جوں جوں انتخابات قریب آرہے
ہیںسیاسی کھلاڑی توجہ حاصل کرنے کے لیے نت نئے حربے آزما رہے ہیں۔عمران خان
کے بارے میں جب یہ افواہ پھیلی کہ نوجوان طبقہ اس کی طرف متوجہ ہو رہا ہے
تو نون لیگ لیپ ٹاپس، یوتھ فیسٹیول اور تعلیمی وظائف جیسے نمائشی اقدامات
کے زریعے میدان میں اتری ہے۔ پیپلز پارٹی بھی بے نظیر انکم سپورٹ جیسے ووٹ
خریدو پروگرام کے زریعے پہلے ہی مصروف عمل ہے۔کچھ دینی جماعتیں مسلکی
غباروں میں ہوا بھرنے میں مصروف ہیں اور باقی ہمیشہ کی طرح اللہ کی نصرت کی
منتظر ہیں۔ایسے گروہ بھی ہیں جن ک منہ میں تو رام رام ہے لیکن ان کی بغلوں
میں دھونس اور دھاندلی کے بڑے تیز چھرے ہیں۔
اس دوڑ میں حکومت نے ایک نیا گھوڑا داخل کرتے ہوئے گندم کی امدادی قیمت
1200 روپے فی من مقرر کر دی ہے۔مقصد واضح ہے کہ کسان واہ واہ کریں اور ووٹ
دیں۔یہ الگ بات ہے کہ ایک طبقہ آہ آہ بھی کرے گا جس نے یہ گندم خریدنی اور
استعمال کرنی ہے لیکن اس کی پرواہ کس کو ہے۔سابق وزیر اعظم گیلانی صاحب
خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور کہہ رہے ہیں کہ زرداری صاحب نے گندم کی
قیمت بڑھا کر کسانوں کے دل جیت لیے ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے
سے عوام سے روٹی مزید دور ہوجائے گی۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں
خوراک کا ذخیرہ طلب سے زیادہ ہے، اس کے باوجود 50 فیصد سے زائد گھرانوں کو
غذا کی کمی کا سامنا ہے ۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
پنجاب فلور ملزایسوسی ایشن کے عہدیداربھی کہتے ہیں کہ اس قیمت پر بیس کلو
آٹے کا تھیلہ 750 روپے سے تجاوز کر جائے گا اور عوام روٹی کو ترس جائیں
گے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد امدادی قیمت کاتعین
صوبوں کا اختیار ہے لیکن وفاق غیر آئینی اقداماتکر رہا ہے۔ایک طرف گیلانی
صاحب کی خوشی ہے،دوسری طرف اقوام متحدہ کا واویلاہ ہے،تیسری طرف فلور ملز
والوں کے حقائق اور چوتھی طرف عوام کو نگلنے والا مہنگائی کا اژدھا۔کس کی
سنیں؟ |