرتے
ہوئے ان میں سماعی، مذوقی ، شامّی، بصری، نوری، جمالیاتی پیکروں کی
جھلملاہٹ سے اپنے کلام کو دوآتشہ بنادیا ہے ، یہ ترکیبیں اور پیکری بیانیہ
لطف و سرور کو دوبالا کرتے اور جمالیاتی حِس کو محظوظ کرتے ہیں ،بہ طورِ
مثال چند ترکیبیں ملاحظہ کرتے چلیں اور براہِ راست اس مجموعہ سے اُن اشعار
کا مطالعہ کریں جن میں یہ ترکیبیں چار چاند لگائے ہوئے ہیں :
’’تاثیرِ خطباتِ خطیبِ دوراں … غبارِ رہِ گذارِ مصطفی… شانِ فاقہ پروری …
بلا نوشانِ حق و آگہی … آئینۂ حق و صداقت … رشکِ بادشاہت … رشکِ گہر …
گنجینۂ رحمت … فیضانِ کلیمانہ … طلسمِ کفر وشر … مرغِ چمنستانِ مدینہ …
شمعِ شبستانِ مدینہ … قاطعِ بیش و کم … کاشفِ پیچ و خم … منتہاے کرم …
صریرِ قلم … مریضِ قعرِ ذلّت … شکوہِ جلوہ آرائی … فرازِ طور … امتیازِ
گلشن و صحرا … اعجازِ مسیحائی … فیضِ تابِ گویائی … جفاے اہل طائف … فیضانِ
نگاہِ لطف ِ سرور … میناے دل … بوے وفا … بہارِ حقیقت پیامِ محمد … گلستانِ
رحمت کلامِ محمد … فیضِ پرتوِ نورِ مجسم … آتشِ برق و شرار وغیرہ ۔
تابشؔ صاحب نے خالص غزلیہ لفظیات جیسے جام و مینا، شراب و ساقی ، تارو
رُباب اور مَے کش و مَے کدہ وغیرہ کو جس تقد یسی آہنگ کے ساتھ صحیح سیاق
میں استعمال کیا ہے وہ لوازماتِ نعت سے آپ کی باخبری کی بین دلیل اور آپ
کے قادرالکلام نعت گو شاعر ہونے کا عکاس ہے ؎
چلو مَے کشو! آؤ جی بھر کے پی لیں
کہ گردش میں ہے اب بھی جامِ محمد
عجب تھرتھراہٹ ہے تارِ نفَس میں
یہ کس دل نے چھیڑا رُبابِ مدینہ
یہ ہے روحِ کوثر یہ جانِ کوثر
شرابِ مدینہ شرابِ مدینہ
اسی سے نہ کیوں داغِ عصیاں کو دھولوں
ہے میناے دل میں شرابِ مدینہ
جو منہ سے لگی تو نہ چھوٹے گی تابشؔ
وہ ہے روح پرور شرابِ مدینہ
اک جام میں کھل جاتے ہیں اسرارِ حقیقت
اعجاز ہے کیا مَے کدۂ مصطفوی کا
علاوہ ازیںمضمون آفرینی ، خیال آرائی، شکوہِ لفظی، شوکتِ ادا، بندش و
چستی، ندرتِ بیان ، علوے فکراور اوجِ تخیل جیسے عناصر کا استعمال غزل میں
تو آسان ترین ہے لیکن نعت کے تنگناے میں اس کو برتنے کے لیے بڑی دیدہ وری
اور عرق ریزی کی ضرورت ہے ۔ تابشؔ صاحب کے یہاں معانی آفرینی اور ندرتِ
ادا کا کہیں کہیں ایسا اچھوتا اور نادر شعری اظہار ملتا ہے کہ بار بار
سبحان اللہ !کہنے کے لیے دل مچلنے لگتا ہے ، خاطر نشین کیجیے کلامِ تابشؔ
سے معانی آفرینی کی دل نشین تابشیں ؎
میرا دل دل نہیں مدینہ ہے
اور ہیں خیرالورا مدینے میں
ایماں کی خیرہو ارے ایماں کی خیر ہو
کا نٹوں کا ذکر اور مدینے کی راہ میں
ہوا سنگ سیماب اور آگ سونا
سنا جس نے ان کا بیاں پیارا پیارا
عیاں ہوگئے سب حقیقت کے جلوے
وہ سرمہ ہے نوری ترابِ مدینہ
اسی طرح بالکل اچھوتا اور نرالا خیال ، جس میں بلا کی جدت و ندرت پنہاں ہے
؎
تمنا کی ہر تشنگی کو بجھا لوں
اگر دیکھ پاؤں سَرابِ مدینہ
غزوۂ خندق کے موقع پر آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شکمِ ناز
پر پتھر باندھ لیے تھے تاکہ بھوک کی سختی سے کچھ افاقہ ہوسکے شاعرِ محترم
نے عشقِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے اجالے میں اس تاریخی واقعہ کوجس درجہ
حسین و جمیل اور دل کش و دل نشین پیرایۂ بیان میں پیش کیا ہے وہ دیدنی و
شنیدنی ہے ، طرزِ اظہا ر کا یہ بانکپن اور جدت و ندرت کی نادرہ کاری تابشؔ
صاحب کے اوجِ تخیل اور علوے فکر کی غمازی کرتی ہے ، ملاحظہ ہو گراں قدر
جوہر پارہ ؎
پتھروں نے لپٹ کے پیار کیا
فاقہ پرور شکم پہ لاکھ سلام
نعت گوئی کی ایک مبارک روش سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنا ہے
کہ خود خداوندِ قدوس جل شانہ اور اس کے فرشتے صلاۃ و سلام میں مصروف ہیں،
