نعت اس بارگاہِ عالی وقار اور عزت نشان کی
قصیدہ خوانی اور مدح سرائی کا نام ہے جہاں بارگاہِ ایزدی کے مقرب قدسیانِ
کرام اس درجہ ادب و احترام سے حاضر ہوا کرتے ہیں کہ پروں میں آوازہ تک
نہیں ہوتا ؎
جہاں آتے ہیں یوں قدسی کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہی ہے اک مقدس بارگہ محبوبِ داور کی
(مُشاہدؔ رضوی)
نعت جملہ اصناف میں سب سے مشکل صنف ہے ۔ تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف
ہے۔ بڑھتا ہے تو الوہیت تک پہنچ جاتا ہے گھٹتا ہے تو تنقیصِ شانِ رسالت
مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوجاتی ہے ۔ دونوں ہی باتیں شاعرکے دنیوی و
اخروی نقصان و خسران کا پیش خیمہ ہیں۔ لہٰذا اس پُر خطر وادی میں سنبھل
سنبھل کر حزم و احتیاط کا دامن تھامت ہوئے گذرنے کی احتیاج و ضرورت ہے۔
یہاں پاے اسلوب میں شریعت کی بیڑیوں کی کارفرمائی ہے۔ ایوانِ نعت میں ’’
باادب … باملاحظہ‘‘کی صداے باز گشت لمحہ لمحہ گونجتی رہتی ہے نعت گوئی کسبی
کم وہبی زیادہ ہے کہ یہ خالص منعمِ حقیقی جل شانہٗ کی عطا سے ملتی ہے۔
مولانا محمد یونس مالیگ علیہ الرحمہ (م ۱۹۸۲ء ) علم و فضل میں کسی سے کم نہ
تھے ۔ علمی گیرائی و گہرائی کے ساتھ ہی اللہ رب العزت جل شانہٗ نے آپ کو
قلبِ گداختہ ودیعت فرمایا تھا۔آپ امام احمدرضا محدثِ بریلوی (م ۱۹۲۱ئ) کے
مسلکِ عشق و عرفان کے پیروکار اور داعی تھے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی
اور استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی (م ۱۹۰۸ئ) کے کلامِ بلاغت نظام کے دل
داہ و شیدائی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نہاں خانۂ دل میں عشقِ رسالت مآب
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاب ناک شمع روشن و فروزاں تھی۔ جس نے قلب و
روح کو صیقل کرکے آپ کو بھی گلستانِ نعت کا خوش الحان اور شیریں بیان بلبل
بنادیا ۔ علمی گیرائی و گہرائی اور عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی
حسین و جمیل آمیزش نے آپ کے نعتیہ کلام کو دو آتشہ بنادیا آپ کا کلام
ایک عاشقِ دل گیر کا ترانہ ہے جو حرزِ جاں بنائے جانے کے قابل ہے ۔ محاورہ
، تراکیبِ لفظی، ایجاز و اختصار، زبان و بیان، مجازِ مرسل ، تجانیس، مراعاۃ
النظیر، پیکر تراشی، صنائع لفظی و معنوی ، سراپا نگاری، اور دیگر شعری و
فنی محاسن کی ’’جناں بکف‘‘ کے ورق ورق میں ضیا باریاں ہیں اور سطر سطر میں
مسلکِ تعظیم و توقیر کی جلوہ ریزیاں ہیں ۔ افراط و تفریط اور خیالات کی بے
راہ روی سے ’’جناں بکف‘‘ یک سر پاک و منزہ ہے۔ غرض یہ کہ ’’ جناں بکف‘‘ کے
حرف حرف میں محبت و الفت کی عطر بیزیاں ہیں اور لفظ لفظ میں احترام و عقیدت
کی ضوفشانیاں ہیں ۔ ’’جناں بکف‘‘ سے چیدہ چیدہ اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
جب مجسم رحمتِ حق ہوکے آئے مصطفی
ظالم و جابر بھی رحم و عفو کا پیکر ہُوا
ہاں وہی انساں جو تھا حیواں صفت اولاد کش
پرتوِ فیضِ نبوت سے مَلک پیکر ہُوا
ہے سایا فگن ابر سا کونین کے سر پر
اے صل علا وسعتِ دامانِ محمد
دشتِ حرم کی یاد ستائے تو کیا کروں
دل کو بہارِ خلد نہ بھا ئے تو کیا کروں
اپنی پلکوں سے چنوں خارِ بیابانِ عرب
شاہ بلوائیں اگر جودِ کریمانہ کریں
ہجومِ غم کی ہر اک سمت سے چڑھائی ہے
مدد کا وقت ہے یامصطفی دہائی ہے
’’جناں بکف‘‘ میں کہیں کہیں تغزل کا رنگ و آہنگ لطف و سرور کو دوبالا
کردیتا ہے، ایسے مقامات پر مولانا یونس مالیگ کا محتاط قلم غزل کی رنگینیِ
بیان کے ہوتے نعت کے تقدس کو مجروح ہونے نہیں دیتا ۔ غزلیہ آہنگ میں رنگے
نعت کے چند اشعار بہ طورِ نمونہ ؎
وارفتگیِ شوق میں دستِ جنوں مرا
دامن کی دھجیاں ہی اُڑائے تو کیا کروں
سودا ہے سر میں گیسوے خم دارِ یار کا
صحرا نورد عشق بنائے تو کیا کروں
تمہاری یاد دل میں جاگزیں ہو
تو پھر کیا اور کوئی دل نشیں ہو
وہاں ذرے شرارِ طور بن بن کر چمکتے ہیں
تجلی زار ارضِ کوے جاناں ہوتی جاتی ہے
اے بادۂ عرفاں کے ساقی ، رہ جائیں نہ ہم تشنہ باقی
صدقے ترے میخانے کے ، عطا اک جام ہوجائے
کس مہِ افلاکِ خوبی کا زمیں پر ہے ورود
ذرّہ ذرّہ دہر کا صد غیرتِ اختر ہُوا
گل ہیں خنداں بلبلیں چہکیں شجر پھولے پھلے
اِک وفورِ کیف کا عالم گلستاں پر ہُوا |