مولانا فضل الرحمان کی سیاست

ہمارے ہاں ایسے بہت سے سیاستدان ہیں جن کو تاریخ میں کسی نہ کسی حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ ان ہی میں سے ایک نام مولانا فضل الرحمان کا بھی ہے۔ مولانا صاحب کو نہ صرف عوام میں کسی حد تک مقبولیت حاصل ہے بلکہ بعض اہم شخصیات اور حکومتی حلقوں میں وہ خاصے جانے پہچانے جاتے ہیں۔

مولانا کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ خاصے صلحہ جو واقع ہوئے ہیں اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ سارے معاملات بیٹھ کر حل کئے جائیں، چاہے وہ سترہویں ترمیم کا مسئلہ ہو یا حقوق نسواں کا جن کو منظور کرانے میں ان ملاؤں کا خاص ہاتھ ہے۔

ججوں کی بحالی کا مسئلہ بھی ایسا ہی تھا پندرہ مارچ کا وہ تاریخی دن جب عوام چاروں صوبوں سے اکٹھی ہو کر سیلاب کی مانند اسلام آباد کی طرف رواںدواں تھی تو مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ لانگ مارچ صرف ایک صوبے کا مسئلہ ہے۔ ایک شخص کے لئے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔ لانگ مارچ پورے ملک کے لئے لاء اینڈ آرڈر پیدا کر سکتا ہے حالانکہ مولانا صاحب چیف جسٹس کی بحالی کے جلسوں میں بھی پیش پیش تھے۔

لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے معصوم بچوں اور بچیوں کی شہادت سے بھی پیدا ہوا لیکن سب جانتے ہیں کہ مولویوں نے جامعہ حفصہ کو بچانے کی کتنی کوشش کی حالانکہ یہ حکومت کا بھی حصہ تھے۔

سیاست دانوں کے قول و فعل میں تضاد تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مولویوں کی باتوں میں تضاد بلکل سمجھ نہیں آتا۔ اور یہ بھی ایک سوچنے کی بات ہے کہ ایم کیو ایم اور مولانا صاحب کی پارٹی ہمیشہ اقتدار میں کیوں ہوتی ہے ۔ کیا ان دونوں کا اولین مقصد اقتدار کی کرسیاں ہیں۔ اگر ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا ہے تو حکومت سے باہر رہ کر بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔

میں مولانا صاحب سے درخواست کروں گا کہ بےشک صلح بہترین چیز ہے لیکن صلح صرف اور صرف اصولوں کی خاطر ہونا چاہئے ناکہ حصول اقتدار کی۔
Muhmmad Usman
About the Author: Muhmmad UsmanCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.