ہماری فضاوں میں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کاشہرۂ آفاق سلام ع
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
ایک مدت سے روشنیاں بکھیر رہاہے ، اس مقبولِ عام سلام کے تتبع میں بیش تر
شعرا نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ سلام پیش
کیا ہے، تابش ؔ صاحب نے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے جو سلام
بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذر کیا ہے ، اس میں بلا کی
نغمگی و موسیقیت، سلاست و روانی، معانی آفرینی، تراکیبِ لفظی اور پیکریت
موج زن ہے ، چند اشعار بہ طورِ نمونہ نشانِ خاطر کریں ؎
پاسبانِ حرم پہ لاکھ سلام
شانِ خیرالامم پہ لاکھ سلام
جس نے ذرے کو آفتاب کیا
اس نگاہِ کرم پہ لاکھ سلام
جو نہ بھولا ہمیں نہ بھولے گا
ایسے شاہِ امم پہ لاکھ سلام
دشمنِ جاں پہ رحم فرمایا
منتہائے کرم پہ لاکھ سلام
جینے مرنے کا راز سمجھایا
کاشفِ پیچ و خم پہ لاکھ سلام
جس نے نعتِ نبی پہ لب کھولا
اس صریرِ قلم پہ لاکھ سلام
مفخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ طیبہ کا شعری اظہار بھی نعت گو
شاعروں کے نزدیک مرغوب و پسندیدہ ہے ، ایسی نعتیہ غزلوں میں شعرا آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ورودِ مسعود سے قبل کے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے ولادتِ
طیبہ کے بعد ظہور پذیر ہونے والی اصلاحی ، انقلابی اور فکری تبدیلی کا بیان
کرتے ہیں ، تابشؔ صاحب کے یہاں بھی یہ اظہاریہ اپنی بھر پورآب و تاب کے
ساتھ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر جمیل کے نقوش کو ابھارتا ہے ؎
آمدِ مصطفی نور ہی نور ہے
جشنِ صلِ علا نور ہی نور ہے
بخش دی جو ہمیں زندگی کے لیے
وہ کتابِ ہدیٰ نور ہی نور ہے
حبیبِ کبریا آئے شہِ عالی مقام آئے
جہانِ رہبری میں رہبرِ ہر خاص و عام آئے
شیاطینِ جہاں کا ہر طلسمِ کفر و شر ٹوٹا
نویدِ خیر و برکت لے جب خیر الانام آئے
ہوئی جب رحمتِ کونین کی تشریف فرمائی
کھلابابِ شفاعت ، معصیت کوشوں کی بن آئی
مٹایا کس نے آکر امتیازِ گلشن و صحرا
نہ تھی کونین میں جس کی مثال ایسی بہار آئی
اسی طرح واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن کا ایک شعر تو زباں
زدِ خاص و عام ہے ، جو آپ کی مقبولیت پر دلالت کرتا ہے ؎
شبِ اسرا نمازوں کی کمی بیشی بہانہ تھی
خدا خود چاہتا تھا میرا پیارا بار بار آئے
قاری تابشؔ صاحب کا یہ دل کش مجموعۂ نعت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ آپ کی فنی گہرائی و گیرائی کو نمایاں کرتا ہے ، آپ نے اپنے کلام کو
محتاط فکر و تخیل کے ذریعہ آراستہ و مزین کرتے ہوئے قرآنی ادب کا مظہر
بنایاہے اوررحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور حیاتِ طیبہ
کی روشنی میں اہل اسلام کو زندگی گذارنے کا پیغام دیا ہے۔ فنِ نعت گوئی میں
تابشؔ صاحب کی یہ دل کش تابشیں یقینا لائقِ تحسین و آفرین ہیں ۔ راقم
شاعرِ محترم کے فکر وفن ، جذبہ و تخیل ، طرزِ اظہار ، تراکیب و پیکرات ،
اور افکار و موضوعات وغیرہ شعری و فنی محاسن کو نمایاں کرنے کا یقینا اہل
نہیں ہے لیکن یہ محترم صالح ابن تابش صاحب کی محبت اور حُسنِ ظن ہے کہ
انھوں نے مجھ جیسے بے بضاعت کو اس قابل سمجھا ۔ بہ ہر کیف ! اس خوب صورت
نعتیہ مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ
عزوجل اس کو شرفِ قبول عطا فرمائے ( آمین) تابشؔ صاحب ہی کہ ایک شعر پر
قلم روکتا ہوں کہ ؎
تابشؔ اس فیضِ نعتِ نبی کے طفیل
میرے دل کی صدا نور ہی نور ہے |